وزیراعظم شہباز شریف اور انڈونیشیا کے صدر پرابوو سوبیانتو کی ملاقات کی وجہ سے دو ممالک کے درمیان معاشی تعلقات میں ایک نئی جان بیدار ہوگئی ہے۔ دوسری جانب انڈونیشیا کا دورہ پاکستان کو اس وقت کی ضرورت تھی جس نے ملکی معاشی پالیسیوں میں تیزی اور تبدیلی لانے کے لیے ایک گہرا اثر چھوڑ دیا ہے۔
اس وقت تک پاکستان کو قرضوں کی جال سے نکلنے کا مطالعہ ہوتا رہا ہے، لیکن آج وہ ایک معاشی اور روایتی منظر نامے سے باہر نکلا ہے جو آنے والی نئی تحریکوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ملکی معیشت میں توازن برقرار رکھنے کے لیے انصاف، دباؤ، اور مقبولیت پر عملدرآمد کرنا ضروری ہے، جس سے قرضوں کی خواہش کو بھی ناکام کیا جا سکے گا۔
انڈونیشیا کا دورہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ایک ایسا معاشرہ ہے جس نے اپنی معاشی پالیسیوں میں تبدیلی اور انصاف کو اپنا بنیادی مقصد بنایا ہے، اور اس طرح وہ اپنے سماجی اور معاشرتی منظر نامے کے ساتھ بھی چل رہا ہے۔
مگر پچاس سالوں سے یہی بات ہو رہی ہے کہ پاکستان کو انصاف اور معاشی اقدامات پر توجہ دی جائے، جو اس کی معاشی قوتوں اور سماجی منظر نامے کو بھی تبدیل کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
عوام کے لیے یہ ایک خوشی کا وقت ہے، جس میں اسےHope اور امید کی بھرپور براقی ہے کہ پاکستان معاشی طور پر خود کفیل بن سکتا ہے، اور قرضوں کے سہارے سے آزاد ہونے کی طرف آئے گا۔
لیکن پھر یہ سوال پوچھنا ضروری ہے کہ جب تک پاکستان کو معاشی استحکام کے لیے اقدامات نہیں کیے جائیں گے، جب تک نہیں ہونے والے فری لانسنگ اور ٹیکنالوجی پارکس کی وہ پہل شروعات نہیں ہوئیں، اور جب تک بھرپور تعلیمی نظام کے ساتھ نہیں کام ہوا، تو انڈونیشیا کا دورہ اس بات کو ظاہر نہیں کر سکتا ہے کہ وہ ایک معاشی اور روایتی منظر نامے سے باہر نیو لینڈ کو پہنچ گیا ہے۔
اس وقت تک پاکستان کو قرضوں کی جال سے نکلنے کا مطالعہ ہوتا رہا ہے، لیکن آج وہ ایک معاشی اور روایتی منظر نامے سے باہر نکلا ہے جو آنے والی نئی تحریکوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ملکی معیشت میں توازن برقرار رکھنے کے لیے انصاف، دباؤ، اور مقبولیت پر عملدرآمد کرنا ضروری ہے، جس سے قرضوں کی خواہش کو بھی ناکام کیا جا سکے گا۔
انڈونیشیا کا دورہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ایک ایسا معاشرہ ہے جس نے اپنی معاشی پالیسیوں میں تبدیلی اور انصاف کو اپنا بنیادی مقصد بنایا ہے، اور اس طرح وہ اپنے سماجی اور معاشرتی منظر نامے کے ساتھ بھی چل رہا ہے۔
مگر پچاس سالوں سے یہی بات ہو رہی ہے کہ پاکستان کو انصاف اور معاشی اقدامات پر توجہ دی جائے، جو اس کی معاشی قوتوں اور سماجی منظر نامے کو بھی تبدیل کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
عوام کے لیے یہ ایک خوشی کا وقت ہے، جس میں اسےHope اور امید کی بھرپور براقی ہے کہ پاکستان معاشی طور پر خود کفیل بن سکتا ہے، اور قرضوں کے سہارے سے آزاد ہونے کی طرف آئے گا۔
لیکن پھر یہ سوال پوچھنا ضروری ہے کہ جب تک پاکستان کو معاشی استحکام کے لیے اقدامات نہیں کیے جائیں گے، جب تک نہیں ہونے والے فری لانسنگ اور ٹیکنالوجی پارکس کی وہ پہل شروعات نہیں ہوئیں، اور جب تک بھرپور تعلیمی نظام کے ساتھ نہیں کام ہوا، تو انڈونیشیا کا دورہ اس بات کو ظاہر نہیں کر سکتا ہے کہ وہ ایک معاشی اور روایتی منظر نامے سے باہر نیو لینڈ کو پہنچ گیا ہے۔