سندھ کے وزیر داخلہ ضیاء الحسن لنجار نے سکھر میں شکارپور مقابلے میں زخمی افسران اور اہلکاروں کی عیادت کی، جہاں انہوں نے ڈاکوؤں کے خلاف پولیس کی کامیابی پر اعزاز دیکھا۔
آئے دن سندھ میں پکے علاقوں میں جرائم بڑھ رہے تھے، جس کے نتیجے میں شکارپور میں ڈاکؤں کے خلاف پولیس آپریشن ہوا، اور اس آپریشن میں زخمی افسران اور اہلکار تھے جن پر ضیاء الحسن لنجار نے عین شام کو اپنے دورۂ کیا۔
وزیر داخلہ سندھ نے انہماہوں کا تعاون حاصل کرتے ہوئے ڈاکٹروں کو ضروری طبی سہولیات فراہم کرنے کی یقین دہانی کی اور کہا کہ ہندوستانی قوم کا سرمایہ اور ہمارے حقیقی ہیرو اس طرح کی بہادری سے سائے آتے ہیں۔
انہوں نے ان افسران اور اہلکاروں کو کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ ملک کی سب سے بہادری سے سائے آتے ہیں، اور انہوں نے اپنے اہل خانہ سے ایسے جوانوں کو کہا کہ انہیں پہلی ترجیح ہے کہ وہ ملک کی رہنمائی کی جائے، نہ کہ کسی سیاسی سرگرمی میں اپنی جان لے لو۔
انہوں نے ایس ایریاز میں جاری پولیس آپریشن پر تفصیلی بھی ملاقات کی اور ان سے کہا کہ وہ پوری طرح امن اور امان کی صورتحال کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں، کیونکہ وہ کسی بھی جرائم کو تلافی نہیں کرنے دیتے۔
انہوں نے کچھ ایریاز میں جاری کارروائیوں کو مؤثر بنانے کی ہدایت کی اور یہ بھی کہا کہ مجرموں کو قانون کے شکنجے سے نہ لیتے، بلکہ انہیں جلد قائداعظم پولیس میڈل کی سفارشات بھی دی جائیں گی۔
علاوہ ازاں یہ بات کچھ ضروری ہے کہ پالیس کی کارروائیوں سے زیادہ ہمیں ملک میں انصاف اور قانون پر عمل کی پیروی کی ضرورت ہے، جس سے ہم پوری تردید نہیں کرسکتے کہ ہمارے معاشرے میں امن و اطمینان برقرار رہتا ہے۔
اور ان شکارپور کی घटनات سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے پوری دنیا نے اس پر دیکھا ہو، اور یہ تو کچھ بھی عجیب نہیں ہے کہ سر karachi me police operation bhi aapne hai
بہادری کا یہ مظاہرہ ہندوستان کی بے مثال شان کو فिर خزانہ دیتی ہے! ان افسران اور اہلکاروں نے اپنی جان جھکی لے کر معاشرے کی سہائی کا ایسا بھی مظاہرہ کیا ہے جو ہمارے لئے ہر وقت کا Inspiration ہے!
