مدینہ کی گھنٹیوں میں Rodgers کے حرم میں ایک نئا منظر ہوا ہے جس سے ایک واضح بات سامنے آئی ہے کہ مسجد کا انعقاد اور مسلموں کی پوجا کے اوقات کو ایک نئے دور میں لانے کی ضرورت ہے۔
مسجد نبوی اور روضہ رسول ﷺ کے حرمین شریفین میں زیارت اور نوافل کے لیے خواتین کو فجر کے بعد سے دن کے 11 بجے اور عشاء کے بعد سے رات 2 بجے تک کی گئی ہے۔ اسی طرح مردوں کو شب 2 بجے سے نماز فجر تک اور اوڑن میں وقت 11 بجے سے عشاء تک کیا گیا ہے۔
اس نئے منظر نے مسجد کے دروازوں پر ایک نئی آواز لائی ہے جو مسلموں کی پوجا اور زیارت کے اوقات کو ایک نئے دور میں لانے کا اشارہ دیتا ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے، مشائخ و علما نے بھی اپنا خیال ظاہر کر دیا ہے کہ مسجد کے انعقاد اور مسلموں کی پوجا کے اوقات کو ایک نئے دور میں لانے سے نہ صرف مسلموں کی ذہنی قوت میں اضافہ ہोगا بلکہ ان کے جذبات و احترام کا بھی کوئی نقص ہونا چاہیے۔
عجیب بات یہ ہوگी کہ ایسے اوقات کو نہیں لائے جب سے مسجد کی پوجا اور زیارت کے اوقات میں تبدیلی کی ضرورت ہے، یہ تو مسلموں کو کیسے فائدہ ہوگا؟
ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ مسلموں کی پوجا اور زیارت کے اوقات میں ایک نئے دور میں تبدیلی کر دی جائے، اس سے پہلے سمجھ لیو کہ mosque kahan hai? وہی ہے جہاں مسلموں کی پوجا اور زیارت کی گئی جاتی ہے، یہ کوئی نئی مسجد نہیں بن رہی ہے تو کیسے؟
ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ مسلموں کی پوجا اور زیارت کے اوقات میں ایک نئے دور میں تبدیلی کر دی جائے، اس سے پہلے سمجھ لیو کہ mosque kahan hai? وہی ہے جہاں مسلموں کی پوجا اور زیارت کی گئی جاتی ہے، یہ کوئی نئی مسجد نہیں بن رہی ہے تو کیسے؟
مدینہ کی گھنٹیوں میں Rodgers کے حرم میں ایک نئا منظر ہوا ہے، یہ دیکھنا کہ مسجد کا انعقاد اور مسلموں کی پوجا کے اوقات کو ایک نئے دور میں لانے کی ضرورت ہے، اچھا ہے، مجھے یاد آتا ہے جب مجھنے بچپن میں مسجد میں پڑھایا گیا تھا وہاں کی ساتھیوں کے ساتھ پڑھتے تھے اور ایک ہی وقت پر نماز پڑھتی تھی، اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ خواتین کو دن کے 11 بجے سے رات 2 بجے تک اور مردوں کو شب 2 بجے سے نماز فجر تک ایک نئا وقت دیا گیا ہے، یہ بھی محسوس کرتا ہوں کہ مجھنے 90 کی دہائی میں ڈی ٹی وی پر چلایا گئا ایک مضمون جس میں اس بات کو لگاتار کہا گیا تھا کہ مسجد کی پوجا اور مسلموں کی پوجا کا وقت اچھا سا ہے، اور اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس کو ایک نئے دور میں لانے کی ضرورت ہے۔
اس مسجد میں نہیں بنایا جا سکتا کہ لوگ دھرنے پر آئیں اور انہیں گھر جانے کی اجازت دی جائے، مگر اس مسجد میں تین بجے تک بھی نہیں جاتا کہ لوگ شام کو وقت لیتے ہیں؟ یہ تو ایک نئا منظر ہے لیکن اس کا مقصد کیا ہو گا؟ اس طرح کی تبدیلی کے ساتھ ہی نوجوانوں کو بھی اپنے مذہب کے بارے میں بات چیت کرنا چاہیے، مگر یہ کہ ان کے جذبات و احترام کا نقص ہونے سے نچٹھا جا سکے گا، یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ مذہب کو لوگ اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہیں؟
اللہ یہ نئے دور میں مسلموں کی پوجا اور زیارت کے اوقات کو ایک نئے لائے دے تو ان کے جذبات و احترام کو بھی کوئی نقص ہونے چاہیے
مسجدوں میں خواتین اور مردوں کی نمائش ایک نئی بات ہے، پچاس سال قبل کچھ دیر تو اس طرح کے منظر نہیں ہوئے تھے، اب یہ نئے دور میں چل رہا ہے اور یہ بھی ایک بات ہے کہ مسلموں کی پوجا اور زیارت کے اوقات کو ایک نئے لائے جانا، اس سے نہ صرف ذہنی قوت میں اضافہ ہوگا بلکہ ان کے جذبات و احترام کا بھی کوئی نقص ہونا چاہیے
