انقلاب کی آنکھوں نے نیو دہلی کا حادثہ، جس میں بھارت نے شہد اور خون کا استعمال کیا، کشمیری شہر کو ایک اور دھکہ دیا ہے۔ خشک میوہ فروش بلال احمد وانی کی جان سے ہاتھ دھونے والی گرفتاری، ایک معاشرتی تباہی کا مظاہرہ بن گئی۔
انھوں نے خود کو آگ لگا لیے جس کی وجہ سے انھیں واپس جانے دی گئی، تاہم اگلے دن اس کے انتقال ہو گئے۔ پولیس کے مطابق ان کی موت خود سے لگائی گئی آگ کے نتیجے میں ہوئی۔
دھماکہ 10 نومبر کو نیو دہلی کے تاریخی ریڈ فورٹ کے قریب ہوا، جس میں کم از کم 10 افراد ہلاک اور 32 زخمی ہوئے۔ بھارتی حکام نے فوری طور پر کشمیر پر توجہ مرکوز کی اور وسیع پیمانے پر چھاپے، مشتبہ افراد کی حراست اور ہزاروں افراد سے پوچھ گچھ کی۔
وانی کا خاندان کہتا ہے کہ وانی کو اکثر وانی کو، کبھی ان کے بیٹوں اور رشتہ داروں کو حراست میں لیا جاتا رہا، جس سے گھر میں شدید ذہنی دباؤ اور خوف پیدا ہوا۔ ان کے مطابق یہ گرفتاریاں غیرمنصفانہ تھیں اور خاندان کا کوئی فرد کسی غیرقانونی سرگرمی میں ملوث نہیں تھا۔
تازہ ہونے والے دھماکے سے پہلے فریدآباد میں 14 نومبر کو دھماکہ خیز مواد سری نگر کے ایک پولیس اسٹیشن لے جایا گیا، جہاں حادثاتی طور پر وہ دھماکہ ہو گیا اور ہلاکتیں ہوئیں۔
حکام اب بھی تحقیقات کر رہے ہیں، تاہم علاقے کے اعلیٰ پولیس افسر نالین پربھات نے کہا کہ دھماکے کا سبب دھماکہ خیز مواد کے غلط انتظام یا ہینڈلنگ ہو سکتا ہے اور کسی سازش کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ یہ حادثہ نیو دہلی دھماکے سے الگ واقعہ ہے۔
انقلاب کی آنکھوں نے کشمیری شہر کو ایک اور دھکہ دیا ہے جس میں عہد کے خلاف مزاحمت کو تسلیم کرنے والی دھارہ دی گئی ہے۔
یہ ایک بے حرمت کرنے والا واقعہ ہے جس نے کشمیری شہر کو مڑتا ہوا دیکھ دیا ہے۔ بلال احمد وانی کے خاندان کی بات سے ایک اچھی بات آئی ہے کہ ان پر غیرمنصفانہ گرفتاریاں کی گئیں اور ان کو شدید ذہنی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ اس طرح کے مظاہرے نہیں ہونے دیتے چاہئیں۔
یہ نالین پربھات کی بات بہت تھوڑی سا حقیقتی لگ رہی ہے۔ غلط انتظام یا ہینڈلنگ کے متبادل میں اس دھماکے کے پیچھے ایسی سازش بھی ہو سکتی ہے جس سے لوگ اسے دھماکہ کے طور پر پیش کرنے کا اہل ہوجائیں، تاکہ حکومت کو اپنی عدم صلاحیت کی بات کرنے کی اجازت ملے۔ یہ بھی پتا لگتا ہے کہ دھماکے سے قبل فریدآباد میں دھماکہ خیز مواد لے جایا گیا تھا، جو انصاف کی بات کرنے والے نہیں۔
اس کا سار اچھا ساتھ نہیں ہے، پہلے کشمیر میں ایک بڑا دھماکہ ہوا تو اگلے ہی دن بلال احمد وانی کا انتقال ہو گيا۔ یہاں تک کہ پولیس کے مطابق ان کی موت خود سے لگائی گئی آگ کے نتیجے میں ہوئی، لیکن اس بات پر کوئی شک نہیں ہوگا اور وانی کے خاندان نے بھی یہی کہا تھا۔
دھماکے میں 32 زخمی ہوئے تو اس پر یہ کہنا چاہئے کہ اس کو دیکھنے کے لئے ہی جگہ ہوڈی بن گئی ہے۔ اور یہ بھی بات نہ رہی سکتی کہ انفرادی طور پر دھماکے میں 10 افراد ہلاک ہوئے، لیکن پورے شہر کو ایک اور دھکہ دیا گیا۔