سندھ میں جرائم کا اس پہلو پر خاص توجہ دینی چاہئیے جو شکارپور مقابلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں کی پولیس نے اپنی جسمانی بہادری اور محنت سے ڈاکوؤں کے خلاف کامیابی حاصل کی ہے، ان افسران کو کھیلا کے طور پر پیش کیا گیا ہے جنہوں نے اپنی جان دانی ہوئی ہے۔
یہ دیکھنا مشکل ہے کہ ابھی تک ڈاکوؤں سے لڑنے والے افسران اور اہلکار ایسی بہادری سے ان میں کام کر رہے ہیں جو ڈھیرا دور پہلے کچھ نہ کچھ ہوا کرتا تھا۔
شکارپور میں ہونے والے یہ آپریشن جس نے ان افسران اور اہلکاروں کو زخمی کر دیا تھا، ابھی تک ان کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے وہ کبھی نہیں چکے ہیں۔
آج کے دور میں بھی پھر ایسا ہوا کہ وزیر داخلہ سندھ نے اس آپریشن میں شامل افسران اور اہلکاروں کو ضروری طبی سہولیات دے کر ان کی مدد کی اور ان کو یہ کہا کہ وہ ملک کی سب سے بہادری سے کام کرتے ہیں۔
اس نے ان کے ساتھ مل کر ایسے آپریشن میں شرکت کی جس نے انہیں زخمیوں سے بچایا ہو اور انہیں یہ بات بتائی کہ وہ پہلی ترجیح ہے کہ وہ ملک کی رہنمائی کریں، نہ کہ کسی سیاسی سرگرمی میں اپنی جان لے لو۔
مریت یا جھاڑی نہیں بننا اور ہر دوسرے کے لیے ایسا کرنا اس وقت کی عادت ہو گئی ہے، مگر ابھی تک بھی ان ایسی فٹپریٹ کرتے ہوئے ہیں جو پہلے سے کچھ نہ کچھ ہوا کرتی تھیں۔
یہ بہت اچھا دیکھنا ہے کہ شکارپور میں ڈاکؤں کے خلاف پولیس آپریشن سے ان کے لئے ایسا فرصت ملا جس کی کوئی بھی قیمتی چیز نہیں ہوتی. وہ افسران اور اہلکار ایک اعلیٰ نمبر پر تھے، اور انہوں نے اپنے آپ کو خطرے کے سامنے لگایا پھر بھی وہ باہمی محبت اور ترقی کی طرف بڑھے. اگرچہ یہ دیکھنا بھی اچھا ہے کہ ہندوستانی قوم کا سرمایہ نہ صرف ان افسران کو بڑھاتا ہے، بلکہ ملک کی سب سے بہادری کی طرف بھی ہے.
بھائے یہ ڈاکوؤں کا آپریشن کیا تھا، کس طرح تھا؟ پہلا انٹرویو اسپیشل جس سے میں پورے دن بھر بھی وکھ وکھ گھنٹوں میں اس پر بات کرتا رہا ہوں، اور اب تک اس پر یہی بات چلتے رہے ہیں میرے ذہن میں ایسا تھا ہی، کہ میرے دماغ سے اس نے میرے تمام ذہنی جگہوں پر چار چکروں میں لچک کر لی ہو۔
مگر واضح رہے کہ یہ آپریشن کیسے تھا، اور اس کی پوری تفصیل کس طرح ہوئی، یہ بتاتا ہے کہ میرے ملک میں کتنے لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جان کھل کر فوج کی بہادری سے دیکھ۔
اس وقت ڈاکوؤں کے خلاف پولیس آپریشن میں زخمی افسران اور اہلکار کی پالیسی انہیں بڑھا دے رہی ہے، جو اس وقت تک قائم نہیں ہوئی جب تک کہ انہوں نے اپنی پوری صلاحیت نہیں کھوئی؟ مگر یہاں پھر ایک بات کی ضرورت ہے کہ اس آپریشن میں بھی طاقت اور قانون کا استعمال کیا گیا ہو یا نہیں، کیونکہ اگر یہ صرف انفرادی جوشوں پر ہی مبنی ہے تو ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوا کرے گا، بلکہ اسے ایسا کروانا ہی ضروری ہوگا جس سے ایسے واقعات کی صورت میں بھی پابندی نہ ہون۔
