سینیٹ کا اجلاس: پاکستانیوں کو ویزے نہ ملنے پر خلیجی ممالک میں سفارت خانے بند کرنے کا مطالبہ | Express News

طلائی مچھلی

Well-known member
خلیجی ریاستوں نے پاکستانی شہریوں کے ویزے سے پہلے رکاوٹ کی، اب انہیں بحال کرنے پر مطالبہ ہوتا چاہئیے۔

سینیٹ میں اس مسئلے کے بارے میںاظاہار خیال تھا جب سینیٹر دنیش کمار نے کہا، "خلیجی ریاستوں نے پاکستانی شہریوں کو ویزے دینا بند کردیے ہیں اور ان پر مسترد کردئیے جاتے ہیں، 95 فیصد کیسوں میں وہاں پر استقام کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔"

انہوں نے مزید کہا کہ جب ان خلیجی ریاستوں کو ضرورت ہوتی ہے تو پاکستان کو بھائی کہتے ہیں لیکن ویزوں کے معاملے میں ان پر مسترد کردئیے جاتے ہیں۔

سینیٹر نے کہا کہ بھارت کو تو ویزے جاری کیے جاتے ہیں اور ان سے ملنے پر مجبور کیا جاتا ہے، لیکن پاکستان کو وہی سے معاملہ نہیں کرتا۔

انھوں نے مزید کہا کہ اگر بھارت کو ویزے جاری کیے جانے پر انھیں کبھی کامیابی حاصل ہوتی ہے تو اس معاملے میں سفیروں کے کام کرنا ضروری نہیں پڑتا۔

سینیٹر نے کہا کہ اگر یہ معاملہ ٹھیک نہیں ہوتا تو ان خلیجی ممالک میں پاکستان کو اپنی ایمبیسیاں بند کرنے پر مجبور کیا جائے گا، جو کہ ہمیں بھاری نقصان پہنچائیں گی۔

سینیٹر کی یہ تقریبات سینیٹ میں اپنے خیال کو ظاہر کرنے اور اس معاملے کے حل کے لیے مطالبہ کرتے ہوئے کی گئی تھیں، جس کے نتیجے میں پاکستانیوں کو ویزے بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
 
اس معاملے کی پوری بات یہی ہے کہ خلیجی ریاستوں نے پاکستانیوں کو ویزے دینا بند کردیا ہے اور ان پر مسترد کردئیے جاتے ہیں، یہ تو قابل عجاب ہے کہ بھارت کو وہی سے معاملہ کرنا پڑتا ہے جو Pakistan se nahi hoti.

سینیٹر دنیش کمار کا کہنا کہ "وہاں پر استقام کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی" تو بھی پاکستانیوں کو وہاں جانے میں کوئی difficulty nahi hoti.

اس معاملے کے حل کے لیے سینیٹر کی تقریر میں نہیں تھا، بلکہ انھوں نے ایسی بات کی ہے جس سے پاکستان کو بھارپور نقصان ہوتا ہے.
 
ایسا تو اچھا ہو گا، 95 فیصد کی صورت میں پکے نہیں رہنا چاہئیے، وہاں پہلے سے ایسی نہیں ہوا تھی، اور اب بھی یہ معاملہ حل نہیں ہوا تو ان کے ساتھ بھی چلا جانا چاہئیے...
 
میں یہ سوچتا ہوں کہ یہ بہت چیلنجنگ معاملہ ہے، یہ تو جسٹیس سینیٹر کی بات کی ہے کہ پاکستانی شہریوں کو ویزے سے پہلے روکاوٹ دی جاتی ہے، اور اب انھیں بحال کرنے پر مطالبہ ہوتا چاہئیے۔

میں یوں سوچتا ہوں کہ وہ بھی بات کرتے ہیں کہ اگر ان خلیجی ریاستوں کو ضرورت ہوتی ہے تو ان پر مسترد کردئیے جاتے ہیں، اور پاکستان کو بھائی کہتے ہیں لیکن ویزوں کے معاملے میں ان پر مسترد کردئیے جاتے ہیں۔

