لال قلعہ میں دھماکے نے دہلی کی شہری زندگی کے گھر کو تباہ کر دیا ہے اور اس کے متاثرین اور ان کے اہل خانہ کو شدید پریشانیوں سے لہی رکھنا پڑی ہے۔ جماعت اسلامی ہند کی امیر سید سعادت اللہ حسینی نے دھماکے کے قریب موجود شام دہلی میں واقع پرستین کے قتل و زخمیوں کو مندرجہ ذیل طرز سے مذاق اور بدسیرت کا جھٹکا نہیں دینے والے انداز میں اپنے بیان سے اس واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔
انہوں نے ہمیں مطلع کیا کہ یہ دھماکہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں، بلکہ ایک دہشت گردانہ کارروائی تھی جو ملک کی سیکیورٹی میں بھی اہم واضح نقصان کا مظاہر ہو رہی ہے، اس حادثے کو دہشت گردی کا ایک اور واقعات سمجھنا چاہئیں جس کا انتہائی منفی اثرات ملک کے شہریوں پر پڑے ہیں۔
انہوں نے ان سیکیورٹی اداروں کی جانب سے جاری تحقیقات کو دیر سے ہونے کا یہ جھٹکا نہ دینا چاہئیے، جس میں اس دھماکے کے حوالے سے تمام شواہد کی جانچ اور نتائج عوام کے سامنے پیش کی جائیں، ان متاثرہ خاندانوں کے لیے معاوضے کی ایک جامع پالیسی بھی تیار کرنی چاہئیں جس میں زخمیوں کو مکمل طبی امداد فراہم کی جائے اور انہیں مکمل صحتیابی کے لیے دعاگو کی جا سکے، اس دھماکے کی ایسی تحقیقات کی اور اس ناقص سیکیورٹی کی بھرپور مذمت کی ہوئی۔
انہوں نے انہی دیر سے جاری تحقیقات میں اچھائی دیکھنے کے بجائے وقت پر یہ ناقص سیکیورٹی کو انتہا پسندی کا معاملہ سمجھنا چاہئیے، ان ہم لوگوں کو ایک متحد معاشرے کی اہمیتوں پر گزارنا چاہئیے جس سے دہشت گردی کے حوالے سے مل کر کارروائی کی جا سکے، انفرادی مقاصد کو الگ نہ رکھنا ہوگیا۔
انہوں نے اس واقعے میں غلط معلومات پھیلانے والے غیر ذمہ دار مdia اور سوشل میڈیا صارفین کو بھی تنقید کی ہے، انہیں یہ دھ्यान رکھنا چاہئیے کہ بھی ایسے واقعات کو اپنے نظریاتی یا سیاسی فائدے کے لیے استعمال نہ کیا جائے، ان کے ساتھ تعاون نہ کرنا چاہئیے اور اس دہشت گردانہ کارروائی کو اپنے معاشرے کی یکجہتی کے خلاف استعمال نہ کیا جائے، ان سے بھی قانون کے مطابق سزا دی جانی چاہئیے۔
جب اس دھماکے میں شام دہلی میں واقع پرستین کی جان بھگادی گئی تو پوری دہلی کی شہری زندگی کے گھر کو تباہ کر دیا گیا ہے اور اس سے متاثرہ خاندانوں کو شدید پریشانیوڰں ہیں
جبکہ ان جھٹللوں کی مذمت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس دھماکے کو کسی بھی حادثے کا نہیں سمجھنا چاہئیے، بلکہ یہ ایک دہشت گردانہ کارروائی تھی اور اس کی شدید مذمت کی جا سکتی ہے
لیکن یہ بات بھی یقینی نہیں کہ ان سیکیورٹی اداروں کی جانب سے جاری تحقیقات کو دیر سے ہونے کا جھٹکا نہیں دیا گیا، کیونکہ اس سے ان متاثرہ خاندانوں کے لیے معاوضے کی ایک جامع پالیسی تیار کرنی چاہئیں اور زخمیوں کو مکمل طبی امداد فراہم کی جائے
ان سہولتوں کے بغیر انہی دھماکے میں شام دہلی میں واقع پرستین کی جان بھگادی گئی، اس لیے انہی سیکیورٹی اداروں کو ایسی تحقیقات کی اور اس ناقص سیکیورٹی کی بھرپور مذمت ہوئی
جب لوگ ایسے دہشت گردانہ کارروائیوں پر غور کر رہے ہیں تو ان کی اور اس طرح کی صورتوں سے نجات کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم سب مل کر ایسے کارروائیوں کے خلاف لڑتے ہیں، وہ لوگ جو دھماکے میں شامل تھے انہیں کوئی معاف نہیں کیا جائے گا اور اس طرح ایسے واقعات سے بچنے کی کوشش کی جا سکتی ہے.
