سہیل آفریدی نے اپنے خطاب میں خیبر پختونخوا کے اس وقت کی صورت حال پر زور دیا جس میں صوبے میں جنگی حالات نافذ ہو رہے ہیں اور لوگ تھک گئے ہوئے ہیں اس وقت کے حالات کو سمجھنے والے انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ خیبر پختونخوا میں کسی اور راج کی ضرورت نہیں، ہمت ہے تو گورنر راج لگا کر دیکھیں، ہم نہیں ڈرتے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ بند کمروں کی پالیسیوں کو خیبر پختونخوا میں لागू کرنے والوں کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ وہ لوگ جو یہاں رہتے ہیں، ان کی پوری زندگی کو آسان بنانے میں ان کی مدد کی جائے۔
سہیل آفریدی نے کہا ہے کہ چاہتا ہوں کہ صوبے کے ہر محکمے میں خصوصی افراد موجود ہوں، خصوصی افراد کے اسکولوں کیلئے بسائیں اور سائیکل دئیں جائیں گی۔ ضم اضلاع میں جنگی حالات میں معذور لوگوں کی ایک ارب روپے سے معاونت کرنے کا ارادہ ہے، اور انki کے حل کیلئے ترجیحی بنیادوں پر فنڈز دیں گے۔
اس طرح انہوں نے بتایا کہ وفاقی حکومت کے پاس ہمارے 3 ہزار ارب سے زائد کی رقم موجود ہے جو اس وقت کے معاشرتی مسائل کا حل کیلئے استعمال کی جا سکتی ہے۔
بھی بھی، یہ خیبر پختونخوا میں جنگی حالات ہو رہے ہیں تو کہیں سے پھر کہیں سے، لوگ تھک گئے ہوئے ہیں... لاکھ لاکھ ناکام پالیسیوں کے بعد ابھی یہ واقعتا ہوا... اور سہیل آفریدی نے کہا کہ کیے گئے خطرات کو روکنے کے لیے چاہتا ہوں کہ وفاقی حکومت نہ سترہ ہزار ارب سے زائد کی رقم اس وقت کے معاشرتی مسائل کا حل کیلئے استعمال کرے... لیکن یہ دھोखے پھونکنا بھی ضروری ہوگا...
یہی بھی ہو گیا، پھر بھی کچھ نہیں ہوتا ، یہاں تک کہ اس وقت بھی لوگ تھک گئے ہوئے ہیں اور کتنی مہنگی پالیسیوں کو ان پر لگایا جارہا ہے، یہ وہی نہیں ہوا جس کی سہیل آفریدی نے بولا ، اس میں سہولت اور معاشرتی سمجھ کی کمی ہے
فیکس کروائیں تو، ان کا یہ کہنا کہ کسی اور راج کی ضرورت نہیں اور ہمت ہو تو گورنر بن کوئی بھی سمجھتے ہیں ، لگتا ہے کہ ان کا خیال یہی ہے کہ وہ ہمیشہ اچھے ہیں اور ہم نہیں ڈرتے، بلیک آؤٹ لگائیں تو، ان کی پیروکاروں کو بھی معلوم ہو جائے گا
اس بات پر زور دیا گیا کہ صوبے میں لوگوں کی پوری زندگی کو آسان بنانے میں مدد ملنی چاہئے، اور انki کے حل کیلئے ترجیحی بنیادوں پر فنڈز دیں گے، یہی نہیں ہوا جس کی بھارتی حکومت نے پہلے کیا ، اب وہی تاخیر کرتے ہوئے چلا آ رہے ہیں
یہی نہیں، وفاقی حکومت کو ایسی پالیسیوں سے لگن ہوگی جو لوگوں کو دھمکیوں میں نہیں جبکہ زندگی کو آسان بنائے گی، یار اس وقت کی حالات کو سمجھنا تو ایسا ہے لیکن وفاقی حکومت کے پاس سے 3 ہزار ارب روپے ایسی معیشتوں کو بڑھانے کے لئے استعمال کی جاسکتی ہیں کہ زندگی کسی بھی ماحول میں آسان بنائی جا سکتی ہے۔
کیچ تھی، خیبر پختونخوا میں یہ حالات کس طرح آ رہے ہیں! یہاں لوگ اس وقت تک اٹھتے ہیں جو چاروں طرف سے جنگ ہو رہی ہے، اور کوئی بات بھی نہ ہو سکتی کیونکہ کسی کا دوسرا بھی یہاں نہیں آ سکتا… پوری زندگی میں یہی کہی دیتے رہتے ہیں، اور ڈارٹنے کی ہی بھی جگہ ہو جاتی ہے… اس طرح کی حالات میں بھی کوئی بات نہ ہو سکتی کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ ہم یہاں سے اپنی زندگی چھوڑتے جائیں…
