پاکستان کی پرفارمنس میں آلودگی کا واقعہ ایک حتمی خطرہ بن گیا ہے، جب ناقدین نے کہا ہے کہ ہفتے کی صبح لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں نمبر ایک پر چڑھ گیا ہے، جس کے نتیجے میں فضا 363 ریکارڈ کیا گیا جو انسان کی صحت کے لیے انتہائی مضر سطح ہے۔
بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی دوسرے نمبر پر آئی جس میں ایئر کوالٹی انڈیکس 260 تک پہنچا، یہ بھی ایک خطرناک سطح ہے۔ تاہم فaisalabad نے صورتحال کو مزید سنگین کر دیا، جس میں ایئر کوالٹی انڈیکس 539 ریکارڈ ہوا جس کی وجہ سے یہ "خطرناک ترین" زمرے میں آ گئی ہے۔
گوجرانوالہ، ملتان اور سیالکوٹ میں بھی آلودگی کے ساتھ دیرپا رہا جس کی وجہ سے دھواؤ، صنعتی فضلہ اور فصلوں کے باقیات جلانے نے اس صورتحال کو مزید خراب کیا ہے۔
اس آلودگی کا باعث گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں، صنعتی فضلہ، فصلوں کے باقیات جلانے اور سرحد پار دھند(اسموگ) ہے جس کے باعث یہ صورتحال مزید بدل گئی ہے۔
لاہور اور فیصل آباد کی فضا زیادہ تر ٹریفک اور صنعتی آلودگی سے متاثر ہے، جب کہ کراچی میں بندرگاہی سرگرمیاں اور شہری ہجوم نے فضا کو آلودہ کر دیا ہے۔
اسلام آباد اور راولپنڈی میں تعمیراتی دھول اور گاڑیوں کا دھواں بڑے عوامل ہیں، اور ملتان میں زرعی فضلہ جلانے کے ساتھ سرحد پار آلودگی نے ہوا کو زہریلا بنا دیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر سال تقریباً 70 لاکھ افراد فضائی آلودگی کے باعث ہلاک ہوتے ہیں، جبکہ اربوں افراد مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ موسم کے لحاظ سے فضائی آلودگی میں بہتری آ سکتی ہے، تاہم اکتوبر سے فروری کے دوران دھند، کم ہوا اور سرد موسم کے باعث آلودگی زمین کے قریب جم جاتی ہے۔
جب تک حکومت مؤثر پالیسیوں اور موسمی کنٹرول اقدامات نہیں اپناتی، پاکستان میں یہی صورتحال دہرائی جائے گی۔
شہریوں کو آلودگی کے دنوں میں غیر ضروری طور پر باہر نکلنے سے گریز کریں، گھروں کی کھڑکیاں بند رکھیں اور ہوا صاف کرنے والے آلات استعمال کریں۔
بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی دوسرے نمبر پر آئی جس میں ایئر کوالٹی انڈیکس 260 تک پہنچا، یہ بھی ایک خطرناک سطح ہے۔ تاہم فaisalabad نے صورتحال کو مزید سنگین کر دیا، جس میں ایئر کوالٹی انڈیکس 539 ریکارڈ ہوا جس کی وجہ سے یہ "خطرناک ترین" زمرے میں آ گئی ہے۔
گوجرانوالہ، ملتان اور سیالکوٹ میں بھی آلودگی کے ساتھ دیرپا رہا جس کی وجہ سے دھواؤ، صنعتی فضلہ اور فصلوں کے باقیات جلانے نے اس صورتحال کو مزید خراب کیا ہے۔
اس آلودگی کا باعث گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں، صنعتی فضلہ، فصلوں کے باقیات جلانے اور سرحد پار دھند(اسموگ) ہے جس کے باعث یہ صورتحال مزید بدل گئی ہے۔
لاہور اور فیصل آباد کی فضا زیادہ تر ٹریفک اور صنعتی آلودگی سے متاثر ہے، جب کہ کراچی میں بندرگاہی سرگرمیاں اور شہری ہجوم نے فضا کو آلودہ کر دیا ہے۔
اسلام آباد اور راولپنڈی میں تعمیراتی دھول اور گاڑیوں کا دھواں بڑے عوامل ہیں، اور ملتان میں زرعی فضلہ جلانے کے ساتھ سرحد پار آلودگی نے ہوا کو زہریلا بنا دیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر سال تقریباً 70 لاکھ افراد فضائی آلودگی کے باعث ہلاک ہوتے ہیں، جبکہ اربوں افراد مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ موسم کے لحاظ سے فضائی آلودگی میں بہتری آ سکتی ہے، تاہم اکتوبر سے فروری کے دوران دھند، کم ہوا اور سرد موسم کے باعث آلودگی زمین کے قریب جم جاتی ہے۔
جب تک حکومت مؤثر پالیسیوں اور موسمی کنٹرول اقدامات نہیں اپناتی، پاکستان میں یہی صورتحال دہرائی جائے گی۔
شہریوں کو آلودگی کے دنوں میں غیر ضروری طور پر باہر نکلنے سے گریز کریں، گھروں کی کھڑکیاں بند رکھیں اور ہوا صاف کرنے والے آلات استعمال کریں۔