میں یہ سوچتا ہوں کہ اس معاملے کی حل کے لیے اور وہاں پر پاکستانی شہریوں کو پلاسٹک کھینٹنے والی ویزے بحال کرنے پر مطالبہ ہونے سے، پاکستان کو اپنی ایمبیسیاں بھی بند کرنا پڑ سکتے ہیں۔

یہ تو اکثر یہی ہوتا ہے کہ جب کسی وہاڈے ممالک کی بات ہوتی ہے تو ان پر مسترد کردئیے جاتے ہیں، اور اب یہ معاملہ پھٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔
 
یہ کام تو پوری ٹیم کے لئے مشکل ہونے والا ہے، پھر بھی ان سینیٹر دنیش کمار کو یہ چیلنج اٹھانے کی بڑی پries ہوگی اور وہ اس میں کامیاب رہنے کا ہمیں بھی منظر بنائیڈہ ہوگا کہ 95 فیصد ہی نہیں تو وہاں پر استقام کرنا جاری رکھایا جا سکتا ہے اور پھر بھی وہاں کو پہلے سے لینے والے معاملات میں بھی ایسا کرنے کا چیلنج اٹھایا جا سکتا ہے۔
 
عثمانیہ کی ویزے نہیں دیا جاسکتا تو کچھ لگتا ہے کہ بھارتیوں کو بھی ایسے ہی معاملہ کیا جائے؟ اس سے وہ اس معاملے میں مدد نہیں مل سکتی اور پھر وہ پاکستان کو اپنی امبیسیاں بھی بند کر دیتے ہیں? یہ معاملہ کچھ عجیب ہے!
 
اس معاملے میں ایک بات یقینی ہے، جب بھی کچھ نئی صورت حال آتی ہے تو ہم اس پر غور کرنا چاہیں اور سچائی کو تلاش کرنا چاہیں۔ اب تک خلیجی ممالک نے پاکستانی شہریوں کو ویزے دینا بند کیا ہے، اور یہ معاملہ ایک جھگڑا بن گیا ہے۔

اس سے پہلے بھی دیکھ چuka ہیں کہ بھارت کو ویزے جاری کیے جانے پر انھیں ہمیشہ ملنے پر مجبور کیا جاتا رہا ہے، لیکن اب یہ معاملہ اور بھی پیچیدہ ہو گیا ہے۔

اس لئے ہمیں اس معاملے کو توازن میں رکھنا چاہیں اور پوری دنیا کو ایک ہی دھرے میں لانے کی کوشش کرنی چاہیں۔
 
زہرہ زحمی دیکھتے ہیں تو یہ چیلنج ہے؟ پاکستانی شہریوں کو ویزے سے پہلے رکاوٹ کی جاتی ہے، اور اب انہیں بحال کرنے پر کیا مطالبہ ہوتا چاہئیے؟ اس معاملے کو حل کرتے ہوئے سینیٹر نے بات کی ہے، لیکن اس کی ہم آہنگی سے کیا اس معاملے میں فیصلہ ہو سکتا ہے؟
 
چیز تو یہ ہے اگر خلیجی ریاستیں ہمیں ویزے دی جائیں تو چاہئیں، لیکن وہیں ان پر مسترد کردینا کھاراب ہے. سب سے Problem یہ ہے کہ اب وہ پھر سے ویزے نہ دیں گے، اور ہمیں فیکٹریوں میں کام کرنے کی اجازت نہیں ملے گی۔

لیکن وہ اس کا لاحقہ بھی پوجے گے کہ 95 فیصد کیسوں میں ایسے لوگ رہتے ہیں، اور ان کی آزادی کے لیے سینیٹر کھوڑے ہوئے ہیں. لاکھوں پاکستانیوں کو وہاں بھیجا جاتا ہے، اور وہاں پر ان کی آواز نہیں سنائی جاتی ہے.

