سابق وزیراعظم کے پاس اہم شخصیت پہنچ گئی

محفلِیار

Well-known member
چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس نے صبح شام سے ایورکیئر ہسپتال پہنچ کر بنگلہ دیش کی قیادہ حکومت کی چیئرپرسن اور سابق وزیر اعظم بیگم خالدہ ضیا کو معالج ٹیم سے ملنا شروع کیا۔

انہوں نے اپنی جگہ پر باہم پھیلتے ہوئے خالدہ ضیا کی بہن سیدہ شرمیلا رحمان، چھوٹے بھائی شمیم سکندر اور بی این پی کے سیکرٹری جنرل مرزا فخرالاسلام عالمگیر کو استقبال دیا۔

چیف ایڈوائزر تقریباً نصف گھنٹہ اسپتال میں موجود رہے، جس دوران انہوں نے خالدہ ضیا کے اہل خانہ اور پارٹی رہنماؤں سے صبر اور ہمت سے حالات کا سامنا کرنے کی اپیل کی۔

جس وقت انہوں نے خالدہ ضیا کو استقبال کرتے ہوئے ایک منظر چھوٹتا تھا، جب کہ اس کے علاج میں امریکا کے ماؤنٹ سینائی اور جانز ہاپکنز کے ماہرین اور برطانیہ اور چین اور دیگر ممالک کے اسپیشلسٹس اس کی نگرانی کر رہے تھے۔
 
یہ بڑا ہدایت عمل ہو گیا ہے کہ انہوں نے خالدہ ضیا کو استقبال کرتے ہوئے ایک لالچ پہنا کیوں ہوتا ہے؟ پھر بھی یہ سب اچھا ہے کہ اس وقت ماؤنٹ سینائی اور جانز ہاپکنز کے ماہرین ان کی نگرانی کر رہے ہیں، یا تو وہ اس پر دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ ایک نانسی سائنس کی فلم میں کیسے بنتی ہے؟
 
ایسے میں تو بڑی چیئرپرسن بننے کی نہایت آسانی ہو گئی ہے... اب یہ کہا جائے تھا کہ انہیں معالج ٹیم سے ملانا ہے تو بالکل تو ایک لمحہ بھی چاہتے تھے...

اس لیے کہ ایورکیئر ہسپتال پہنچ کر ان کی ہمت کی کوئی لہر نہیں آتی؟ تو اس میں بھی ہمت کی کوئی لہر نہیں آتی، جس کا مطلب ہے کسی نے انہیں استقبال کرنے کے لیے وقت دیا ہے...

اور اب یہ کہا جائے تھا کہ معالج ٹیم سے ملانا ایک منظر چھوٹتا ہے تو اس میں بھی کوئی دیکھتے نہیں...

لکین یہ صرف ایک منظر نہیں، یہ ان کی قیادت اور معاشرتی پوزیشن کا ایک حصہ ہے۔
 
اس مضمون سے ایک سیاسی بات چیت لگا سکتی ہے تو کیا یہ حکومت اور برطانوی حکام کے قریبی تعلقات کا ایک نئا مोडّہ ہے؟ پہلے کبھی بھی ایسا تصور نہیں آیا کہ امریکا اور برطانیہ ایورکیئر ہسپتال میں امریکی ماہرین کی مدد سے حکومت کو معالج کرائیں گے...اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اپنی حکومت سے بھگتے ہوئے ہیں بلکہ اچھی سے منصوبہ بندی کی گئی ہے...اس میں سیاسی معاملات کا ایک نئا لمحہ دیکھنے کو ملا ہے...
 
کیا یہ آپ کو لگتا ہیں کہ خالدہ ضیا کو معالج ٹیم سے ملنے کا یہ ماحول کیسے رہتا ہے؟ تو ہمیشہ اس بات پر چیٹھاتے رہتے ہیں کہ علاج کا راستہ بہت مشکل ہوتا ہے اور آپ کے علاج میں مہارت والے ماہرین کی مدد لینا ضروری ہے۔
 
ایورکیئر ہسپتال میں بنگلہ دیش کی چیئرپرسن بیگم خالدہ ضیا کا استقبال ہوا، اس کے بعد چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس نے معالج ٹیم سے انھیں ملا کر استحکام کی اپیل کی۔ یہ سب ایک بڑا معاملہ ہے جس میں دنیا کے عالمی ماہرین اور اسپیشلسٹس شامل تھے۔ اس ماحول میں جب چیف ایڈوائزر نے خالدہ ضیا کی بہن سیدہ شرما کو استقبال دیا تو یہ سب ایک لاکھ کے ساتھ تھا، جو کہ ہمیشہ ایسا ہی کرتے ہیں جب کسی بڑے معاملے پر ماحول کو ڈھانپنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
 