جب تک یہ بات یقین نہیں تھی کہ میں ایک ارب روپے سے معذور لوگوں کو معاونت کرائیں گا، تو میرا منصوبہ کام ہو گیا۔ یہ بات بہت اچھی ہے کہ وفاقی حکومت کے پاس ایسے بھی پائے جائیں گے جو اس سے زیادہ میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ لیکن یہ بات تو صاف ہے کہ وہ لوگ جو بے روزगاری کی وجہ سے لاتھے ہیں ان کی زندگی کو آسان بنانے کیلئے کسی ارب روپے کی ضرورت نہیں ہوگی، یہ بات تو پوری حد یقین کے ساتھ بتائی جا سکتی ہے۔
ایسے میں کیا ہو رہا ہے، خیبر پختونخوا میں لوگ بھکھ مار رہے ہیں اور وفاقی حکومت کو ابھی تک اس کا حل نہیں بنایا ہے? سہیل آفریدی کی بات تو بہت سہی ہے، ہم کہتے ہیں ہمت ہے تو گورنر راج لگا کر دیکھیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وفاقی حکومت کو ایسے لوگوں کی مدد کرنی چاہیے جو اس وقت ساتھ نہیں دے رہے ۔ انki کے حل کیلئے 3 ہزار ارب روپے کے فنڈز دی جائیں گے، یہ بھی ایک سچا فریڈم ہے کیونکہ وہ لوگ جو اس وقت مہنغا بن رہے ہیں، ان کو بھی اچھی زندگی دی جائے۔
یہ لوگ یہ بتاتے ہیں کہ 3 ہزار ارب روپے کس کے لئے ہیں؟ یہ معاشی گھر کی معیشت کو ہٹا کر ایک شخص کے لئے ہی نہیں چل سکتا۔ پانچ ارب روپے کس کام کے لئے ہیں؟ یہ معاشی گھر کو بھرنا ہی نہیں چل سکتا۔
میرے خیال میں یہ بات بھی صوبر سہیل آفریدی نے پہلی بار بتائی ہے کہ چاہتا ہوں کہ لوگ تھک گئے ہوئے ہیں اور اس وقت کی حالات کو سمجھنے والے ہیں کیوں نہیں وفاقی حکومت نے بھی ایسا کیا، یہ وہی معاشرتی مسائل ہیں جو انہوں نے بتائے ہیں، اور ابھی انہوں نے بتایا کہ 3 ہزار ارب روپے موجود ہیں تو یہ بھی اس بات کی proves ہیں کہ وہ معاشرتی مسائل حل کرنے کے لئے انہی ریزروز کو استعمال کیا جا سکTA ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ یہ بھی ایک دوسری بات ہوگی کہ کیوں نہیں وہ معاشرتی مسائل حل کرنے کی پوری پوری کوشش کر رہے ہیں؟
سڑکوں میں لال چھپنے والی ریلوں کو ٹھیک کرائی جائے گی تو حالات تیزی سے بڑھتے ہیں، نا ہی کئی کیوں نہیں دیکھتے کہ اس وقت کی معاشی समसوعن میں انہی ریلوں کو ٹھیک کرائیں اور لوگ اپنی فٹ پڑھ کر چل سکتے ہیں، نا ہی ٹیکسی کا بھی ایسا ہی استعمال کیا جائے ، جو نہیں تو پوری دuniya کی طرح گاڑیوں پر سڑکوں میں لال چھپنے والی ریلوں کو ٹھیک کرائیں اور ڈریپ کیا جائے
اسے سمجھنا چاہیے کہ پختونخوا کا حالات بہت گھنٹا ہو رہا ہے اور لوگ بھی تھک ہوئے ہوئے ہیں۔ اب وہاں کی صورتحال کو سمجھنے والے سہیل آفریدی نے کہا کہ اس وقت کو سامنا کرنا چاہیے اور یہ راسخ ہونا چاہیے کہیں بھی ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
جس طرح سہیل آفریدی نے خیبر پختونخوا کے لوگوں کے لیے ایسی منصوبوں کو پیش کیا جیسے انکی زندگی کو آسان بنا سکے وہی ہونا چاہیے! اس وقت کے معاشی مسائل کا حل کیلئے یہ منصوبے استعمال کیے جا سکتے ہیں...
بھی پچیس سال پہلے بھی یوں ہی تھک گئے ہوئے لوگ تھے، اور اب بھی ایسا ہی ہوتا جا رہا ہے۔ لالچ پوری نہیں کرتی۔ ہمیں اپنے آپ کو یہ ساڈھا بنانے کا موقع دے رہے ہیں کہ آسان بنائیں لوگوں کی زندگی۔ اس وقت تک ہم نہیں ڈرتے جب تک کہ ہم کو ہمت ہو جائے۔ سہیل آفریدی کا یہ خطاب پورا کرنا ضروری ہے، پھر بھی ابھی تک نہیں چلا تھا۔ ہمیں اپنے گورنر کے ساتھ ایک اور ہمت رکھنے والا قدم اڑانا ہوگا۔
یہ بہت ہی جگہی گھنٹے ہیں! سہیل آفریدی کو یہ خیال کیسے آیا کہ انki پالیسیوں سے ہمارے لوگوں کی زندگی زیادہ آسان ہو جائے گی؟ ایک ارب روپے معاونت کرنے کا ارادہ تو یقیناً گروہی ماحول بنایے گئے لوگ یہی کھیل رہے ہوں گے!
