بنگلہ دیش کی عدالت نے انسانیت کے خلاف جرائم کا مجرم قرار دیا ہے جو ساتھ ہی سزائے موت کی سزا دی گئی ہے۔ یہ فیصلہ 450 صفحات میں لکھ کر جاری کیا گیا تھا اور اس میں شہید بنے ہوئے لوگوں کے والدین اور ان کی ساتھیوں کے لیے بھی ایسے الزامات موجود تھے جو انسانیت کے خلاف ہیں۔
شہید بننے والے افراد کی تعداد 1400 تھی، جو جسٹس محمد غلام مرتضیٰ کی سربراہی میں چار رکنی ٹربیونل نے 3 سال سے قبل دائر کیا تھا اور اسے اب تک اپنے فیصلے پر عمل کرنے کا موقع ملا ہے۔
شہید بننے والی شخصیات کی جماعت عوامی لیگ نے یہ کہنا ہے کہ انہیں سزائے موت دینے پر مجرم قرار دیا گیا ہے اور بھارتی حکومت اس سے پہلے ان کی مدد کر رہی تھی جو مظاہروں کے دوران 1400 لوگوں کو مار دیا تھا، لیکن اب یہ فیصلے سے ملک میں تشدد کا امکانات ہر کس کے سامنے آتا ہے۔
شہید بننے والی جماعت کی صدر حسینہ واجد نے کہا ہے کہ ان پر یہ الزامات جھوٹے ہیں اور وہ اس فیصلے سے بے پرخاش ہیں، لیکن وہاں بھی ان کی لائہ دھرن کا وقت آ گیا ہے جس کے بعد وہ واپس بنگلہ دیش آئیں گی اور اپنی جماعت کے لیے کام کرنے پر توجہ دی گئی ہے۔
شہید بننے والی جماعت کی صدر نے کہا ہے کہ وہ اس وقت کے باوجود جس سے ملک میں تشدد آ رہا ہے اس سے آگے نہیں چلی گئی، لیکن وہ ایسا کہہ رہی ہیں جو ان کی جھوٹی فہم پر مبنی ہے۔
شہید بننے والی جماعت کی صدر نے کہا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو Allah نے عطا کیا تھا اور وہی اسے اپنا لے گئیے گی، وہ جس ساتھ مل کر کام کرنے والی عوام کی بھی وعدوں پوری کرنی چاہیے، مگر ان کی حقیقت کچھ اور ہے جو ان کو علم ہے اور اس کو اب تک محفوظ رکھتے رہے گئے ہیں۔
شہید بننے والی جماعت کی صدر نے کہا ہے کہ وہ اپنے والدین اور بہنوں کو اس عرصے میں بھی لے گئیں گی، جس ساتھ ان کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے، اور وہ اپنی جماعت کے لیے کچھ بھی نہیں بھونگی جو آج تک اس نے کیا تھا۔
شہید بننے والے افراد کی تعداد 1400 تھی، جو جسٹس محمد غلام مرتضیٰ کی سربراہی میں چار رکنی ٹربیونل نے 3 سال سے قبل دائر کیا تھا اور اسے اب تک اپنے فیصلے پر عمل کرنے کا موقع ملا ہے۔
شہید بننے والی شخصیات کی جماعت عوامی لیگ نے یہ کہنا ہے کہ انہیں سزائے موت دینے پر مجرم قرار دیا گیا ہے اور بھارتی حکومت اس سے پہلے ان کی مدد کر رہی تھی جو مظاہروں کے دوران 1400 لوگوں کو مار دیا تھا، لیکن اب یہ فیصلے سے ملک میں تشدد کا امکانات ہر کس کے سامنے آتا ہے۔
شہید بننے والی جماعت کی صدر حسینہ واجد نے کہا ہے کہ ان پر یہ الزامات جھوٹے ہیں اور وہ اس فیصلے سے بے پرخاش ہیں، لیکن وہاں بھی ان کی لائہ دھرن کا وقت آ گیا ہے جس کے بعد وہ واپس بنگلہ دیش آئیں گی اور اپنی جماعت کے لیے کام کرنے پر توجہ دی گئی ہے۔
شہید بننے والی جماعت کی صدر نے کہا ہے کہ وہ اس وقت کے باوجود جس سے ملک میں تشدد آ رہا ہے اس سے آگے نہیں چلی گئی، لیکن وہ ایسا کہہ رہی ہیں جو ان کی جھوٹی فہم پر مبنی ہے۔
شہید بننے والی جماعت کی صدر نے کہا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو Allah نے عطا کیا تھا اور وہی اسے اپنا لے گئیے گی، وہ جس ساتھ مل کر کام کرنے والی عوام کی بھی وعدوں پوری کرنی چاہیے، مگر ان کی حقیقت کچھ اور ہے جو ان کو علم ہے اور اس کو اب تک محفوظ رکھتے رہے گئے ہیں۔
شہید بننے والی جماعت کی صدر نے کہا ہے کہ وہ اپنے والدین اور بہنوں کو اس عرصے میں بھی لے گئیں گی، جس ساتھ ان کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے، اور وہ اپنی جماعت کے لیے کچھ بھی نہیں بھونگی جو آج تک اس نے کیا تھا۔