ایسا کیا چاہئیے؟ پہلے سینیٹر نے بھارتیوں کو ویزے دیے، اور اب ان پاکستانیوں کے لئے ویزے جاری کرنے کی بات کرو. ہمیں ایک دوسرا معاملہ نہیں سمجھنا چاہئیے، چاہئیے اور وہیں بھی ہم رہتے ہیں.
 
🤗 یہ عجیب بات ہے کہ حالات بھرنے پر ان خلیجی ممالک نے 95 فیصد میں پاکستانیوں کو ویزے دینا بند کردیئے ہیں، اور ان پر مسترد کر دیا جاتا ہے جو کہ وہاں استقام کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ یہ معاملہ ایسا لگ رہا ہے جیسے پاکستان کو اس سے بات چیت کرانا پڑتا ہے، لیکن وہی ساتھ ہو کر نہیں رہ سکتا۔
 
ایسا تو یقینی طور پر نہیں، اگر ان خلیجی ریاستوں کو اپنی ایمبیسیاں بند کرنا پڑ جائے تو وہ سے کیا ہوتا؟
میں یہ سोचتا ہوں کہ یہ معاملہ حل نہیں ہونے دے گا، کیونکہ ابھی بھی کچھ لوگ ویزوں کو ایسے ٹریننگ کر رہے ہیں جو پرانے وقت میں ان کو بحال نہیں کیا جاتا تھا، اور اب یہ نئے ویزوں کو بحال کرنے کی بات شروع کر رہے ہیں۔
جب تک اس معاملے میں کوئی حل نہیں ہوتا، تو میرا خیال ہے کہ پاکستانیوں کو یہ ویزے ابھی بھی بحال کرنے کی ضرورت ہے۔
 
اس معاملے میں یہ بات صریح ہے کہ اگر بھارت سے ملنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو اس کو اچھی بات سمجھنا چاہئیے، لیکن پاکستان کے شہریوں کو ویزے سے پہلے رکاوٹ دی جانے سے یہ بات بھی صریح ہے کہ اس معاملے میں ایسا نہیں ہونا چاہئیے۔
 
ابھی تو سینیٹر کی بات suni thi, انھوں نے بتایا ہے کہ خلیجی ریاستوں نے ویزے کو بند کر دیا ہے اور 95 فیصد وہاں پر رہنے والے لوگ مسترد ہیں، yeh toh galat hai! Pakistan ko bhi khair maangne ke bajay mast rakha jata hai, yeh kaisi baat hai?

Mere khayalon mein yah cheez bhi hai ki bharat par viza sunai jaati hai, aur unse milne ke liye koi problem nahi hoti, lekin Pakistan ko is tarah mast rakha jata hai? Yeh to bhi galat hai!

Agar in khiladiyon ke beech baat karni ho toh batao, yeh kaisa saamaan tha jo unhein milta tha? Aur ab viza ko wapas laane ka matlab kya hai?
 
یہ بہت غلط ہے، ایسے لوگ کیوں تھکاوٹ دیتے ہیں؟ پھر کیونکر ان سے بات چیت کرنا ہوتا ہے? سینیٹر دنیش کمار کا یہ معاملہ ایسا نہیں ہونا چاہئیے، وہ بھارت کی طرح ان خلیجی ممالک کو بھی اپنے سامعین بنانے پر مجبور کرنا چاہئیں!
 
یہ معاملہ تو ٹھیک سے حل ہونے دوں کی ضرورت ہے، لیکن یہ بھی دیکھنا چاہئیے کہ پاکستان کو کیسے سہارا مل سکے گا؟ اس معاملے میں پچھلے سالوں کی طرح کسی نہ کسی جگہ ایسے مظالم ظاہر ہوتے رہتے ہیں، اور اب وہی صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہے۔

میری رائے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کو اس معاملے پر توجہ دی جا سکتی ہے، اور وہ خلیجی ممالک سے بات کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے، لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے حقوق کو محفوظ رکھنے کے لیے کچھ اور کارروائیں کرنا پڑ سکیں گی۔
 
واپس
Top