قِصّہ یُوسفؑ، جسے معاشرہ اپنی بے رحم آئینہ سمجھتا ہے، ایک خواب سے شروع ہوتا ہے جسے کبھی توڑنے والے ہمیشہ اپنے ہی نکلتے ہیں۔ معاشرہ خود کنواں بن چکا ہے، جو سب سچ کو دفن کرنے کی جگہیں ہیں، جہاں حسد کو کوالاکی، جھوٹ کو دانائی، اور سازش کو کامیابی سمجھا جاتا ہے۔ چہرے اب برانڈڈ نقابوں میں چھپے ہیں، اور ہر سچ بولنے والا باغی ٹھہرتا ہے، جو تنہا، بے बस، مگر باوقار ہوتا ہے، لیکن فرق صرف وقت کا ہے، زہر وہی ہے، چالیں اور کنویں ڈیجیٹل ہو چکے ہیں۔
یہ قصہ جھوٹی جذباتی غدار کی داستان نہیں بلکہ تہمت کا دہکتا ہوا کوڑا ہے جو معاشروں پر پڑتا ہے، ایک جھوٹ ایک الزام ایک سازش اور پھر قید — آج بھی جو سچ بولتا ہے وہ رسوا ہوتا ہے، جو جھوٹ بولتا ہے وہ لیڈر بنتا ہے۔ جس کا دامن صاف ہو اس کو صفائی دینا پڑتی ہے اور جو گندا ہو وہی اونچی کرسی پر بیٹھ کر دوسروں کو عزت کا لیکچر دیتا ہے۔
نیت اور کردار کی فرق یہ ہے، مگر آج نہیں ہوا، اور نہ کبھی ہوگا۔ اگر سچائی، صبر، اور یقین کے ساتھ سمجھ لیا جائے تو کنویں سے نکل کر قصر تک کا سفر ممکن ہو سکتا ہے۔ دُنیا کو اپنے زخم دکھانے کے بجائے اپنی تباہی کو خدا کے سامنے رکھنا ہوگا۔ یہ قصہ آج بھی ہر دل، ہر گھر، ہر رشتے، ہر آزمائش میں زندہ ہے، مسئلہ یہ نہیں کہ ہمارے پاسقرآن نہیں بلکہ ہم نے اُس کی باتوں کو سننا چھوڑ دیا ہے۔
یہ قصہ ہمیں بتاتا ہے کہ اگر عزت، عظمت، اور سکون درکار ہے تو وہی راہ اپنانی ہوگی — کنویں کی، قید کی، صبر کی، اور معافی کی، تب ہی کچھ بدلے گا، تب ہی ہم ’’انسان‘‘ بن سکیں گے، ورنہ صرف مخلوق رہیں گے۔
یہ قصہ جھوٹی جذباتی غدار کی داستان نہیں بلکہ تہمت کا دہکتا ہوا کوڑا ہے جو معاشروں پر پڑتا ہے، ایک جھوٹ ایک الزام ایک سازش اور پھر قید — آج بھی جو سچ بولتا ہے وہ رسوا ہوتا ہے، جو جھوٹ بولتا ہے وہ لیڈر بنتا ہے۔ جس کا دامن صاف ہو اس کو صفائی دینا پڑتی ہے اور جو گندا ہو وہی اونچی کرسی پر بیٹھ کر دوسروں کو عزت کا لیکچر دیتا ہے۔
نیت اور کردار کی فرق یہ ہے، مگر آج نہیں ہوا، اور نہ کبھی ہوگا۔ اگر سچائی، صبر، اور یقین کے ساتھ سمجھ لیا جائے تو کنویں سے نکل کر قصر تک کا سفر ممکن ہو سکتا ہے۔ دُنیا کو اپنے زخم دکھانے کے بجائے اپنی تباہی کو خدا کے سامنے رکھنا ہوگا۔ یہ قصہ آج بھی ہر دل، ہر گھر، ہر رشتے، ہر آزمائش میں زندہ ہے، مسئلہ یہ نہیں کہ ہمارے پاسقرآن نہیں بلکہ ہم نے اُس کی باتوں کو سننا چھوڑ دیا ہے۔
یہ قصہ ہمیں بتاتا ہے کہ اگر عزت، عظمت، اور سکون درکار ہے تو وہی راہ اپنانی ہوگی — کنویں کی، قید کی، صبر کی، اور معافی کی، تب ہی کچھ بدلے گا، تب ہی ہم ’’انسان‘‘ بن سکیں گے، ورنہ صرف مخلوق رہیں گے۔