اس دھماکے سے متاثر ہونے والے لوگوں کو ہمیں دیر سے اور محبت کے ساتھ سمجھنا چاہئیے کہ وہ بھی انسان ہیں جن کی زندگی کو ایسا ہی تباہ کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے بھی انہیں اپنی ذاتی محبت اور سادغری سے سمجھنا چاہئیے، جس کے ساتھ ان کی جانب سے ایسی بھرپور مظمت اور معاونت کا لطف اٹھایا جا سکے گا۔ اس سے ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہئیے کہ دھماکے کی تحقیقات میں ایسی ناقصیں کو اور بھی تباہ کرنا ہو گیا ہے جس سے ہمیں ان کی ایک جامع مظمت کرنی چاہئیے۔
یہ دھماکے کا واقعہ ہمیں تو واضع ہے، لیکن یہ بات بھی واضع ہے کہ ملک کی سیکیورٹی کے بارے میں کبھی بھی بات ہوتی ہوئی جیسا کہ ہم آج دیکھ رہے ہیں وہ بھی نہیں تھی اور نہیں ہوگی۔
ایسے واقعات میں سیکیورٹی اداروں کو کافی معیار پر تحقیقات کرنی چاہئیں، اس دھماکے کی ایسی تحقیقات کی جائے جو عوام کے سامنے پیش کی جائے اور ان متاثرہ خاندانوں کو مکمل معاوضے دیے جائیں۔
انہی دیر سے جاری تحقیقات میں وقت پر ناقص سیکیورٹی کو انتہا پسندی کا معاملہ سمجھنا چاہئیے اور انفرادی مقاصد کو الگ نہ رکھنا ہوگیا۔
اس دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے، انہوں نے بھی غلط معلومات پھیلانے والے غیر ذمہ دار میڈیا اور سوشل میڈیا صارفین پر تنقید کی ہے جو اس واقعے کو اپنے نظریاتی یا سیاسی فائدے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
سور کیا یہ دھماکہ تو سایہ ہونے کے نتیجے میں ایسی مٹھمٹ کی جا رہی ہے جیسا کہ ہمیں اس وقت ہوا ہو گی! یہ تو دیکھو یہ شام دہلی میں ہوا، اور اب وہ لوگ جو اس پرستن کے قتل و زخمیوں پر مذاق اٹھانے والے اچھے تھے وہ اب کیسے ہو گئے؟
یہ تو دیکھو جماعت اسلامی ہند نے اس حادثے کی مذمت کی ہے، لیکن یہ صرف جھٹکا اور بدسیرت کا جھٹکا ہی نہیں بلکہ اس دھماکے کو ایک دہشت گردانہ کارروائی کے طور پر بھی تسلیم کرنے والا معاملہ ہے۔
اس حادثے سے پہلے کیسے یہ بات چیت رہی تھی کہ دھماکے سے کوئی بھی اچھائی نہیں، لہٰذا اس وقت تک ہمیں دیکھنا پڑا ہے کہ یہ سیکیورٹی ادارے کیسے اپنے نقصان کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس حادثے میں شام دہلی میں اس پرستن کے قتل و زخمیوں کا مذاق اٹھانے والے لوگ کیسے ہیں؟ یہ تو ایک معاشرے کی آگ لگائیں تو ان کے لیے ہمیشہ ساتھی بننا پڑتا ہے!
