شاہدین مصطفیٰ عامر قتل کیس میں فرد جرم آج بھی عائد نہ ہوسکا۔ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے مصطفیٰ عامر، ارمغان، شیراز اور کامران قریشی سمیت دیگر ملزمان کے خلاف فرد جرم کا عائد کرنے کو ٹال دیا ہے۔
صدر عدالت نے فیصلے میں پینسلنیا کو بھی شامل کیا ہے اور 31 دسمبر تک سماعت کو ملتوی کردیا ہے۔ اس فیصلے سے قبل کراچی سینٹرل جیل انسدادِ دہشت گردی کمپلیکس میں خصوصی عدالت نے مصطفیٰ عامر قتل کیس سمیت دیگر مقدمات کی سماعت ہوئی۔
جیل حکام نے ارمغان، شیراز اور کامران قریشی کو پکڑا ہے لیکن وکیلِ صفائی نے غیر موجودگی کی شانبہش کرتے ہوئے اس کا عائد کرنے پر کارروائی روک دی ہے۔
عدالت نے وکیلِ صفائی کو آئندہ سماعت پر بہر صورت میں موجودگی یقینی بنائی ہے اور مصطفیٰ عامر، ارمغان، شیراز اور کامران قریشی کے خلاف فرد جرم کی نئی تاریخ 31 دسمبر مقرر کردی ہے۔
صدر عدالت نے جیل حکام کو بھی ہدایت جاری کی ہے کہ آئندہ سماعت پر تمام ملزمان کو وقت پر عدالت میں پیش کرایا جائے تاکہ کارروائی مکمل ہو سکے۔
میں سوچتا ہوں کہ یہ فیصلہ اچھا ہوگا، دہشت گردی کی پناہ دھاندوں کو عدالت میں لانے کے لیے یہ بہت اہم ہے۔ لیکن ایک بات یہ ہے کہ جیل حکام نے ان ملزمان کو پکڑا ہے تو ان کی موجودگی کے بارے میں کوئی بات بھی چلنے دی جائے گی؟ یا اس نے ایسا کرنا تو بھی لیکن وکیلِ صفائی کی ووٹ پر یقین رکھتے ہوئے?
یہ فیصلہ بہت عجیب ہے. ٹھیک ہے کہ اس معاملے میں فرد جرم لگایا جا سکتا ہے لیکن یہ وہ شخص تھا جو خود ایسا کرنے کی کوشش کر رہا تھا. انیسالوں سے جاری کے بعد بھی جسمانی proves نہیں مل سکتی ۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ کسی کی آمرت کو ایک دوسرے شخص کے ذریعے دھمکی بھی بھی سکتا ہے۔
شہریوں کے حق میں یہ فیصلہ بہت اچھا ہے۔ نہ صرف وکیلِ صفائی کو چھت پر لانے سے روک دیا گیا ہے بلکہ جیل میں موجود دیگر ملزمان کو بھی وقت پر اپنے کیسوں کی سماعت کے لیے آئندہ سماعت پر بہر صورت پہنچانے میں معاونت کی گئی ہے۔
مگر یہ تو بھی بات کی جا رہی ہے کہ شاہدین مصطفیٰ عامر قتل کیس میں فرد جرم آج بھی عائد نہیں ہوسکے گا! انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے ایسا ہی فیصلہ کیا ہے جو 31 دسمبر تک سماعت کو ملتوی کر دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے کراچی سینٹرل جیل میں خصوصی عدالت نے مصطفیٰ عامر قتل کیس سمیت دیگر مقدمات کی سماعت ہوئی تھی۔
مگر یہ بات تو ایسے ہی ہے کہ وکیلِ صفائی نے غیر موجودگی کی شانبہش کرنے پر کارروائی روک دی ہے! اب وہ وکیلِ صافیت کے جال سے اٹھنا ہوگا۔
یہ واضح ہو چکا ہے کہ شاہدین مصطفیٰ عامر، ارمغان اور شیراز کو پکڑنے میں بہت ساری گھبراہٹی ہوئی ہے کیونکہ وہ پچھلے دنوں سے جیل میں رہتے آئے تھے اور ایسے میڈیا منشورز کے بعد اب بھی ان کی نیند نہ ہو سکتی ۔
اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ جو لوگ اس قتل کا شکار ہوئے انہیں حق و справ میں مدد ملے، ایسا فیصلہ لگ رہا ہے جس سے ہم محتاط ہو کر دیکھ رہے ہیں کہ یہ کیس کیس میں آئے گا اور کیسوں کو اس کے ساتھ چھپاکا دیا جائے گا؟
یہ سوچتے ہیں کے بھیڑ کی توسیع نے شاہدین مصطفیٰ عامر قتل کیس کو اور بھی پیچیدہ کر دیا ہے، پینسلنیا کی شامل کرنے سے یہ کیس ابھی زیادہ ترمزہ بن رہا ہے۔
اسے تو سمجھنا ہی مشکل ہوگا کہ ان سب افراد میں سے کون سی آئین کی گھریلو کارروائی پر چل رہے تھے اور پینسلنیا نے کیا کردار ادا کرتا ہے۔ ایسا محسوس کرنا بھی مشکل ہوگا کہ اس صورتحال سے یہ انصاف نہیں ملے گا جیسا لوگ چاہتے تھے، ابھی بھی کارروائی روکنے کی بات ہے تو ہو رہا ہے؟
