تائیوان ایک بڑھتی ہوئی تیز آندھی میں اپنی دفاعی اخراجات میں 40 ارب ڈالر کا اضافہ کر رہا ہے جس پر چین سے جنگ کا خوف پہلے بھی موجود تھا۔
اس خطرات کو دور करनے کی کوشش میں تائیوان نے اپنی فوج کو جدید بنانے اور ایک نئی حکمت عملی پر کام کر رہا ہے۔ یہ لڑائی ایک جمہوری تائیوان کے دفاع اور چین کا حصہ بننے کے دباؤ کو مسترد کرنے کی ہے۔
دونوں کے درمیان امن برقرار رکھنے کی ناکافی پابندیوں پر تائیوان اپنی حفاظت کیلئے پرعزم ہے۔ اس سے پہلے صدر لائے چنگ نے ایک بار یہ اعلان کیا تھا کہ وہ اپنے دفاعی بجٹ کو مجموعی قومی پیداوار کے 5 فیصد تک لے جانا چاہتے ہیں، لیکن اب تائیوان نے یہ بھی اعلان کیا ہے اور اس کا مقصد اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط بنانا ہے۔
تائیوان اپنے عوام کو حفاظتی کتابچوں کی تقسیم کر رہا ہے تاکہ وہ آگاہ ہو جائیں کہ اگر چین سے جنگ ہونے والی ہے تو وہ کیسے محفوظ رہ سکے گیں اور اس لڑائی میں ان کی بھرپور شرکت کیوں ضروری ہے۔
تائیوان اپنی فوج کو جدید بنانے اور ایک نئی حکمت عملی پر کام کر رہا ہے تاکہ چین کی بڑی فوج کے مقابلے میں اپنی صلاحیت کو زیادہ چوکنا اور مؤثر بنایا جا سکے۔
امریکا قانون کے تحت تائیوان کو اپنے دفاع کے لیے ضروری ہتھیار فراہم کرنے کا پابند ہے، اگرچہ دونوں کے درمیان باضابطہ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عہد سنبھالنے کے بعد اب تک تائیوان کو صرف ایک بڑا اسلحہ پیکج دیا گیا ہے، جو 330 ملین ڈالر مالیت کے لڑاکا طیاروں اور ان کے پرزہ جات پر مشتمل ہے۔
امریکا کے ساتھ تائیوان کے تعلقات ’’چٹان کی طرح مضبوط‘‘ ہیں، اور انہیں ٹرمپ کے آئندہ سال چین کے可能 دورے پر کوئی تشویش نہیں، کیونکہ امریکا اور چین کے تجارتی تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے تائیوان ایک فٹ بال میچ سے باہر نکل کر دوسرے لڑائی کے میدان میں واپس آ رہا ہے۔ یہاں اس کی فوج کی دھندلا لڑائی کے لیے تیار ہونے کی پیداوار ایک بڑی فٹ بال ٹیم کے کپ کے مقابلے سے زیادہ ہے اور یہاں سے اس کی لڑائی کی صلاحیت کو مضبوط بنانے کی پیداوار ایک ریشم کی لڑائی میں گول्फ کے زمرے میں سب سے بھیڑ وو لینے والی ہے۔
تائیوان کی ایسی س्थितتھی تو یہ بات غلط نہیں کہ اسے اپنے دفاع میں کسی بھی صورتحال پر تیار رہنا چاہیے۔ اور وہ آدھو بنام 40 ارب ڈالر ایک لاکھ روپے ہیں جس پر اس کا آپریشن چلائیں گا، یہ تین سाल پہلے تھا جب انہوں نے اپنے دفاع میں 50 ارب روپے لگائے تھے۔
یہ بات بھی دیکھنا بڑی مشکل ہے کہ اس کی فوج کو بھی دنیا کے سب سے جدید فوجوں میں شمار کرنا پڑے گا اور وہ ایک نئی حکمت عملی پر کام کر رہا ہے تاکہ اس کی صلاحیت کو زیادہ چوکنا بنایا جا سکے۔
اس کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی حفاظتی کتابچے تقسیم کر رہے ہیں جس پر ایسی صورتحال پر تیار ہونے والے لوگ آگاہ ہوں۔
ایسا لگتا ہے کہ تائیوان ایک دھمپ کی طرح اپنے دفاع کے لیے تیار رہا ہے، ایسی جگہ مگر ایسی جہاں چین کو اس پر پورا دباؤ نہیں لگتا تھا، اب وہ اپنی فوج کو جدید بنانے اور ایک نئی حکمت عملی پر کام کر رہا ہے...
