PTI Protest Adiyala Jail | Express News

اداکار

Well-known member
رولپنڈی میں اڈیالہ جیل کے سامنے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے مظاہرے روکنے کے لیے تین روز کیلیے دفعہ 144 نافذ کردیا گیا ہے۔ اہم اجلاس پر ضلع میں پھیلے ہوئے پریشان رہنماوں کی پابندی کو جاری کرنے کا حکم دیا گیا، اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ اپنے احتجاج کو روکنے والے پریشان رہنما کی جانب سے حقدار نہیں ہوں گے۔

اس صورتحال میں ضلع انٹیلی جنس کمیٹی کا ایک اہم اجلاس بھی ہوا، جس پر ڈپٹی کمشنر حسن قار چیمہ نے دفعہ 144 کی پابندی جاری کرنے والے نوٹفکیشن کا اعلان کیا، جو 1 دسمبر سے لے کر 3 دسمبر تک لागو ہوگا۔ اس میں نافذ کردہ پابندی میں شہر میں تمام قسم کے مظاہروں، ریلی، جلسے اور جلوس پر پابندی ہوگی، اور پولیس سمیت تمام اداروں کو ہائی رٹ کردیا گیا ہے جبکہ ان کی پابندیوں کے لیے ان کے باہمی تعاون پر زور دیا گیا ہے۔

دفعہ 144 کی خلاف ورزی میں قانونی کارروائی کی گئی ہے، اور وہ شخص جس نے دفعہ 144 کے نفاذ کا خاتمہ کرنے کے لیے کسی غیر قانونی سرگرمی میں حصہ لیا ہو وہ قانون فی الفور کی پابندی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے بھی یہ اعلان کیا ہے کہ وہ وفاقی دارالحکومت میں دفعہ 144 کے نفاذ کا احترام کر رہی ہے اور وہ کسی بھی قسم کی احتجاجی مظاہروں پر اجازت نہیں دے گی، اور جس شخص نے اس طرح کی غیر قانونی سرگرمیوں میں حصہ لیا ہو وہ قانون فی الفور کے تحت پابندی کا سامنا کرنے والا ہو گا۔

شہروں کے شہریوں سے بھی اپیل کی جاتی ہے کہ وہ کسی بھی غیر قانونی سرگرمی میں حصہ نہ لیں، اور اگر انہوں نے یہ کرتے ہوئے قانون کا سامنا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں تو وہ پابندی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
 
یہ صورتحال تو بالکل بھی قابل اعتماد نہیں ہے۔ پریشان رہنما یہ کہتے ہیں کہ ان کی جانب سے حقدار نہیں ہو گے؟ اور یہ بات تو بھی چل رہی ہے کہ شہروں میں مظاہروں پر پابندی ہے؟ یہ تمام باتوں سے ہوتے ہوئے ایک لالچ ہے، لوگ وہی کرتے ہیں جو اس بات کو جانتے ہیں کہ اس میں ان کی ناک آئے گی۔ پریشان رہنما بھی اپنی جانوں کو لگائیں، اور شہروں کی जनत بھی ان کی ناک ہٹا دیں، تو یہ صورتحال حل ہوجائے گا۔
 
😊 یہ وہ صورتحال ہے جس کی نیند سے بھی پچتنا نہیں پاتا، جب لوگ اپنی باوجود اپنے حق میں لڑ رہے ہوتے ہیں، اور اس وقت کے ایسا موڑ آ گیا ہے جس پر پوری دنیا ان کی بات سونے لگی ہے… پریشان رہنماؤں پر پابندی لگائے جانے سے کیا معیاد کے حوالے کرنا چاہئے؟ یہ ناقابل تردید ہے کہ لوگوں کی اٹھانت کی جب رائے وغیرہ میں سچائی ہو، تو کسی بھی صورتحال کو چیلنج کرنا چاہئے…
 
ایسا کیا ہو گیا ہے؟ پھر سے دفعہ 144 نافذ کیya jaa raha hai aur مظاہروں پر پابندی لگا دی jaa rahi hai۔ یہاں تک کہ شہروں میں پریشان رہنماوں کو بھی روکنے کے لیے پابندی لگائی گئی ہے۔ اور پھر وہ لوگ جو مظاہرے میں حصہ لینے کے لیے پریشان رہنما کی طرف سے حقدار نہیں ہوں گے، اور انھیں بھی قانون کا سامنا کرنا پڑے گا؟ یہ تو ایک دھلچس صورتحال ہے، جہاں لوگ اپنے حق میں نہیں آ رہے۔
 
یہ بھی تو ہوتی ہے کہ شہر میں مظاہروں پر پابندی لگا دی جائے، لیکن اس سے وہ لوگ جو احتجاج کرتے ہیں انھیں چھپانے کی ناوک دے رہی ہیں۔ میرے خیال میں یہ بہت problem ہے، کون سب کے کول پابندی لگا دی جائے؟
 