یہ سبچہ بہت دلچسپ ہے! چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس کو بنگلہ دیش کی قیادہ حکومت کے رکنوں سے ملنا اور ان کی جگہ پر استقبال کرنا، یہ سب ایک نئا مोडّ ہے! 🤔

لوگ اس بات پر تبصرہ دیتے ہیں کہ چیف ایڈوائزر اپنی جگہ پر خالدہ ضیا کی بہن اور بی این پی کے سیکرٹری جنرل کو استقبال دیا، یہ سب ایک گہرا پھیلاؤ ہے! 🤝

دیکھیں تو اب ان کے پارٹی رہنماؤں اور اہل خانہ کی تعداد میں تبدیلی ہونے لگی ہے، یہ سب ایک نئا ماحول بن رہا ہے! 🌈

ایسے تو اس بات پر تبصرہ کیا جا سکتا ہے کہ چیف ایڈوائزر کی یہ کوشش کچھ کامیاب نہیں ہوئی، کیونکہ وہ اپنے پارٹی رہنماؤں اور اہل خانہ سے ملنے میں ناکام رہے! 😐

اس بات کا کوئی فیس بھی نہیں، جو کہ اس وقت کی حکومت کی سیاسی سٹرائیکس کا تعلق رکھتی ہے! 🤷‍♂️
 
ایک حیرت انگیز منظر دیکھنے کو ملا! چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس نے صبح شام میں ہسپتال پہنچ کر خالدہ ضیا کی حکومت کے ساتھ بات چیت کی، لاکھوں لوگوں کو یہ جاننے والا تھا کہ وہ ایک کتنی عجیب بات کرتے ہیں... اس میں بھی انہوں نے ہسپتال سے باہر اپنے تعاون کرنے والوں کو بھی استقبال دیا، ایک جگہ جہاں آپ کو کچھ Hope Milna Chahiye! 🤗
 
بڑی بڑی چیئرمین بیگم خالدہ ضیا کو شام کو ایورکیئر ہسپتال لے جائے کا کچھ انہوں نے سنا ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ وہ دیکھی بھی نہیں چکی ہے کیونکہ اپنی جگہ پر باہم پھیلتے ہوئے انہیں استقبال دیا گیا تھا! 😂🤣

انہوں نے کیا چکا ہے وہ دیکھنا نہیں پئے?! انہوں نے اپنی جگہ پر باہم پھیلتے ہوئے اسے استقبال دیا تو کیا وہ کھانے کے لئے بھی اٹھیں گے?! 😂

کبھی یہ دیکھنا نہیں پئے کہ ایسے منظر ہو سکتے ہیں! ان کے بارے میں لگتا ہے کہ وہ اپنی جگہ پر بھاگ کر ہی نہیں رہتے! 😂👀
 
یہ تو ایک بڑا قدم! چیف ایڈوائسر پی ایس محمد یونس نے اپنے دور میں اتنا ہی بھاروسا کیا ہوتا تو حالات بہت بدل جاتے. اب یہ دیکھا گیا کہ وہ اچھی طرح فوری کپڑے کھینچ کر اور پہلو پر باہم پھیلتے ہوئے خالدہ ضیا کی پہنچی ہی نے انہیں معالج ٹیم سے ملنے کا موقع دیا. یہ بھی ایک اچھی نشاندہی ہے کہ وہ اس وقت اپنی جگہ پر پہلے ہی بھرپور استقبال کرتے ہوئے ایسے لوگوں کو ملا رہے ہیں جو اس دौर میں سب سے زیادہ تہوار ہیں.
 
اس طرح ایورکیئر ہسپتال میں خالدہ ضیا کو لے جانے کا یہ کارروائی بہت متحرک دکھائی دی . انہوں نے جب چیئرپرسن اور وزیر اعظم کی بیٹی کے اہل خانہ کو استقبال دیا تو وہاں کے لوگوں کی دیکھ بھال ہوا . اس پر مشاورت کرتے ہوئے انہوں نے چیئرپرسن اور وزیر اعظم کو معالج ٹیم سے ملانا شروع کر دیا اور اس پریشانی میں ہمیشہ سے لڑ رہے لوگوں کی مدد کرتے ہوئے ان کے ساتھ بھی گزشتہ حال کی بات چیت کی .

