امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نیویارک سٹی کے نومنتخب میئر زہران ممدانی سے پہلی باضابطہ ملاقات ملے گی۔ دونوں کے سیاسی نظریات متضاد ہیں اور دن بھر کی رپورٹس ان ملاقات پر ٹکی ہوئی ہیں۔
اس سلسلے میں ٹرمپ نے تصدیق کرتے ہوئے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا ہے کہ وہ جمعہ کو وائٹ ہاؤس میں نیویارک سٹی کے نومنتخب میئر زہران ممدانی سے ملاقات کریں گے۔ اس ملاقات کا انعقاد دونوں رہنماؤں کے درمیان پہلی باضابطہ گفتگو ہوگا۔ تاہم، دونوں کی نظریاتی بنیاد متضاد ہیں اور اس ملاقات پر دنیا بھر کے سیاسی نظریات ٹکی ہوئی ہیں۔
میئر زہران ممدانی نے اپنی پالیسیوں میں ترقی پسندی اور کاروباری نظام کی بنیاد رکھی ہے۔ ان کے منشور میں ایک ملین سے زیادہ کرایہ داری قوانین کے تحت آنے والے اپارٹمنٹس کو کرائے گی حدمقرر کرنا، یونیورسل چائلڈ کیئر فراہم کرنا، مفت بس سروس کو فنڈ کرنا اور شہری حکومت کی ملکیت میں چلنے والی گروسری اسٹورز قائم کرنا شامل ہے۔ وہ اپنی پالیسیوں کے لیے کارپوریشنز اور امیر طبقے پر زیادہ ٹیکس عائد کرنے کے حامی ہیں۔
امریکی صدر نے ممدانی کو ’’کمیونسٹ‘‘ قرار دیتے ہوئے تنقید کی اور خبردار کیا کہ ان کی کامیابی نیویارک سٹی کی عالمی مالیاتی مرکز کی حیثیت کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔ ایک نیویارکر ہونے کے ناطے ٹرمپ نے ووٹروں پر زور دیا تھا کہ وہ ممدانی کے بجائے سابق گورنر اینڈریو کومو کی حمایت کریں، جنہوں نے ڈیموکریٹ پارائمری میں ممدانی سے شکست کے بعد آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑا تھا۔
صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اگر ممدانی شہر کی قیادت سنبھالتے ہیں تو اُن کی انتظامیہ نیویارک سٹی کی وفاقی فنڈنگ روک دے گی۔ انتخابات کے بعد سے صدر کے مشیران ان وفاقی فنڈز کا جائزہ لے رہے ہیں جو شہر کو حاصل ہوتے ہیں تاکہ انہیں معطل یا منسوخ کیا جا سکے۔
ممدانی کی کامیابی نے ٹرمپ کو نیویارک سٹی پر اپنی سخت تنقید کو مزید تیز کرنے کا موقع فراہم کیا ہے، جس کے نتیجے میں معیشت، جرائم اور امیگریشن پالیسیوں پر ایک ممکنہ ٹکراؤ سامنے آ سکتا ہے—جو آئندہ سال کے مڈ ٹرم انتخابات سے قبل نہایت اہم سمجھا جا رہا ہے۔
صدر ٹ्रमپ نے لاس اینجلس اور شکاگو سمیت متعدد شہروں میں نیشنل گارڈ بھیج چکے ہیں اور ووٹروں کو ایسا کہنا جتایا تھا کہ وہ ممدانی کے بجائے سابق گورنر اینڈریو کومو کی حمایت کریں۔
معدادی نے بیان دیا ہے کہ وہ صدر کے ساتھ کام کرنے کا راستہ تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں 13 نومبر کو انہوں نے گورنر کیتھی ہوچل سے ملاقات کی، جس میں ممکنہ طور پر ICE افسران یا نیشنل گارڈ کی تعیناتی کے لیے شہر کی تیاری پر گفتگو کی گئی۔
اس سلسلے میں ٹرمپ نے تصدیق کرتے ہوئے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا ہے کہ وہ جمعہ کو وائٹ ہاؤس میں نیویارک سٹی کے نومنتخب میئر زہران ممدانی سے ملاقات کریں گے۔ اس ملاقات کا انعقاد دونوں رہنماؤں کے درمیان پہلی باضابطہ گفتگو ہوگا۔ تاہم، دونوں کی نظریاتی بنیاد متضاد ہیں اور اس ملاقات پر دنیا بھر کے سیاسی نظریات ٹکی ہوئی ہیں۔
میئر زہران ممدانی نے اپنی پالیسیوں میں ترقی پسندی اور کاروباری نظام کی بنیاد رکھی ہے۔ ان کے منشور میں ایک ملین سے زیادہ کرایہ داری قوانین کے تحت آنے والے اپارٹمنٹس کو کرائے گی حدمقرر کرنا، یونیورسل چائلڈ کیئر فراہم کرنا، مفت بس سروس کو فنڈ کرنا اور شہری حکومت کی ملکیت میں چلنے والی گروسری اسٹورز قائم کرنا شامل ہے۔ وہ اپنی پالیسیوں کے لیے کارپوریشنز اور امیر طبقے پر زیادہ ٹیکس عائد کرنے کے حامی ہیں۔
امریکی صدر نے ممدانی کو ’’کمیونسٹ‘‘ قرار دیتے ہوئے تنقید کی اور خبردار کیا کہ ان کی کامیابی نیویارک سٹی کی عالمی مالیاتی مرکز کی حیثیت کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔ ایک نیویارکر ہونے کے ناطے ٹرمپ نے ووٹروں پر زور دیا تھا کہ وہ ممدانی کے بجائے سابق گورنر اینڈریو کومو کی حمایت کریں، جنہوں نے ڈیموکریٹ پارائمری میں ممدانی سے شکست کے بعد آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑا تھا۔
صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اگر ممدانی شہر کی قیادت سنبھالتے ہیں تو اُن کی انتظامیہ نیویارک سٹی کی وفاقی فنڈنگ روک دے گی۔ انتخابات کے بعد سے صدر کے مشیران ان وفاقی فنڈز کا جائزہ لے رہے ہیں جو شہر کو حاصل ہوتے ہیں تاکہ انہیں معطل یا منسوخ کیا جا سکے۔
ممدانی کی کامیابی نے ٹرمپ کو نیویارک سٹی پر اپنی سخت تنقید کو مزید تیز کرنے کا موقع فراہم کیا ہے، جس کے نتیجے میں معیشت، جرائم اور امیگریشن پالیسیوں پر ایک ممکنہ ٹکراؤ سامنے آ سکتا ہے—جو آئندہ سال کے مڈ ٹرم انتخابات سے قبل نہایت اہم سمجھا جا رہا ہے۔
صدر ٹ्रमپ نے لاس اینجلس اور شکاگو سمیت متعدد شہروں میں نیشنل گارڈ بھیج چکے ہیں اور ووٹروں کو ایسا کہنا جتایا تھا کہ وہ ممدانی کے بجائے سابق گورنر اینڈریو کومو کی حمایت کریں۔
معدادی نے بیان دیا ہے کہ وہ صدر کے ساتھ کام کرنے کا راستہ تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں 13 نومبر کو انہوں نے گورنر کیتھی ہوچل سے ملاقات کی، جس میں ممکنہ طور پر ICE افسران یا نیشنل گارڈ کی تعیناتی کے لیے شہر کی تیاری پر گفتگو کی گئی۔