اسلام آباد میں ایس پی عدیل اکبر کی موت کے بارے میں حال ہی میں شواہد سامنے آئی ہیں جس سے اس کے بعد ہونے والی تحقیقات کو مزید پیچیدہ بنانے میں مدد ملی ہے۔
اس وقت بھی ایس پی عدیل اکبر کی موت کے بارے میں حالات سلاطین میں آئے ہیں جس پر تحقیقات جاری ہیں۔ اس حادثے نے شہر کی رہائشیوں کو بھی گھبراہٹ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اسحاق نے بتایا کہ ایس پی عدیل اکبر آخری روز ایک سات ہجری ٹلنڈر میں فون کال لگائی تھیں جب اس نے ایک نجی ہوٹل کے سامنے بیٹھ کر Gunnan managai۔ ان کی گاڑی کا ڈرائیور بھی تھا جو اُسے ڈبل کیبن تک لے گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ عدیل اکبر اپنی سرکاری گاڑی میں بیٹھے تھے، وہ گاڑی ڈبل کیبن کو ایک اور پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے جس پر میں اور ڈرائیور گاڑی کی اگلی نشست پر تھے۔
انہوں نے بتایا کہ انھوں نے عدیل اکبر کو ایک نجی ہوٹل کے سامنے بیٹھ کر Gunnan managai، اُنہیں ایک میگزین دیا جس میں 50 گولیاں تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ عدیل اکبر کو اُس ہوٹل سے واپس آ کر اپنی سرکاری گاڑی میں بیٹھنا پڑا اور انھوں نے ڈرائیور کو دفتر خارجہ جانے کا حکم دیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ عدیل اکبر اپنے دفتر خارجہ سے واپس آ کر گاڑی میں بیٹھتے ہوئے انہیں فون کی تلاش کرتے رہے جب اُنھوں نے ایک فون کال لگائی جو اس وقت تک پورے شہر میں پھیل گئی ہوئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ عدیل اکبر اُنھوں نے فون کال سے فائر کی آواز سنائی، جس پر انہوں نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئےGunna Mannagai ۔
انہوں نے بتایا کہ ایک اور فون کال لگائی جس پر عدیل اکبر کی موت واقع ہو گئی، جس پہلو پر تحقیقات جاری ہیں جو کہ اس حادثے کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے۔
اسحاق کی معلومات کے بعد ہو سکتا ہے لیکن یہ بات محسوس ہوتی ہے کہ ایک شخص کو ایسا ماحول دیا جاتا ہے جو اسے ہی نہ لائے، اور ابھی بھی شہر کی رہائشیوں کو یہ بتنا کہ ان کا ایک رشتہ دار یا ساتھی اس طرح ہلاک ہو گیا تھا وہ اسی جگہ کچھ دن پہلے تک فون کیا کرتا تھا، یہ تو دباؤ ہی نہیں بلکہ حوصلہ افزائی کی بات ہے۔
یہ لاکھ لاکھ بار فخر کیا جائے! ایس پی عدیل اکبر کی جان کو یہ بھرپور خطرہ سے محفوظ کرنے والا انٹرنیٹ ہی ہے، یہ سبز چلو کہ اس نے ڈبل کیبن میں ایس پی عدیل اکبر کو فون کیا تو یہ کچھ بھی نہ ہو سکتی تھی!
دوسری جانب تحقیقات جاری ہیں، اس حادثے سے شہر کی رہائشیوں کے دم توڑنے والا خوف لگ رہا ہے اور ہم سب ان کی جان کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں!
لیکن ابھی اس حادثے پر فخر کیا جائے، بلکل نہیں!
میں ان سے ہمیشہ اور ہمارا بھرپور تماشا کر رہا ہوں، ان کی جدوجہد میں مجھ پر اس کے حلف تھے اور اب وہ محنت کی وجہ سے اپنی زندگی کو نجات دی گئی!
