лаہور ہائیکورٹ کی چیف جسٹس عالیہ نیلم نے فوری طور پر آئی جی پنجاب کو وکلا کے چیمبرز سیل کرنے پر ایک سخت نوٹس لگایا ہے، اور اس معاملے کی پھیلائی میں عدالت میں ان کی نوعیت کی پیشرفت دیکھی گئی ہے۔
چیف جسٹس کے ایسے اقدام کے بعد وکلا برادری نے اس معاملے کو انتہائی اہم قراردیا ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ انہیں اٹھانے کی ضرورت ہوگی۔
انہوں نے واضح کیا کہ وکلا کو کچھ بھی خلافِ قانون کا عمل کرنا ہرگز نہیں کیا جائے گا، کیونکہ بار اور بینچ دونوں ایک ہی نظامِ عدل کے ستون ہیں اور کسی بھی ادارے سے طاقت کے غلط استعمال پر عدالت ہرگز نظر انداز نہیں کرے گی۔
حکومتی عدالت میں کہا گیا ہے کہ پولیس سے مکمل مؤقف، سیلنگ کا جواز، موقع کی صورتحال اور متعلقہ افسران کا کردار ان سب کو رپورٹ میں پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
انہوں نے وکلا کو چیمبرزکی بندش سے متاثرہ اپنی مشکلات کا فوری ازالہ کرنے اور کسی بھی قسم کی بدانتظامی یا اختیارات کے غلط استعمال کی صورت میں ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم دیا ہے۔
اس نئی سماعت پر ہوگی، جو وکلا تنظیموں کے سامنے اپنی اور اپلایا جائے گا، جبکہ انہوں نے چیف جسٹس کے نوٹس کی طرف سے اچھی نیند لے رہے ہیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پھر بھی وکلاوں کو ان کی نوعیت پر انحصار کرنا پڑے گا، اور ابھی ان کے نوجوان برادری نے انہیں ایسے ہی دیکھا ہو گا جیسے ابھی سے وہ بھر پور چیمبرز سیل کرنے کی کارگirie کرتے رہتے ہیں، یہ تو یقیناً ایک طاقت کی مہلت ہوگی جس نے انہیں اچھی نیند لے رہی ہو…
ایسے ماحول میں، جو وکلا برادری کو واضع کر رہا ہے کہ کچھ بھی خلافِ قانون نہیں کیا جائے گا، یہ تو ایک اچھا شروعات ہے. انہوں نے صاف کہا کہ بار اور بینچ دونوں ایک ہی نظامِ عدل کے ستون ہیں، لیکن یہ سچ ہی نہیں. کیونکہ وہ پورا جھٹکا ہار کر رہا ہے.
انہوں نے ایسے معاملات کو انتہائی اہم قرار دیا ہے جو کہ وکلا کی زندگی سے بھی تنگ آچکے ہیں۔ مگر یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ چیف جسٹس نے ایسے معاملات کو بھی نظر انداز کر رہا ہے جو کہ وکلا کی زندگی میں ہمیشہ سے موجود ہیں، کیونکہ انہیں ایسی صورتحال میں پھنسایا جارہا ہے۔
اس معاملے میں چیف جسٹس کی شدید انتقاد تو ضرور محض۔ وہ کس طرح سیلنگ کا جواز دیکھتے تھے، یہ بات بھی نہیں پٹتی اور اس پر ایک سست نوٹس لگاتے ہیں؟ پہلے چیف جسٹس کا ایسی کام نہیں سنا جاتا جس میں ان کی بہت ہی مستقل اور دیکھ بھال والی صلاحیتوں کو چیلنج کرنا پڑتا ہو।
ایک بڑا پگنار ہو گیا ہے فوری طور پر آئی جی پنجاب کو وکلا کے چیمبرز سیل کرنا۔ یہ معاملہ تو اپنی ہی نوعیت کی پیشرفت دیکھ رہا ہے، ایسے میں جو لوگ وکلا اور عدالت دونوں کو بناتے ہیں ان کے لیے یہ کام بھی ضروری ہے۔
ان چیف جسٹس کے ایسے اقدام کی جانے سے وکلا برادری نے یہ معاملہ انتہائی اہم قراردیا ہے، اور ابھی بھی اس کو ہر جگہ پھیلایا جاتا ہے۔
یہ بات تو واضح ہے کہ وکلا کو کسی بھی خلافِ قانون کا عمل نہ کرنا چاہئے، کیونکہ ان بار اور بینچ دونوں کو ایک ہی نظامِ عدل کے ستون میں شمار کیا جاتا ہے۔ اور اگر کسی ایسے ادارے سے طاقت کا غلط استعمال کیا جائے تو عدالت ایسا تو نظر انداز نہیں کرے گی۔
بہت مایوس کن بات یہ ہے کہ وکلا برادری کو ایسی انتہائی اہم صورتحال میں پھنسنے کی ضرورت ہوئی، جس کے لئے چیف جسٹس نے اپنا آپ بیٹھایا ہوا! سیلنگ کے ایسے معاملے پر نوٹس لگانے سے پہلے کیا انہوں نے اس معاملے کو حل کرنے کی کوشش کی یا نہیں؟ اور اب چیف جسٹس کا نئی سماعت پر عمل شروع ہونے کا اعلان ہوا! یہ ایک انتہائی بدترین معاملہ ہو سکتا ہے، اور وکلا برادری کو اپنے آپ کو ایسی صورتحال میں پھنسانے کی ضرورت ہوئی!
یہ معاملہ ایک بڑا واضح ہے کہ وہ لوگ جو انفرادی طور پر ہائی کورٹ میں اپنی حریت طے کر رہے ہیں اور وہاں دوسرے اداروں سے ایسا نہیں کیا جا سکتا، اس لیے ان پر ایسی نیند لگائی جائے گی کہ ان کی نوعیت دیکھی جاسکے۔
ایسے میں ہمیں سوچنا پڑتا ہے کہ وہ لوگ جو اہم عہدوں پر فائز ہیں وہ ایسی صورتحال کو بھی سونپ کر دیتے ہیں، جبکہ وہ لوگ جو کم از کم اپنی آواز بلند کرتے ہیں ان کی نوعیت کو دیکھنا پڑتا ہے، اس لیے چیف جسٹس کی نیند اچھی نہیں رہ سکی گے।
اس معاملے میں انھیں آئی جی پنجاب پر توجہ دے کر ناکام بنایا گیا ہے۔ وکلا ایسی صورت حالوں سے باہر رہتے ہیں جن میں انھیں اپنی کوششوں کی وجہ سے کوئی فائدہ نہ مिलتا ہے۔
عجیب چیز ہے، آج تک وکلاں کو انچار جیل میں بھیجا گیا تھا، اور اب یہیں وہ فوری طور پر ایسے اچھلے معاملے کی پیشہوار کر رہے ہیں کہ لگتا ہے ان کو بہت میٹھا آگہ ہو گیا ہے! کیا انہیں ہر وقت کی سلیب کا خطرہ لازمی نظر آنا پڑ رہا ہے، جس لیے وہ ایسی جگہوں پر چل رہے ہیں جو انہیں بھڑکاوٹ میں ڈال دیتی ہے۔ اور آج بھی ان کی پریشانی کیا ہو گی یا وہ ایسا ہی رہیں گے جو سیکڑ سیکڑ تھوڑے ہی ہوئے!