میانمار کی فوجی حکومت نے ایک بڑا اعلان کیا ہے جس کے تحت اس نے 8,665 افراد کے خلاف مقدمات ختم کرنے اور انہیں معاف کرنے کا اعلان کیا ہے جو آئندہ انتخابات میں ووٹ ڈال سکیں گے۔ تاہم، مغربی ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان انتخابات کو ”جعلی“ قرار دیا ہے۔
فوجی حکومت نے یہ کہا ہے کہ اس نے 3,085 افراد کے خلاف سزا میں کمی کی اور 5,580 افراد کے خلاف مقدمات ختم کر دیئے ہیں جنہیں ابھی بھی آزاد ہیں۔ تاہم، یہ بات نہیں ثابت ہو سکی کہ ان میں کتنے لوگ سیاسی قیدی ہیں اور ان کی رہائی کب عمل میں آئے گی۔
فوجی حکومت کے ترجمان زاو من ٹن نے اعلان سے قبل کہا تھا کہ یہ اقدامات تمام اہل ووٹروں کو آزادانہ اور شفاف طریقے سے ووٹ ڈالنے میں مدد دینے کے لیے کیے گئے ہیں۔
میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد حالات کشیدہ ہیں، اس فوجی بغاوت میں نوبل انعام یافتہ رہنما آنگ سان سو چی کی منتخب حکومت کو ہٹا دیا گیا تھا اور وہ اب تک حراست میں ہیں۔ ملک بھر میں اس کے خلاف احتجاجات بڑھ کر مسلح مزاحمت اور نسلی ملیشیا کے ساتھ اتحاد کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم اسسٹنس ایسوسی ایشن فار پولیٹیکل پرزنرز نے کہا ہے کہ فوجی بغاوت کے بعد 30,000 سے زائد افراد کو سیاسی بنیادوں پر گرفتار کیا جا چکا ہے۔
میانمار کی فوجی حکومت دسمبر اور جنوری میں انتخابات کروانے کا منصوبہ رکھتی ہے، تاہم کئی اپوزیشن جماعتیں یا تو حصہ لینے پر پابند ہیں یا بائیکاٹ کر رہی ہیں، جس کی وجہ سے مغربی ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ان انتخابات کو فوجی حکومت کے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے جعلی عمل قرار دے چکی ہیں۔
فوجی حکومت نے یہ کہا ہے کہ اس نے 3,085 افراد کے خلاف سزا میں کمی کی اور 5,580 افراد کے خلاف مقدمات ختم کر دیئے ہیں جنہیں ابھی بھی آزاد ہیں۔ تاہم، یہ بات نہیں ثابت ہو سکی کہ ان میں کتنے لوگ سیاسی قیدی ہیں اور ان کی رہائی کب عمل میں آئے گی۔
فوجی حکومت کے ترجمان زاو من ٹن نے اعلان سے قبل کہا تھا کہ یہ اقدامات تمام اہل ووٹروں کو آزادانہ اور شفاف طریقے سے ووٹ ڈالنے میں مدد دینے کے لیے کیے گئے ہیں۔
میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد حالات کشیدہ ہیں، اس فوجی بغاوت میں نوبل انعام یافتہ رہنما آنگ سان سو چی کی منتخب حکومت کو ہٹا دیا گیا تھا اور وہ اب تک حراست میں ہیں۔ ملک بھر میں اس کے خلاف احتجاجات بڑھ کر مسلح مزاحمت اور نسلی ملیشیا کے ساتھ اتحاد کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم اسسٹنس ایسوسی ایشن فار پولیٹیکل پرزنرز نے کہا ہے کہ فوجی بغاوت کے بعد 30,000 سے زائد افراد کو سیاسی بنیادوں پر گرفتار کیا جا چکا ہے۔
میانمار کی فوجی حکومت دسمبر اور جنوری میں انتخابات کروانے کا منصوبہ رکھتی ہے، تاہم کئی اپوزیشن جماعتیں یا تو حصہ لینے پر پابند ہیں یا بائیکاٹ کر رہی ہیں، جس کی وجہ سے مغربی ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ان انتخابات کو فوجی حکومت کے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے جعلی عمل قرار دے چکی ہیں۔