اس کے علاوہ نالین پربھات جو علاقے کے اعلیٰ پولیس افسر ہیں انہوں نے کہا ہے کہ دھماکے کا سبب دھماکہ خیز مواد کے غلط انتظام یا ہینڈلنگ ہو سکتا ہے اور کسی سازش کا کوئی ثبوت نہیں ملا، لیکن یہ بات صاف تھی جس پر ان کا کہنا چاہئے کہ دھماکے کی ایک اچھی واضح لین دین ہی نہیں ہوگئی، پوری صورتحال کو ناکام بنایا گیا ہے۔
عشق کے لئے آگ جلنے کی کہانیوں سے بھرپور ہے، یہ خوف اور دباؤ جو لوگوں پر پڑتا ہے وہ اس قدر کس قدر تباہ کن ہوتا ہے۔ Dry Fruits seller بلال احمد وانی کی جان سے ہاتھ دھونے والی گرفتاری ایک معاشرتی تباہی کا مظاہرہ بن گئی، اور اسے پہلے سے ہو چuka ہے۔
اس دھماکے کی سزنی، ایسے لگتا ہے کہ بھارت کی حکومت نے شہد اور خون کی پھانسی کھا دی ہو۔ بلال احمد وانی کو ایک معاشرتی تباہی کا مظاہرہ بنانے کے بعد، انہیں خود آگ لگا کر جان سونپ دئی گئی اور اس کے بعد اگلے دن وانی بھی ہو گئے۔ یہ ایک کیا دباؤ میں ہوا کی بات ہے؟
اس دھماکے سے پہلے کے حالات کو جانتے ہیں تو، ایسا لگتا ہے کہ وانی کو اچھی طرح سے سمجھا نہیں گیا تھا۔ اس کی گرفتاری کو غیرمنصفانہ قرار دیا جا رہا ہے اور اس کی موت کو خود سے لگائی گئی آگ کے نتیجے میں جاننے کے بعد، یہ بھی چیلنجز لگ رہا ہے۔
ایسے حالات میں، انہیں جان نہیں سکا کہ وہ کیا کر رہے تھے اور اس کی موت کو اس کی سرننگوں کا جواب مانتے ہوئے۔ یہ دھماکے نے ایسے لوگوں کو شدید تشدد کا شکار کیا ہے جو آزادی اور انصاف کی بات کر رہے تھے۔
اس دھماکے کی حقیقت کا علم نہیں ہوتا لیکن یہ بات پتہ چلتی ہے کہ انقلاب کی آنکھوں نے بھارت کے لئے ایسا دھماکہ ہوا جو اس کی حقیقی نوعیت کو ظاہر کرتا ہے. شہد اور خون سے بھری زمین پر یہ دھماکہ کشمیری شہروں میں بھی ایسی دھکہ دیا جا رہا ہے جو اس لئے تھا کہ وہاں کی عوام کو جھوٹے اور بدلوں پر ڈھائی ہوا ہے. بلال احمد وانی کی جان سے ہاتھ دھونے والی گرفتاری بھی ان لوگوں کا ایک تباہ کن مظاہرہ ہے جس نے وہاں کی معیشت اور زندگی کو تباہ کر دیا ہے. اس دھماکے سے پہلے دھماکہ خیز مواد لے جانے والی صورتحال، جس میں فریدآباد میں ایک پولیس اسٹیشن میں دھماکہ ہوا، یہ بھی ایک حقیقی تباہ کن صورت حال ہے.
یہ ایک مظاہرہ ہے، جس میں بھارت نے اپنی تینگی کا استعمال کر رہا ہے ، آج کیسا ہو گا؟ وانی کو چلانے والی گرفتاری میں جب یہ طالبین ایک ساتھ بیٹھتے تھے تو دیکھا جاتا ہے، اس معاشرتی تباہی کی وہی وجہ نہیں جو ان کے ساتھیوں میں تھی بلکہ یہ بھی ایک مظاہرہ ہے، ہمیں پچتая ہوا دیکھنا نہیں پڑ رہی اور دوسری جانب جس کی وہاں کوشش کی جا رہی ہے ان پر بھی ایک مظاہرہ ہوا، یہ ہمیں سچائی پر مجبور کرنا چاہئے اور نہ ہی اس پر جھٹلایا جا رہا ہے…
ایسا کیا تو ہمیں سچ چھپانے کی ضرورت نہیں! یہ دھماکہ نئو دہلی میں ہوا اور اب تک انقلاب کی آنکھوں نے اس کا سامنا کرنا پڑا؟ اور اب ایسے حالات میں لوگوں کو چھپانے کے لئے انساف کیسے ملازمت آئے گی? یہ دھماکہ 10 نومبر کو ہوا اور اب تک ان پر بھی سچا جواب مل چکا ہے کہ وہ شہد اور خون کے استعمال سے اس دھماکے کی وجہ بن گئے تھے!