اس وقت یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ ایس پی عدیل اکبر کی موت میں گھناسیر غلطیوں اور نامعقدات کی بھرپور تلاطل کی جارہی ہے۔ جب تک شہریوں نے یہ بات سمجھائی کہ عدیل اکبر کی موت کا سلسلہ ایک لالچماز شکار تھا تو یقیناً کچھ عرصے پورے ہی جاسکتا تھا لیکن اب تک سامنے آنے والی شواہد اور گھوڑے کی سرگرمیوں سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ اس حادثے میں بہت سی غلطیاں ہوئی ہیں اور تحقیقات کو بھی مزید پیچیدہ بنا رہی ہیں۔
اس وقت کے شہریوں کی زندگی کا ایسا نتیجہ دیکھنا بےحسی ہے جب ایک مظالم کی توجہ میں آگے چل کر ایس پی عدیل اکبر کا حال خوفناک بن گیا ہے۔
اس حادثے نے وہ لوگ بھی گھبراہٹ کا سامنا کرنا پڑا ہے جو اسے جانتے تھے اس سے قبل، یہی نہیں بلکہ اس شہر کی رہائشیوں کو بھی اس کے بعد ہونے والی تحقیقات میں آٹھا لگ رہا ہے۔
دنیا بھر میں کسی بھی حادثے پر توجہ دینے سے پہلے اس پر اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے کہ حادثے کی صورت جس میں شخص مر گیا ہے، اُس پر تحقیقات جاری رہیں تاکہ وہ حقیقت بدرجہ پہچان لیا جا سکے۔
ہم لوگ ایسے سایہ دھونڈنا چاہتے ہیں جس سے کسی بھی حادثے پر توجہ دی جا سکے اور اس پر تحقیقات جاری رکھی جا سکے، لیکن یہ بات بھی محسوس کرنا چاہیے کہ ایسے سایہ دھونڈنے سے پہلے حادثے کی صورت کے بارے میں سب کو جانتا ہو اور اس پر تحقیقات جاری رکھی جا سکے، تاکہ وہ حقیقت بدرجہ پہچان لیا جا سکے۔
مری نظر میں یہ حقیقت ایسی ہے کہ عدیل اکبر کی موت کا واقعہ ابھی سے شروعات ہوئی تھی اور اس پر تحقیقات جاری ہیں، لیکن اب تک کچھ پہلے تو نہیں سامنے آیا ہوتا کہ اس حادثے کے بعد شہر میں گھبراہٹ کا ماحول پیدا ہو گیا ہے۔
اس حادثے نے شہر کی رہائشیوں کو بھی ایسی آزادانہ حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے جس سے ان کی زندگی میں توسیع پیدا ہوئی ہے۔
اس حادثے کی تحقیقات کو مزید پیچیدہ بنانے میں مدد ملنے کی وہ خبر جو کہ حال ہی میں سامنے آئی تھی، اب اس کے بعد ہونے والی تحقیقات کو مزید مضبوط بنانے میڰیں مدد مل گیی ہے۔
اس حادثے پر غور کرنے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ عدیل اکبر کی موت کا واقعہ ابھی بھی ایک نئی چالاکاری کا شکار ہوا ہے جو اس حادثے کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے۔
اس حادثے سے بھی انٹرنیٹ پر دھولا پڑا ہے، ایس پی عدیل اکبر کی موت کے بارے میں لوگ توحید کر رہے ہیں لیکن یہی نہیں، اس حادثے سے میری بھی سوچاں بدل گئی ہیں۔ کیا یہ فون کال ایک ریکارڈنگ تھی؟ کیا عدیل اکبر کو کچھ نئی معلومات دی گئی تھی جو اس حادثے سے قبل انھوں نے جانی ہوتی تھی؟ یہ سوالات ابھی بھی دھونے پڑ رہے ہیں لیکن تحقیقات جاری ہیں اور کچھ نہیں بتایا جا سکتا۔ لگتا ہے کہ اس حادثے کے پیچیدگیوں کو حل کرنے میں وقت لگے گا۔
اس حادثے نے شہر کی زندگی بھی تبدیل کر دی ہے، جس پر لوگ گھبراہٹ کا سامنا کر رہے ہیں اور تمام شہریوں کو اچھی طرح پوری معلومات حاصل ہونا پڑی ہے۔
اس حادثے سے اس بات کو یقینی بنانا پڈا ہے کہ ایس پی عدیل اکبر کا آخری روز کوئی خاص پلیٹ فارم پر Gunnan managai نہیں کیا تھا، اور ان کی موت اس حادثے میں ہی واقع ہوئی تھی۔
اس حادثے سے شہر کو ایک نئی صورت حال دی گئی ہے جس پر اچھی طرح پوری یقین پیدا ہو رہی ہے کہ انہیں ان کے بعد کے حادثات سے کوئی معاملہ نہیں ہوتا۔
اس حادثے سے تو دوسرے پیمانے پر گھبراہٹ آتی ہے لیکن یہ بات پتہ چل رہی ہے کہ کیسے ایک آدمی اپنے کام میں انہضام لیتا ہے؟ یہ حقیقت سے دلے نا دلے مظالم اور غلط فہمیوں سے بھرپور ہے۔
اس حادثے نے شہر کی زندگی کو بھی متاثر کر دیا ہے، پھر بھی سماجی منظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تمام باتوں پر فخر کرنا پڑ رہا ہے جو یہ حادثہ تھا، سب کو اُس عطیہ میں ہلچل لگنے کی ضرورت نہیں ہے جس کا فائدہ ایس پی عدیل اکبر کے خاندان کو لیا جا رہا ہے، یہ سماج کی زندگی میں ایک اچھے نمونے کی طرح نہیں ہے۔
ایس پی عدیل اکبر کی موت کا یہ واقعہ بہت گھنکھٹ ہے، میرے لئے یہ حقیقت سے ڈرامہ جیسا ہی رہا ہے! اس حادثے میں جانوں کو جلا دینے والی ایک فون کال کا ذکر ہوتا ہے اور یہ تو واضح ہے کہ عدیل اکبر کی موت اس فون کال سے متعلق تھی! ڈرائیور کی بات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ انھوں نے عدیل اکبر کو ایک نجی ہوٹل کے سامنے بیٹھ کر Gunna Mannagai دیا تھا، اور اس حادثے میں جانوں کو جلا دینے والی ایک فون کال کا ذکر ہوتا ہے! یہ واقعہ بہت ہی گھنکھٹ ہے اور اس پر تحقیقات جاری ہیں، میرے لئے یہ ایک بے دردی سے بھری حقیقت ہے!
اس حادثے نے میرا بھی صدمہ پہنا ہے، ایک شہر میں ایس کیس جہاں لوگ اپنے گارڈ سے لڑائی کر رہے تھے اور اس کے بعد وہی گارڈ ڈھونڈتے ہوئے اس کی موت ہو گئی، یہ ایسا نہیں ہونا چاہیے جہاں آپ اپنی زندگی کو بھرپور طور پر جان سکتے ہیں اور فیر واپس جانے کے لیے مجبور ہو جائیں