یہ واضح ہو چکا ہے کہ خیبر پختونخوا میں رہنے والے لوگ بھی ابھار کر رہے ہیں، یہ معاشرتی مسائل تو بھی نہیں ٹھہر سکتیں، اور حکومت کو اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے। انہوں نے بتایا ہے کہ ہمت ہے تو گورنر راج لگا کر دیکھیں، لیکن اس میں کسی کی رائے یا مشورے کی ضرورت نہیں۔ مجھے یہ بات متعجب ہے کہ وہ لوگ جو پوری زندگی کو آسان بنانے کیلئے ہماری مدد کرنے کو تیار ہوں گے، ان کا کام نہیں کم کیا جائے گا۔
سچ نہیں کہ خیبر پختونخوا میں کسی اور راج کی ضرورت ہے، ہمت ہے تو گورنر رہو کر دیکھیں، ہم نہیں دھرتے؟ ایسا کہا جائے تو پہلے لوگوں کو سڑکوں کی بنیاد بنائی جائیں، اس گارڈن پہچانیوں پر کھڑا ہوتا ہر ایک، اور پہلی بار وہ لوگ اپنی پوری زندگی کو آسان بنانے میں مدد مل سکتی ہے تو یہ رائے میں تھوڑی تبدیلی ہوتی ہے
آج تک میں بھی دیکھا ہوا ہے کہ خیبر پختونخوا میں کس طرح جنگی حالات اس وقت زیادہ تیز ہورہی ہیں، لیکن سہیل آفریدی نے یہ بات بھی بتائی ہے کہ اس وقت کی حالات کو سمجھنے کے لئے ہمت اور ہم جوش پر زور دیا جا رہا ہے، حالانکہ وہ بھی بتایا ہے کہ اس وقت کی حالت یوں نہیں تھی کہ کوئی شخص اس کے لیے ہمت لائے بغیر ہمیشہ سے اپنے قوم کی مدد کر رہا ہوتا ہے، حالانکہ یہ بات بھی بھرپور ہے کہ اب وہ لوگ جس سے کچھ لاوا چاہتے ہیں ان کی مدد کرتے رہنے دئیں گے، اور یہ بات بھی نہیں تھی کہ وہ لوگ جو اب ڈیرے میں پھنسے ہوئے ہیں ان کی زندگی کو آسان بنانے کیلئے کچھ نہیں کیا جا سکتا۔
ایسے میں ایک چیٹھا ہوا؟ سہیل آفریدی کی باتوں کو پوری تھی دیکھنا بہت اچھا ہے، وہ لوگ جو 3 ہزار ارب روپے کے پاس ہیں، ان کے پاس ایک چیٹھا تو ہو گا۔ بس یہی نہیں رہتا، لوگوں کی زندگی کو آسان بنانے کا اور معاشی مسائل کے حل کیلئے اس کا استعمال کیا جانا چاہیے، تو کیا ہمارے پاس بھی یہی چیٹھا نہیں؟
یہ تو ایک بڑا Problem ہے خیبر پختونخوا میں، سہیل آفریدی کی بات سے یہ بات صاف نکل اٹھتی ہے کہ انہوں نے اس صورت حال کو سمجھا ہے تو بھی پوری دنیا میں ایسا نہیں دیکھا گا۔ وہ کہتا ہے کہ ہمت ہے تو گورنر راج لگا کر دیکھیں، لیکن یہ بات بھی صاف نکلتی ہے کہ لوگوں کو ساتھ دیا جائے، انki زندگی کو آسان بنایا جائے تو اس صورت حال کو حل کرنے میں کوئی problem نہیں رہتاga. یہ معاشرتی مسائل کا ایک بڑا Problem ہے، لیکن ابھی تک کسی نے انki حل کیلئے ساتھ نہیں دیا ہے.
یہ سچا سچا بات ہے خیبر پختونخوا میں جنگی حالات نافذ ہو رہے ہیں، اس وقت کے حالات کو سمجھنے والوں کا یہ بیان بہت اچھا ہے۔ بند کمروں کی پالیسیوں کو لागू کرنا ضروری ہے، ان لوگوں کی مدد کی جائے جو اس وقت تھک گئے ہوئے ہیں۔
لندن کے ایس ایچ آر ٹیسٹس میں بھی نئی ٹیسٹنگ ٹیکنالوجی کی پیش کش کی جا رہی ہے جو لوگوں کو فوری سہولت فراہم کر سکتی ہے۔ یہ وہ ٹیکنالوجی ہے جو ہماری ذاتی زندگی کو آسان بنائیں گی، لہذا اس کی پوری کوشش کریں۔