یہ دیکھنا ہی دل کی چotiں لگا رہا ہے کہ یہ انصاف کیس بھی ایسے ہی تھام گئا جیسا ہو سکتا تھا اور ابھی آتاس کو سمجھنے کی کوئی آسان روش نہیں ہوا۔
یہ وہ صورتحال ہے جس سے لوگ کھینچتے ہیں... یہ وہ ماحولیات ہیں جس میں فوج کی جانب سے ایک اور ایک چال آ رہی ہے۔ اس صورتحال کو ٹالنے کا ایک ذریعہ یہ ہے کہ جیل حکام کو بھی ایسی ہدایت کی گئی ہے کہ تمام ملزمان کو وقت پر عدالت میں پیش کرایا جائے... لیکن یہ بات تو واضع ہے کہ اس صورتحال سے کوئی اچھا نتیجہ نہیں نکلا... پھر کیا کیا بھگتائیں چل رہی ہیں؟
یہ ایک بھی راز ہے کہ سوشل میڈیا پر ملازمتوں کی جانب سے آؤٹ کے لوگوں کو بھی اپنی زندگیوں کا محور بنایا جاتا ہے۔ اس صورتحال نے ملزمان کو وکیلِ صفائی اور جیل حکام دونوں پر زور دیا ہے۔ اگر اس صورتحال سے پھر ایک نئی چکر آتا ہے تو یہ وقت آیا کہ ہم اپنی زندگیوں کی جانب متمردی کرنا بھی شروع کریں اور اس لیے نہ ہونے والے فیصلے کو پہچانتے ہوئے، اپنے کفیلوں سے متعلق یقینات جگا کر اپنی خودمختاری کو جگایا جائے۔ اس میں صرف ایک بات سکھائی جاسکتی ہے کہ حقیقت ہی یہی ہے، لیکن دھنچڑ ہارنے پر بھی کوئی نہیں رہتا۔
یہ ٹھیک ہے کہ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے مصطفیٰ عامر، ارمغان اور شیراز کو جرم عائد کرنے سے روک دیا ہے... البتہ میں یہ سوچتا ہوں کہ پینسلنیا کی بات کرونا مشکل ہے... اور نہیں بلکل کہ وہاں سے پیسہ ملا ہوتا ہے؟ چلچل میں چلک سے ایسا لگتا ہے۔
یہ فیصلہ تو بہت خوشیاں لاتی ہے کہ سوشل میڈیا پر وہ لوگ جو مصطفیٰ عامر کی جانب سے جھوٹی گواہی دے رہے تھے، اب معاف ہون گے... لेकिन یہ سوال بھی آتا ہے کہ آسٹرڈیم کا سچا پہلو کیا ہے؟ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے وہ لوگ بھی اس فیصلے میں شامل کر لیے ہیں جو سوشل میڈیا پر عام طور پر منفی نقطہ رکھتے ہیں... یوں یہ کہتا ہے کہ اب ان کا بھی وقت لئے بن سکتا ہے کہ وہ اپنی جگہ پر پڑھے...
Wow! یے تو ہر گز فیصلے نہیں آ سکتا کیا؟ ایک بار پھر وکیلِ صفائی نے شاندار کارروائی کی ہے، جبکہ عدالت نے بھی اپنے فैसलے میں پینسلنیا کو شامل کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ تمام ملزمان کو ٹال لیا گیا ہے۔
یہ دیکھنا مشکل ہے کہ نئی عدالت میں بھی یہی معاملات آ رہے ہیں۔ شاہدین مصطفیٰ عامر، ارمغان، شیراز اور کامران قریشی کی صورت حال کچھ نئی نہیں ہو رہی، صرف اس کا نام بدل دیا گیا ہے۔ وکیلِ صفائی نے ایسا تو کیا ہو سکتا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی اچھا نہیں ہے، حالانکہ شاہدین مصطفیٰ عامر کی صورتحال سب پر نظر پڑتی ہے لیکن وہ کس طرح اپنی جان کھو سکتا ہۏ۔ یہ بھی دیکھنا مشکل ہے کہ جیل حکام نے ملزمان کو آگے لے رکھنے کی کوشش کی، لیکن وکیلِ صفائی نے انہیں اپنی جان پر چھوڑ دیا ہے۔ یہ تو ایک جال ہے جو ان میں سے کوئی بھی ختم کرنا چاہتا ہے۔
یہ فیصلہ تو بھی عجیب ہے کہ آسمان و آدمی کی ایسی صورتحال میں فرد جرم کا عائد نہ ہوسکا، یہ بات سچ ہے کہ شاہدین مصطفیٰ عامر کی قتل کیس میں یہ فیصلہ تو آزادیوں کو بھی دکھانے والا ہے۔
شہریوں پر یہ مظالم نہ ہونے چاہئیں، ایسے میڈیا کے بھی نہ ہونا چاہئیں جو لوگوں کو غلط فہمی پر رکھتے ہیں۔
جیل حکام کی جانب سے یہ بھی کوشش کرنی چاہئی جس سے تمام ملزمان اس صورتحال میں آہستہ آہستہ پیش کئے جائیں تو دوسری طرف یہ فیصلہ اچھی طرح سمجھنے میں آ جائے گا۔