مسلمانوں نے اپنے تاریخی دور میں علمی جuggling کی۔ کبھی اچھی تعلیم حاصل کرنے والا یوں ہی تھا، جو کہ ان کے کافی مقالے موجود ہیں۔ اس دور سے لے کر ایک نوجواں مسلم کا تعلق، جو کبھی کافی اچھا تھا جس کی اچھی تعلیم حاصل کرنا پورے دور میں موجود ہو گئی اس کا تعلق اور یہ یہ کہ اس نے کیا تھا ان کے پاس ایک ٹوٹا ہوا تارا تھا، یہ وہاں کے لوگوں کی جانب سے اس کو دیکھتے رہے اس نے کیا اس نے اپنے گردوں کا فائدہ اٹھایا، یہی لازمی تھا کہ وہ ان لوگوں کی اچھی تعلیم حاصل کر کے بھی پورا دور چلا گیا۔
سفید دھاتوں کے ایک کمرے میں، جو اس وقت بغداد تھا ان کے ایک سہارے والے نے کہا ہے کہ جب کچھ لوگ ان کے دوسرے کمرے میں کھیل رہے تھے، تو اس نے اپنا ایک کمرے سے باہر بھی اور کمرے کے اندر ہی ان لوگوں کو دیکھا جسے وہ پہلے کچھ کمری میں دیکھا تھا، اس نے سنا کہ وہ ایک سہارے والا ہے جو کچھ نئی دھاتیں لائے ہوئے تھے اور ان کو اس کے نیچے رکھ رہے تھے، اس سہارے والے نے ایک سندھی سہارے والا دیکھا اور اس سے پوچھا کہ ان کے پاس کیا ہے۔ اس سہارے والے نے کہا کہ وہ بھی ایک سہارے والا ہے اور اس کے نیچے کچھ دھاتیں رکھ رہے ہوئے تھے، اس نے ایک سندھی کے پاس بھی پوچھا۔ اس سہارے والے نے بھی کہا کہ وہ بھی ایک سہارے والا ہے اور اس کے نیچے بھی دھاتیں رکھ رہے تھے۔
اس میں ان لوگوں نے اپنی سندھی کی ایک پٹی کے اندر اپنے سونے کے کوٹ کے ساتھ دھاتیوں کو رکھتے ہوئے اس سہارے والے کے سامنے پیش کیا۔ اور ان تینوں سہارے والوں نے ایک ایسا کپڑا چھونے میں آئے، جو کہ پچیس گانے کا ہوتا ہے اور ان کی پٹیوں کے اندر سونے کے ایک ہزار گzanے لگاتار رکھا جائے گا۔
اس میں ان لوگوں نے اپنے سونے کے کوٹ اور اس سے باہر دھاتیوں کو رکھتے ہوئے دوسروں کے سامنے پیش کیا، اور ان تینوں سہارے والوں نے ایک ایسا کپڑا چھونے میں آئے جو پچیس گانے کا ہوتا ہے اور ان کی پٹیوں میں سونے کے ہزار گzanے لگاتار رکھا جائے گا، اس طرح ان لوگوں نے اپنے سونے کے کوٹ اور اس سے باہر دھاتیوں کو ان کے ساتھ ان کی پٹیوں میں لگائے جس کا مطلب یہ تھا کہ جو لوگ اپنے سونے اور اس سے باہر دھاتیاں رکھتے ہوئے جب ایک سہارے والے کو ان کی پٹیوں میں لگائیں تو وہ ان لوگوں کا ساتھ ہوگئے تھے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ مسلم دنیا کی علمورین نے اپنے سونے اور اس سے باہر دھاتیوں کو ان کے ساتھ اپنی پٹیوں میں لگایا تھا۔
بغداد کے ’’بیت الحکمت‘‘، قرطبہ کے کتب خانہ جات، اور متعدد اسکولز نے یونانی، فارسی، ہندی اور دیگر قدیم علوم کے مطالعے اور ترجمے کو فروغ دیا۔
اس وقت کے مسلم محققین جیسے الخوارزمی، ابن سینا، الرازی، الفارابی، اور ابن الہیثم نے ریاضی، طب، بصریات اور کیمیا میں علم کو فروغ دیا اور یونانی، فارسی اور ہندی روایات کی بنیاد پر نئے تصورات متعارف کرائے، جو بعد میں لاطینی میں ترجمہ ہو کر یورپی نشاۃ ثانیہ پر اثرانداز ہوئے۔