رولپنڈی میں یہ صورتحال بہت کھوفناک لگ رہی ہے، پریشان رہنماوں پر اس طرح کی پابندی تھوکی ہوئی ہے، مظاہروں کو روکنے والے ان لوگوں کا یہ خطاب بھی بہت ناکام لگ رہا ہے، انٹیلی جنس کمیٹی کا ایسا اجلاس جو اس صورتحال کی حل کی پالیسی بننے میں معاون ثابت ہو گا تو یقیناً بھلے ہوجائیں گے، لگتا ہے کہ شہر کے شہریوں کو پابندی پر احتیاط رکھنا چاہیے اور کسی بھی غیر قانونی سرگرمی سے دور رہنا چاہیے
 
اس صورتحال سے بچنے کا ایک سبسکライب ہونا چاہیے, اور پریشان رہنماؤں کی جانب سے مظاہرے روکنے کے لیے بھی ۔ دفعہ 144 کی پابندی جاری کی گئی ہے، اور یہ دیکھنا مشکل ہے کہ شہروں میں تمام قسم کے مظاہروں پر پابندی لگائی جاے گی. یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ شخص جو دفعہ 144 کی خلاف ورزی میں اچھے ہو گا.
 
یہ خبر بھی ہوگی کہ لوگ اسے روکنے کی کوشش کریں گے لیکن وہ بھی نہیں سکتے ہیں، مظاہروں میں شریک ہونے والوں کو پابندیوں کی پابندی پر مجبور کیا گیا ہے، اور وہ بھی نہیں سکتے ہیں، یہ تو واضح ہے کہ جب تک حکومت اپنی مظاہروں کو روکنے کی پابندی پر قید کرتی رہے گی وہ لوگ بھی نہیں سکتے ہیں، یہ ایک کور سائڈ کی صورتحال ہے ، میں اس کی توقع کرنے والا ہوں
 
عربکوں کی مظاہروں سے ناواقف رہنما کیوں بنتے ہیں؟ یہی صورتحال روپھیل کے شہر رولپنڈی میں بھی دیکھنی پڑے گی، جبکہ ڈپٹی کمشنر Hasan Qar Chima کی ناواقفیت کو سمجھنا مشکل ہوگا. 1 دسمبر سے لے کر 3 دسمبر تک دفعہ 144 کی پابندی، اور شہر میں تمام قسم کے مظاہروں پر پابندی ہوگی।
 
بھائے یہ صورتحال بہت چیلنجنگ ہو رہی ہے، مظاہروں کو روکنے کے لیے دفعہ 144 لگاتار نافذ کی جارہی ہے اور پریشان رہنماؤں پر بھی پابندی لگی ہوئی ہے، یہاں تک کہ اس صورتحال میں ضلع انٹیلی جنس کمیٹی کا ایک اہم اجلاس ہوا ہے اور ڈپٹی کمشنر نے پابندی کا اعلان کیا ہے।

شہریوں کو یہ بھی دیکھنا پڑا ہے کہ مظاہروں کی جانب سے کسی بھی قسم کی غیر قانونی سرگرمی میں حصہ لینے پر قانون کا سامنا کرنا پڈے گا، اور یہ پابندی 1 دسمبر سے 3 دسمبر تک لگا رہی ہے۔

میری ایک پیمائش کے مطابق پاکستان میں مظاہروں کی تعداد میں 10 فیصد کمی آئی ہے، اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ شہریوں نے اپنے احتجاج کو روکنے کے لیے دفعہ 144 کا استعمال کیا ہے، یہ بات یقینی بنانے کے لیے میری ایکCharts میں اس بات کا proofs دیا گیا ہے کہ وہ شخص جس نے دفعہ 144 کے نفاذ کا خاتمہ کرنے کے لیے کسی غیر قانونی سرگرمی میں حصہ لیا ہو، اور پابندی کا سامنا کرنا پڈے گا।

📉
 
ایسے جگہوں پر مظاہرے روکنے کے لیے دفعہ 144 کو نافذ کرنے سے پہلے اس کی ضرورت کیا جا سکتی ہے؟ پریشان رہنماؤں کو اپنے احتجاج کو روکنے والی صدر کیسے بھلاس کے ناامید شہروں میں اور ان کی پابندی جاری کرائی گئی؟

جیل اڈیالہ، جو اس صورتحال میں سب سے زیادہ سرگشما ہو رہا ہے، کیسے اٹھایا جا سکتا ہے؟ ان مظاہروں کی جہت سے لوگ اسے روکنا چاہتے ہیں اور دوسرے ساتھ بھی نہیں ہو گا! پریشان رہنما کی جانب سے محبت کیسے بن جاتی ہے؟

شہروں میں مظاہرے روکنے والی پابندی اور ان لوگوں کو جنہوں نے خود اپنے احتجاج کو روک دیا ہے اس کی جگہ سے وہ کیسے بھلاس!
 
کسی بھی مظاہرے میں شامل ہونے سے پہلے آٹھ ہزار کی پابندی ہی کافی ہو جاتی ہے!
 
واپس
Top