کیا یہ بھی کچھ نہیں ہوا کے شکارپور آپریشن سے پہلے ہی اہم تاکید کر رہا تھا کہ جرائم پر جوکھا نہیں دینا، لیکن اب یہ دیکھتے ہوئے کہ ڈاکوؤں پر پولیس کی کامیابی پر اعزاز دیا گیا، تو کیا اب انہماہ کو بھی اچھا کہنا پڑ گا؟
یہ جو ہوا اس پر توجہ دے رہا ہوں اور پھر بھی ڈاکؤں کے خلاف پولیس آپریشن میں زخمی افسران اور اہلکاروں کی عیادت کرنے کا یہ جواب ہے جس پر وزیر داخلہ نے یہ کہا ہے انھیں پہلی ترجیح ہے ملک کی رہنمائی کی جائے نہ کہ کسی سیاسی سرگرمی میں اپنی جان لے لو۔
اس پر ایک سوچ میں آ گیا ہے کہ کیا یہ بھی سوشل مीडیا پر سب سے پہلے دیکھا جائے گا؟ اور فیلڈ اسٹرونمی کس طرح ایک پلیٹ فارم پر ہونے والی باتوں کو دیکھتے ہیں اور سوشل مीडیا پر ان کی رپورٹنگ کرتے ہیں؟
ابھی تو بھارت میں پکے علاقوں میں جرائم زائدہ رہتے ہیں اور پھر یہ جو ہوا اس پر ہی توجہ دیتا ہے کہ ملک کی بہادری سے کیا سائے آتا ہے؟
اس شکارپور مقابلے کا یہ جواب آتا ہے کہ پوری ایشین سندھ کو چیلنج کرنے والوں سے اچھی طرح سے لڑنا پڑے گا، لیکن اس کے باوجود یہاں کی پولیس نے بہادری سے لڑایا ہے، ایک بار پھر بھی ان کی پوری مدد اور مشاورت کو ملاحظہ کرنا پڑے گا
میں یہ رائے کرتا ہوں کہ شکارپور میں ڈاکؤں کے خلاف پولیس آپریشن نے انہماہ کو ایک اچھی تعلیم دے دی ہے۔ پھر بھی اس سے قبل یہ بات تھی کہ یہ رہا، لیکن اب وہ اپنی جان لگائیں تو سندھ بھی نہیں چھوٹی ہوتی۔
پولیس آپریشن میں زخمی افسران اور اہلکار تھے، انہیں ضروری طبی سہولیات فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی اور وہ ان کی پچھوں کو جانتے ہیں کہ وہ ملک کی سب سے بہادری سے سائے آتے ہیں، اور یہ بھی ٹھیک ہے کہ اس طرح کی بہادری سے انہیں ملک کی رہنمائی کی جائے۔
لیکن یہ بات کتنی پریشانی دیتی ہے کہ انہماہ شکارپور میں پولیس آپریشن نے کیا، اور اس سے بعد وہ کیا ہو گا۔ یہ بات کوئی پہلے بھی نہیں پوچھتی تھی۔
اب جب انہماہ اپنی جان لگائیں تو اس سے اب بھی کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ مجرموں کو قانون کی کٹرہ میں نہ لینا اور انہیں قائداعظم پولیس میڈل کی سفارشات بھی دینا ایک اچھی بات ہے۔
بہت مشaboں تھے اس آپریشن میں ، شکارپور میں ڈاکؤں کے خلاف پولیس کی کامیابی پر ضیاء الحسن لنجار نے اعزاز دیکھا ۔ ان افسروں اور اہلکاروں کو ملا کر یہ بات پتہ چلی کہ وہ ملک کے سب سے بہادری کے حامل ہیں ، وہ اس طرح کی بہادری سے سائے آتے ہیں۔
ایسے ماحول میں ان شکارپور سے واپس آنے والوں کو ٹھیک ہونے پر دیکھنا کتنی اچھی بات ہے! لاجروں نے اپنے دورۂ کے دوران ان افسان سے بات کی، جو اس قدر بہادری سے شہید ہوئے ہیں! یہ کھاتے تھے، فائرنگ کر رہے تھے اور جانیں گئے، پھر بھی ان کی دلدل نہیں ہوتی!
جیریموں کو قانون پر لانے کے لیے پوری ترجیح ہے، اور اس لئے اس کا جواب ایک سہارہ نتیجہ ہی ہوتا ہے! پھر بھی میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر کسی بھی شہید یا زخمی کو ٹیکسٹنگ یا ایم ایل کے ذریعے اپنی بات کی جائے تو وہ پوری دیر تک سزا نہیں کرتے!