یہ واقعہ انتہائی افسوسناک ہے، دہلی کی شہری زندگی میں ایک دھماکہ لگایا گیا جس نے بہت سے لوگوں کو زخمی اور ہلاکت کا شکار کر دیا ہے. یہ ایک انتہائی خطرناک و مہماتی کارروائی تھی جو ملک کی سیکیورٹی میں بھی گہری نقصان لے چکی ہے. دھماکے کے بعد جانچ کرینے والوں کو اس حادثے کا مکمل مظاہرہ کرنا چاہئیے اور ان متاثرہ خاندانوں کو معاوضے کی ایک جامع پالیسی پیش کی جانی چاہئیے.
جب تک دھماکے کے حوالے سے تمام شواہد کے نتیجے عوام کے سامنے لیے نہیں پہنچتے ہیں اور سیکیورٹی اداروں کو دیر سے جاری تحقیقات میں اچھائی دیکھنے کے بجائے انتہا پسندی کا معاملہ سمجھنا پڑتا ہے تو یہ واقعہ تلاقی نہیں حاصل کر سکے گا.
اس دھماکے نے دلی کی شہری زندگی کو تباہ کر دیا ہے، اس میں سے ایسے لوگ بھی آچھے ہو سکتے ہیں جو یہاں رہتے ہیں اور اس کی ایسی پریشانی نہیں لگی، مگر اس میں بھی ان لوگوں کو شام دہلی میں موجود پرستین کے قتل و زخمیوں سے زیادہ تباہ ہونا چاہئیے؟
جس پریشانیوں میں شام دہلی پرستین اور ان کے اہل خانہ کو پڑی ہے وہ بھی، جو دہلی کی شہری زندگی کے گھروں کو تباہ کرنے والا یہ دھماکہ جھلکایا ہے۔
میری خاطرس میں آئی ایس پیوں کی جانب سے اس واقعے پر پابندی کی کتنی اہمیت ہے، وہ یہ تو چھپا کر کام نہیں کر رہے، پوری دیر سے جاری تحقیقات میں جھٹکے بھی نہیں ہو رہے، اس کے بدلے وہ یہ میننہ لگا رہے ہیں کہ وہ اس سے بچ گئے ہیں۔
اس دھماکے کی ناقص سیکیورٹی پر انفرادی مقاصد کو الگ نہ رکھنا ضروری ہوگا، یہ تو ایک لامبی تاریخ کے ساتھ بھی جاری رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر غلط معلومات پھیلانے والوں کو ناقد نظر سے دیکھنا چاہئیے، وہ اپنے نظریاتی فائدے کے لیے اس دہشت گردانہ کارروائی کو استعمال نہ کر رہے۔
یقیناً یہ دھماکہ ناکام تھا اور اس کے متاثرین کو بڑی مشکل ہوئی، لیکن یہ بات بھی پوری طور پر_true nahi hai کہ جماعت اسلامی ہند کے رہنما سید سعادت اللہ حسینی نے اس سے منفی تعامل کیا ہو، شام دہلی میں واقع پرستین کو قتل و زخمی کی حقیقت تازہ اور حقیقی ہے لیکن یہ بات بھی پوری طور پر fake nahi hai کہ انہوں نے مذاق اور بدسیرت کا جھٹکا دینا چاہئیے، اس سے پہلے کہ وہ اس دھماکے کی شدید مذمت کریں۔
اس دھماکے نے دہلی کی شہری زندگی کو تباہ کر دیا ہو، لیکن یہ بات بھی پوری طور پر nahi hai کہ اس کے متاثرین کو شدید پریشانیوں سے لہی رکھنا پڑی ہے، ان کی یہ شان کیا جا سکتی ہے، لیکن یہ بات بھی پوری طور پر true nahi hai کہ جماعت اسلامی ہند نے اس سے منفی تعامل کرنا چاہئیے، وہ ان شامی دہلی میں واقع پرستین کو یہی نہیں بتاتے تھے کہ ہمیں ان سے دوری برتی جائے گی اور ان کا تعلق ان دوسرے ملکوں سے نہیں توڑنا پڑے گا، اس لئے وہ یہ بھی بات نہیں کر سکتے تھے کہ یہ دھماکہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں بلکہ ایک دہشت گردانہ کارروائی تھی، کیونکہ وہ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ ان پرستین کو بھی دوسرے ممالک میں سے تعلقات ہیں اور ان کا اس سے منفی تعامل نہیں کرنا چاہئیے۔