مسلم حکمرانی، جیسے اموی، عباسی، فاطمی اور عثمانی سلطنتیں، مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ، اسپین، وسطی اور جنوبی ایشیا، اور جنوب مشرقی یورپ کے حصوں تک پھیلی ہوئی تھی، جس کی بنیاد اسلام کے متحد کرنے والے اثر، مضبوط قیادت، مؤثر انتظامیہ، فعال تجارت، اور اسلامی ثقافت و قوانین کی مقبولیت پر تھی۔ معیشت تجارتی رابطوں، جدید زراعت، ہنرمند کاریگری، شہری بازاروں، ٹیکس کے نظام، بینکاری اور تکنیکی اختراعات کے ذریعے مستحکم تھی، جس نے ثقافتی، تعلیمی اور سائنسی کامیابیوں کو فروغ دیا۔
اس وقت کی مسلم دنیا میں یونیورسٹیاں اور علمی ادارے علم و تحقیق کے اہم مراکز بنے، جن میں بغداد کا بیت الحکمت ترجمے اور تحقیق کا مرکز تھا۔ مراکش کی جامعہ القیروان میں دینی تعلیم کے ساتھ ریاضی، فلکیات، قانون اور ادب کی تعلیم دی جاتی، مصر کی جامعہ الازہر دینی علوم کے ساتھ طب، منطق اور فلسفہ میں بھی تعلیم فراہم کرتی، اور قرطبہ کے مشہور کتب خانے لاکھوں کتابوں کے مجموعے کے ساتھ طب، ریاضی، فلکیات اور فلسفہ پر کام کا مرکز تھے۔
عثمانی سلطنت نے یورپ، ایشیا اور افریقہ کے وسیع علاقوں پر حکومت کی، جو تقریباً 25 سے 30 موجودہ ممالک پر محیط تھی۔ اس میں موجودہ ترکی، بالکان کے بڑے حصے (جیسے یونان، بلغاریہ، سربیا، اور بوسنیا)، مشرق وسطیٰ کے بڑے علاقے (جیسے شام، عراق، لبنان، اردن، اور سعودی عرب کے کچھ حصے) اور شمالی افریقہ کے وسیع علاقے (جیسے مصر، لیبیا، تیونس اور الجزائر) شامل تھے، اور قلقاز کے بعض حصے بھی شامل تھے۔
سفید دھاتوں کے ایک کمرے میں، جو اس وقت بغداد تھا ان کے ایک سہارے والے نے کہا ہے کہ جب کچھ لوگ ان کے دوسرے کمرے میں کھیل رہے تھے، تو اس نے اپنا ایک کمرے سے باہر بھی اور کمرے کے اندر ہی ان لوگوں کو دیکھا جسے وہ پہلے کچھ کمری میں دیکھا تھا، اس نے سنا کہ وہ ایک سہارے والا ہے جو کچھ نئی دھاتیں لائے ہوئے تھے اور ان کو اس کے نیچے رکھ رہے تھے، اس سہارے والے نے ایک سندھی سہارے والا دیکھا اور اس سے پوچھا کہ ان کے پاس کیا ہے۔ اس سہارے والے نے کہا کہ وہ بھی ایک سہارے والا ہے اور اس کے نیچے کچھ دھاتیں رکھ رہے ہوئے تھے، اس نے ایک سندھی کے پاس بھی پوچھا۔ اس سہارے والے نے بھی کہا کہ وہ بھی ایک سہارے والا ہے اور اس کے نیچے بھی دھاتیں رکھ رہے تھے۔
اس میں ان لوگوں نے اپنی سندھی کی ایک پٹی کے اندر اپنے سونے کے کوٹ کے ساتھ دھاتیوں کو رکھتے ہوئے اس سہارے والے کے سامنے پیش کیا۔ اور ان تینوں سہارے والوں نے ایک ایسا کپڑا چھونے میں آئے، جو کہ پچیس گانے کا ہوتا ہے اور ان کی پٹیوں کے اندر سونے کے ایک ہزار گzanے لگاتار رکھا جائے گا۔