ایسے وقت کھیلو تائیوان پر تانہ توڑتے ہوئے دیکھنا مشکل ہے، پہلی بار ایسی بڑھتی ہوئی تجاویز کی لڑائی بہت سے ملک اور اپنے آب و هوا پر دباؤ پڑھانے والی نئی طاقتوں کو جسمانی طور پر دیکھنا کچھ ہی عجیب نہیں ہوگا
تائیوان کی یہ حکمت عملی تو ہمیشہ سے متوقع تھی، لیکن دیکھنا بہت منفعہ ہوتا ہے کہ لوگ اپنے دفاع کیلئے کوئی بھی کاروائی پر کیسے کام کر رہے ہیں। اس سے پہلے بھی اس کے عوام نے اپنی حفاظت کیلئے لوٹ و لیش کی تیز آندھی میں حصہ لیا ہوتا ہے، اور اب وہ ایک نئی کتابچوں کی تقسیم کر رہے ہیں۔ یہ سب اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ تائیوان کے لوگ اپنی آزادی کیلئے اپنا ہر دھن سے لڑ رہے ہیں۔
اس بات پر یقین ہے کہ تائیوان ایسے معاملات میں بہت اچھا موقف پیش کر رہا ہے جو اسے چین کی جانب سے چیلنج کیا جا رہا ہے۔ وہ اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط بنانے اور اپنے عوام کو آگاہ کرنے کے لیے ایک بہت ہی سہی تدبیر پیش کر رہا ہے۔ ابھی تک اس نے اپنی فوج کو جدید بنانے اور ایک نئی حکمت عملی پر کام کرنے کا یہ مقصد کیا ہے تاکہ وہ چین کی بڑی فوج کے مقابلے میں اپنی صلاحیت کو زیادہ چوکنا اور مؤثر بنائی جا سکے۔
یہ بات حقیقی طور پر گھبرانے والی ہے کہ تائیوان کی ایسی اٹholیت ناکام کیوں کر رہا ہے؟ کیا یہ صرف ملک کے دفاع کے لیے نہیں بلکہ دوسرے معاملات میں بھی اس کا استعمال کرتا ہے؟ اس کی ایک طرف سے فوج کو modern کرنے اور دوسری طرف سے عوام کو حفاظتی کتابچوں کی تقسیم کرنے کا یہ تہذیبی کام بہت ہی متاثر کن ہے۔ لیکن اس سے پہلے یہ بات کیا کہ یہ فوج اور عوام دونوں کا یہ رشک کیسے کرتا ہے؟
یہ بات بہت حیرت کہیں سے آ رہی ہے کہ تائیوان ایک بھرپور فوج بنانے کی کوشش کر رہا ہے، جس کی قیمت 40 ارب ڈالر ہو گئی ہے। یہ معاملہ چین سے لڑائی میں تائیوان کی صلاحیت کو مضبوط بنانے کے لیے ہے، اور اس کا مقصد اپنی دفاعی صلاحیتوں کو زیادہ چوکنا اور مؤثر بنانا ہے۔
تائیوان کی فوج کو جدید بنانے میں امریکا کے ساتھ تعاون ضروری ہے، کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات مضبوط ہیں اور تائیوان کو اپنے دفاع کے لیے امریکی ہتھیار فراہم کرنے کی اجازت ہے۔
امریکا نے تائیوان کو لڑاکا طیاروں اور ان کے پرزہ جات پر بھی 330 ملین ڈالر کی انعام فراہم کی ہیں، جو اس بات کو ظاہر کر رہا ہے کہ امریکا تائیوان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے پر Serious ہے۔
ایسے میں، تائیوان کی یہ فیکٹری 40 ارب ڈالر سے زیادہ لگتی ہو گی، تو کیا اس کا فائدہ ان کے عوام کو کیسے ہو گا؟ ان لوگوں کی معیشت بھی اسی طرح متاثر ہوگی، جیسا کہ وہ اپنی حفاظت کیلئے ایک نئی حکمت عملی پر کام کر رہے ہیں، تو یہ بھی ان کے معاشی لیندے کو کس طرح میزبان کے روپ میں آئے گا?
تائیوان کی یہ پھر سے جنگ کے خوف میں دھمکاوٹ کر رہا ہے، تو اس پر یہ بات بھی سوچنا چاہئے کہ وہ اپنی فوج کو کتنا مضبوط بنانے کی کوشش کر رہا ہے؟ لڑائی میں ان کی بھرپور شرکت کس لیے ضروری ہے، کہیں اسے تازہ کار گینز اور ایس ایم سلیٹ کی پہچان نہ ہو؟ اور امریکا کو یہ کیسے لگتا ہے کہ وہ اپنی فوج کے لیے انچارج فراہم کر رہا ہے، کیونکہ چین نے اس پر پھنسی ہوئی؟
یہ تائیوان کی دفاعی جہت پر زور دیکھنا، میں یہ سمجھ سکتا ہoon کہ وہ اپنے ملک کی حिफظ کے لئے اس سے کام کر رہا ہے جس سے وہ محفوظ محفوظ رہ سکے گا۔
لڑائی میں ان کی بھرپور شرکت کی ضرورت نہیں، لیکن اس کے لئے وہ اپنی فوج کو جدید بنانے اور ایک نئی حکمت عملی پر کام کر رہا ہے تاکہ وہ چین کی بڑی فوج کے مقابلے میں اپنی صلاحیت کو زیادہ چوکنا اور مؤثر بنا سکے۔