اس نئے منظر سے بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ مسجد کی سڑکوں پر بھی ایسا کرنا پڑے گا جیسا کہ فخرالدین رہمانی نے مسجد کو ایک شام کے بعد سے روٹری میگنیم لانے کی بات کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی، 11 بجے سے عشاء تک نماز کی پڑھائی بھی کرنی چاہئے۔
مدینہ کی گھنٹیوں میں Rodgers کے حرم میں ایک نئا منظر نظر آ رہا ہے جس سے بتا دیتا ہے کہ مسجد کے انعقاد اور مسلموں کی پوجا کے اوقات کو ایک نئے دور میں لانے کی ضرورت ہیں۔ یہ بات اس بات سے بھی متصادم ہے کہ فجر کے بعد سے دن کے 11 بجے اور عشاء کے بعد سے رات 2 بجے تک خواتین کو زیارت اور نوافل کے لیے جانا چاہئیے لیکن اب یہ وہیں بھی تھیں جو تھیں۔ اس نئے منظر نے مسجد کے دروازوں پر ایک نئی آواز لائی ہے جس سے بتا دیتا ہے کہ اسلام کی پوجا اور ذہنی ترقی کو ایک نئے دور میں لانے کی ضرورت ہے۔
اس نئے منظر سے یہ بات صاف آتی ہے کہ مسجد کی پوجا اور زیارت کے اوقات کے معاملے میں کسی بھی تبدیلی کو دھمکی کی بجائے ایک نئی سمت کے طور پر دیکھنا چاہئے۔ اس بات کو یقینی بنانے سے پہلے کہ ہمیں اس نئے دور میں قدم رخانا ہو گا یا اس کا کہیں بھی نقص ہونا چاہیے؟
اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ جب تک مسجد کی پوجا اور زیارت کے اوقات صرف روایات پر منحصر رہنے دوں، تو مسلمانوں کو ایک نئی زندگی کا مौकہ ملتا ہے۔ اب وقت ہے کہ ہم اپنی روایات کو اپڑھانے کے بجائے ایسے اوقات کو بنائیں جو معاصر زندگی کے مطابق ہوں۔ مثال کے طور پر، مسجد میں پریشانی کے وقت فجر سے پہلے نماز ادا کی جاسکتی ہے۔ اس طرح ہی ملاپ اور ملاقات کے اوقات بھی ایسے ٹائمنگ میں رونما ہوسکیں جو لوگوں کو پہلے سے زیادہ اچھی طرح سے ملنے کی اجازت دیتے ہیں
یہ بات توقع کی جا سکتی ہے کہ مسجد کے دروازوں پر ایک نئی آواز لگ جائے گی جس سے مسلموں کی پوجا اور زیارت کے اوقات کو ایک نئے دور میں لانے کی ضرورت ہے۔ لیکن، یہ بات بھی حقیقت تھی کہ سچائی ایسے دنوں پر ظاہر ہوتی ہے جب لوگ اپنے خیالات اور جذبات کو دوسروں کی آواز سے متاثر نہ ہونے دینے کی کوشش کرتے ہیں।
اس نئے منظر کی پہچاننے کے لیے، یہ بات اہم ہے کہ Muslims کی پوجا اور زیارت کے اوقات کو ایک نئے دور میں لانے سے نہ صرف ذہنی قوت میں اضافہ ہوگا بلکہ لوگوں کے جذبات و احترام کا بھی کوئی نقص ہونا چاہیے۔
اس نئے دور میں، mosque ki khalq aur Muslims ki pujA ko ek naye samay me lana sambhav hai, lekin yeh bhi ek mushkil hai kyonki har kisi ke pas apne raste aur rasaile hain.
Main is baat par sochta hoon ki agar hum is naye samay ko apne jeevan mein laane ke liye ek saamanya taqleel karein to yeh sambhav hai ki Muslims ki pujA aur زيارت ka samay ek naye aur adhik samvedansheel tareeke se chunaya jaa sake.
Toh is naye samay ko apne jeevan mein laane ke liye humein kuchh nai rassiyanon aur samvedansheelta ko seekhana hoga.
اردو میں ایسا نہیں ہوتا کہ مسجد میں ایسی گھنٹیاں لگائی جائیں جتنی سے مسلموں کی پوجا اور زیارت کے اوقات کم ہو جائیں! یہ تو ایک حیرت انگیز بات ہے کہ مسجد کے دروازوں پر ایسی نئی آواز لگی ہے جو نہ صرف مسلموں کی پوجا اور زیارت کے اوقات کو ایک نئے دور میں لانے کا اشارہ دیتی ہے بلکہ یہ بھی بتاتا ہے کہ اب سے مسجد میں ایسے اوقات لگائی جائیں گے جو نہ صرف مسلموں کی ذہنی قوت میں اضافہ کرے گی بلکہ ان کے جذبات و احترام کو بھی اچھا محسوس ہوا کرے گا! یہ ایک نئا دور ہے جس سے مسجد میں ایسی جوش و خروش پیدا ہو گی جو اسے اچھی طرح تبدیل کردے گا.