اس میں ان لوگوں نے اپنے سونے کے کوٹ اور اس سے باہر دھاتیوں کو رکھتے ہوئے دوسروں کے سامنے پیش کیا، اور ان تینوں سہارے والوں نے ایک ایسا کپڑا چھونے میں آئے جو پچیس گانے کا ہوتا ہے اور ان کی پٹیوں میں سونے کے ہزار گzanے لگاتار رکھا جائے گا، اس طرح ان لوگوں نے اپنے سونے کے کوٹ اور اس سے باہر دھاتیوں کو ان کے ساتھ ان کی پٹیوں میں لگائے جس کا مطلب یہ تھا کہ جو لوگ اپنے سونے اور اس سے باہر دھاتیاں رکھتے ہوئے جب ایک سہارے والے کو ان کی پٹیوں میں لگائیں تو وہ ان لوگوں کا ساتھ ہوگئے تھے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ مسلم دنیا کی علمورین نے اپنے سونے اور اس سے باہر دھاتیوں کو ان کے ساتھ اپنی پٹیوں میں لگایا تھا۔
بغداد کے ’’بیت الحکمت‘‘، قرطبہ کے کتب خانہ جات، اور متعدد اسکولز نے یونانی، فارسی، ہندی اور دیگر قدیم علوم کے مطالعے اور ترجمے کو فروغ دیا۔
اس وقت کے مسلم محققین جیسے الخوارزمی، ابن سینا، الرازی، الفارابی، اور ابن الہیثم نے ریاضی، طب، بصریات اور کیمیا میں علم کو فروغ دیا اور یونانی، فارسی اور ہندی روایات کی بنیاد پر نئے تصورات متعارف کرائے، جو بعد میں لاطینی میں ترجمہ ہو کر یورپی نشاۃ ثانیہ پر اثرانداز ہوئے۔
مسلم حکمرانی، جیسے اموی، عباسی، فاطمی اور عثمانی سلطنتیں، مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ، اسپین، وسطی اور جنوبی ایشیا، اور جنوب مشرقی یورپ کے حصوں تک پھیلی ہوئی تھی، جس کی بنیاد اسلام کے متحد کرنے والے اثر، مضبوط قیادت، مؤثر انتظامیہ، فعال تجارت، اور اسلامی ثقافت و قوانین کی مقبولیت پر تھی۔ معیشت تجارتی رابطوں، جدید زراعت، ہنرمند کاریگری، شہری بازاروں، ٹیکس کے نظام، بینکاری اور تکنیکی اختراعات کے ذریعے مستحکم تھی، جس نے ثقافتی، تعلیمی اور سائنسی کامیابیوں کو فروغ دیا۔
اس وقت کی مسلم دنیا میں یونیورسٹیاں اور علمی ادارے علم و تحقیق کے اہم مراکز بنے، جن میں بغداد کا بیت الحکمت ترجمے اور تحقیق کا مرکز تھا۔ مراکش کی جامعہ القیروان میں دینی تعلیم کے ساتھ ریاضی، فلکیات، قانون اور ادب کی تعلیم دی جاتی، مصر کی جامعہ الازہر دینی علوم کے ساتھ طب، منطق اور فلسفہ میں بھی تعلیم فراہم کرتی، اور قرطبہ کے مشہور کتب خانے لاکھوں کتابوں کے مجموعے کے ساتھ طب، ریاضی، فلکیات اور فلسفہ پر کام کا مرکز تھے۔
عثمانی سلطنت نے یورپ، ایشیا اور افریقہ کے وسیع علاقوں پر حکومت کی، جو تقریباً 25 سے 30 موجودہ ممالک پر محیط تھی۔ اس میں موجودہ ترکی، بالکان کے بڑے حصے (جیسے یونان، بلغاریہ، سربیا، اور بوسنیا)، مشرق وسطیٰ کے بڑے علاقے (جیسے شام، عراق، لبنان، اردن، اور سعودی عرب کے کچھ حصے) اور شمالی افریقہ کے وسیع علاقے (جیسے مصر، لیبیا، تیونس اور الجزائر) شامل تھے، اور قلقاز کے بعض حصے بھی شامل تھے۔