ایسے مظالم میں پچھا جانا بھی کچھ کم ہوت۔ بلال احمد وانی کی جان سے ہاتھ دھونے والی گرفتاری نے اس معاشرتی تباہی کو جنم دیا جس میں لوگ پورے شہر پر چھپنا لگتے ہیں! یہ سچ بولیں، ان کا خاندان بھی بتاتا ہے کہ وہ نئو دہلی میں اس دھماکے کی وجہ سے گھر میں شدید ذہنی دباؤ اور خوف پڑ گیا تھا!
اب یہ ہمیں ایسا لگتا ہے کہ وہ انہیں واپس جانے دیا گیا ہوتا تو اسے نہیں لگتا تھا کہ وہ اپنی جان کی قیمتی کچھ نہ کچھ کر رکھنے کے لیے ہمیشہ طاقت کا استعمال کر رہے تھے!
یہ بات یقینی طور پر معلوم ہو گیا ہے کہ بھارت میں حقیقی معاشرتی تباہی کی صورت حال کے سامنے گزشتہ دنوں ہونے والے دھماکوں نے شہد اور خون سے بھری ایک بدسودہ تاریخ بنائی ہے۔
اس واقعات کا مشاہدہ کرنے والی معصومیت، بلال احمد وانی کی جان سے ہاتھ دھونے والی گرفتاری، ایک بڑی تباہی کا مظاہرہ بن گئی ہے جس سے شہری زندگی کو بے انصاف اور خوفناک قرار دیا گیا ہے۔
اپنی جان پر لگانے والی آگ کے بعد وانی کو اپنی جان میں واپس پہنچائی گئی، تاہم دیر رات اس کی جان چلی گئی جس سے ایک ایسا معاملہ پیدا ہوا جس پر کسی بھی محقق کے ذریعہ نظر ثانی نہیں کی جا سکتی۔
نیو دہلی میں واقع دھماکے میں کم از کم 10 افراد ہلاک اور 32 زخمی ہوئے اور اس حادثے سے پہلے فریدآباد میں بھی ایک دھماکہ ہوا جس میں ہلاکتاں ہوئیں۔
اس صورتحال کو سمجھنے کے لئے، اگر نہیں تو یہ جاننا ضروری ہے کہ ان واقعات سے ایک واضح بات بھی سامنے اٹھتی ہے جو کوئی بھی دھارہ دیں یا نہیں، یہ حقیقت کہ شہری زندگی میں تباہی کی صورتحال پر حکومت کی جانب سے کوئی اچھا حل نہیں دیا گیا ہے۔
اس دھماکے کی واقعیت پر حیران ہو رہا ہوں، یہ ایسی وجہ سے دلتوا نہیں ہے کہ میرے پاس فون بھی نہیں تھا جب شہید بنے انھوں نے پکڑا، اب لوگ انھیں ایسے دھماکے میں شامل کر رہے ہیں جو انھیں بھی مروڈ لائ گا؟ میری کبھی بات نہیں اس کے لیے، ایسے واقعات کی توسیع سے دلتوا ہو گا تھا۔
یہ بھی تو ہوتا ہی رہا ہے، سچ میں یہ دیکھنا مشکل ہے کہ ہم لوگ کیا کر رہے ہیں۔ اپنی سرورستی کو محفوظ کرنے کے لیے ہمیں سچائی کی جادو گریاہٹ کا استعمال کرنا پڑتا ہے، لاکھوں لوگ دھمکے میں ماراتے ہیں تو اس لیے کہ وہ اپنے دل کی بات چیت نہیں کر سکتے۔
اس دہشت گردی کے بعد بھی ہم لوگ اٹھتے ہیں، دوسرے دہشت گردوں کو دیکھتے ہیں اور پھر ان پر گری وہاں تو کیا دباؤ کر سکتے ہیں؟ ہمیں جاننا چاہئے کہ یہ دھمکے بھی ایسے لوگوں کو ہوتے ہیں جو اپنے خاندان کی سجائی پر چلے جاتے ہیں، اور ہمیں اس لیے ایسی بات کرونا پڑتی ہے۔