قِصّہِ یُوسف ؑ، آج کے معاشرے کا بے رحم آئینہ ۔ تحریر: نجیم شاہ

بچھو

Member
قِصّہ یُوسفؑ، جسے معاشرہ اپنی بے رحم آئینہ سمجھتا ہے، ایک خواب سے شروع ہوتا ہے جسے کبھی توڑنے والے ہمیشہ اپنے ہی نکلتے ہیں۔ معاشرہ خود کنواں بن چکا ہے، جو سب سچ کو دفن کرنے کی جگہیں ہیں، جہاں حسد کو کوالاکی، جھوٹ کو دانائی، اور سازش کو کامیابی سمجھا جاتا ہے۔ چہرے اب برانڈڈ نقابوں میں چھپے ہیں، اور ہر سچ بولنے والا باغی ٹھہرتا ہے، جو تنہا، بے बस، مگر باوقار ہوتا ہے، لیکن فرق صرف وقت کا ہے، زہر وہی ہے، چالیں اور کنویں ڈیجیٹل ہو چکے ہیں۔

یہ قصہ جھوٹی جذباتی غدار کی داستان نہیں بلکہ تہمت کا دہکتا ہوا کوڑا ہے جو معاشروں پر پڑتا ہے، ایک جھوٹ ایک الزام ایک سازش اور پھر قید — آج بھی جو سچ بولتا ہے وہ رسوا ہوتا ہے، جو جھوٹ بولتا ہے وہ لیڈر بنتا ہے۔ جس کا دامن صاف ہو اس کو صفائی دینا پڑتی ہے اور جو گندا ہو وہی اونچی کرسی پر بیٹھ کر دوسروں کو عزت کا لیکچر دیتا ہے۔

نیت اور کردار کی فرق یہ ہے، مگر آج نہیں ہوا، اور نہ کبھی ہوگا۔ اگر سچائی، صبر، اور یقین کے ساتھ سمجھ لیا جائے تو کنویں سے نکل کر قصر تک کا سفر ممکن ہو سکتا ہے۔ دُنیا کو اپنے زخم دکھانے کے بجائے اپنی تباہی کو خدا کے سامنے رکھنا ہوگا۔ یہ قصہ آج بھی ہر دل، ہر گھر، ہر رشتے، ہر آزمائش میں زندہ ہے، مسئلہ یہ نہیں کہ ہمارے پاسقرآن نہیں بلکہ ہم نے اُس کی باتوں کو سننا چھوڑ دیا ہے۔

یہ قصہ ہمیں بتاتا ہے کہ اگر عزت، عظمت، اور سکون درکار ہے تو وہی راہ اپنانی ہوگی — کنویں کی، قید کی، صبر کی، اور معافی کی، تب ہی کچھ بدلے گا، تب ہی ہم ’’انسان‘‘ بن سکیں گے، ورنہ صرف مخلوق رہیں گے۔
 
یہ قصہ آج بھی ہر شعبہ میں موجود ہے، جیسے کہ politics 🤝، journalism، یا social media 📱، جو سب سچ کو اپنی پوری اِستحضار سے سننے کے بجائے لوگوں کی حسد کو بڑھاتے ہیں۔ معاشرہ اپنا نقاب چھپانے کی جگہیں آئین کو توڑنے والے ایسی لوگ ہوتے ہیں جو آج بھی سچ بولتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں، لیکن کبھی نہیں آئے گا۔

ماڈرن ڈائرектری میں لوگ سچ بولتے ہوئے دیکھتے ہیں، پھر بھی وہی لوگ لینڈسکेप کا دावا کر رہے ہیں۔ یہ معاشرہ اپنی تobaہی پر چار چادریوں پر آ رہا ہے، جو سب سچ کو ہی نہیں بلکہ مایوس کن reality check ہی دیتے ہیں۔

یہ قصہ ہمیں بتاتا ہے کہ اگر آزادی، عظمت، اور عزت کی رشٹے کو آپنا بنانا ہو تو ہم ایسے سفر پر چل سکتے ہیں جو نہیں سوچا جاتا۔ لیکن یہ بھی یقین دہانی ہے کہ اگر آپ اپنی تobaہی کو خدا کے سامنے رکھیں تو اس کی کوئیResolution نہیں ملے گی۔
 
اس قصے کی تاریخ اور اس کی ایک بار پھر پائی جانے کی ضرورت ہے، لیکن یہ بات بھی یقینی ہے کہ اسے سننے والا اس سے لپک جائے گا۔ معاشروں میں چالیں کی ایسی نسل ہے جو اپنی سچائی کو بھول کر رہی ہے اور جس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اس کو ایک قیمتی سچائی سمجھتے ہیں جو ان پر نہیں چلتی۔

🤦‍♂️
 
اس قصے کی جسمانی اور جذباتی دھول کا انبار ہمیں اب بھی اچھی طرح نہیں سمجھتا، جو لوگ ایسے معاشرے میں سے نکل کر آتے ہیں جہاں زہریلی ملاطی پہن چکے ہو اور یہ سب تازہ آئینہ کی بھلائی کے نام پر ہے، وہ اس معاشرے میں اپنی آئینہ دھول سے باقی رہ کر ہی صاف رہتے ہیں۔

ہمیشہ کچھ نہ کچھ بدلنے کی آشقائیہ میں ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ معاشرے کو صاف کرنے کے لیے اس کا ساتھی نہیں بننا، بلکہ اپنی خودی کی آشقائیہ میں ہی بدلنے کی کوشش کرنا چاہیے۔
 
یہ قصہ پوری طرح معاشرے کا مظاہر ہے، اور اس میں کبھی بھی کوئی تبدیلی نہیں دیکھا، لوگ ایسے ہی رہتے ہیں جو سچ بولنے والوں پر زور دیتے ہیں اور اسے اپنی برانڈنگ سمجھ لیتے ہیں۔ وہ لوگ جو سچ کہتے ہیں انھیں بھنک کر دیکھتے ہیں اور انھیں گواہ نہیں سمجھتے۔ یہ ایسا ہے کہ لوگ اپنی بے رحم کائنات میں گول ہو کر رہتے ہیں اور انھیں اس بات کو سمجھنے کی जरورت نہیں ہوتی کہ دنیا کا کیا رستہ ہے؟ 🤯
 
سچ bolne waale logon ko kaise samajhati hai ye toh duniya ke saare cheharein pehne hue bhi unhe toofan ki tarah uthate hain. yeh sochta hai ki jo log jhooth bolte hain, wo leadership ban sakte hain. lekin agar aap sabse pura apna faisla karte hain aur apni naitikata ko saaf rakhte hain toh ek din tum unki jagah par bhi baith sakte ho. yeh jhooth bolne waale logon ko ek darawat samajhati hai jo unhe zindagi mein safalta dene ki koshish karti hai.
 
واپس
Top