اس میں انہوں نے معالج ٹیم اور صحت پر فخر کے ساتھ موقف لینے کی قوت بھی پکی ہوئی ہے۔
 
یہ واضح ہے کہ بنگلہ دیش کی سرکاری ایوی ایشن کو اپنی قیادہ حکومت کی چیئرپرسن اور سابق وزیر اعظم کی اس وقت کی صورت حال کو جسمانی طور پر کیسے منظر میں لانا پڑ سکتا ہے؟ یہ سب ایک گھمنڈاز کا ماجہ ہی نہیں بلکہ ایک انشقاق کی تاریخ ہوگی
 
اس بڑی نئی تحول کا امکان ہے کہ چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس کی ایسی کارروائیوں سے پاکستان کی معاشیات میں ایک نئا رواج پیدا ہوگا جس سے ملک کو بھی فوائد ہوگا... لکیں کچھ کام انٹرنیشنل اور مقامی ماہرین کی ایسی تجویز پر مبنی ہوئی ہے جو امریکا، برطانیہ اور چین میں بھی مقبول ہوگئی ہے۔
 
یہ ان شائکہ جیسا لگ رہا ہے کہ قائد اعظم کے بعد بھی وہی پیار اور احترام جو ڈاکٹر قادری سے ہوتا تھا اب خالدہ ضیا کی جانب بھی اس طرح سے لگ رہا ہے۔ ان کے جانے پھrane سے یہ بتانا مشکل ہو گا کہ وہ آج کو کس معاملے میں اپنے وقت بہت اچھی طرح سے لگا رہے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی واضح ہے کہ ان کی قیادت کی وجہ سے ایسے معاملات میں بھی Hope بڑی جگہ پائی گئی ہو گی۔
 
اس وقت کتنی بات نہیں بلوچ ہوتا کہ جس شخص کو ہسپتال لے جانے کے بعد اس کی علاج کے لیے معالج ٹیم سے ملاقات کرنے کا موقع مिलतا ہے وہیں کچھ لوگ اپنی جگہ لے لیتے ہیں اور اس طرح ملاپ کی بات شروع کرتی ہیں... ملاپ کیا کرتے ہیں تو اس میں ایک نئی بات بھی شامل ہوتی ہے...
 
مرے دوسرے بچوں کی طرح میں بھی یہ سوچتا ہوں کہ چیف ایڈوائسر پروفیسر محمد یونس نے اچھا فیصلہ لیا ہے، انہیں لگتا ہوگا کہ یہ بنگلہ دیش کی قیادہ حکومت کی چیئرپرسن اور سابق وزیر اعظم بیگم خالدہ ضیا کو معالج ٹیم سے ملنا، اسکے علاج میں یہ بات ہمیں دلچسپی دیتی ہے کہ ان کی جانچ کر کے کیا جائے گا اور ان کی چیئرپرسن شپ کے دوران اس پر کوئی خاص توجہ دی جائیگی یا نہیں۔
 
عجیب بات یہ ہے کے ایورکیئر ہسپتال میں انساف کا جہاں ہی وہ چلا گیا، وہاں کوئی بھی شخص نہ پوچھے جیسے ان کا علاج کون کریں گے؟ مگر اب یہ بات تو صاف نکل آئی ہے کے اس پر ایک معالج ٹیم نہیں لائی گئی ۔
 
یہ گروپ نچنے والا ایسا ہے جو میں نے تو یقین سے دیکھا ہے اور اب اس کا پلیٹو نہیں لگاتا… چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس اور بنگلہ دیش کی قیادہ حکومت کی چیئرپرسن بیگم خالدہ ضیا … آج خالدہ ضیا کو ایورکیئر ہسپتال میں لے جانا اور اس کے بعد وہ ان معالج ٹیم سے ملنا… یہ تو ایک ناجائز کھیل ہے… لگتا ہے چیف ایڈوائزر کو بھی خالدہ ضیا جیسا استقبال کرنے کی ضرورت تھی… 😂
 
یہ بات کچھ منسلک ہے کہ بنگلہ دیش کا قائد اعظم جے ایس اور ہمیشہ چیلنجز لینے والی حکومت کی ان کے معاملات سے کسی طرح تعلقات نہیں رکھتے ہوں۔

چیف ایڈوائزر کا یہ کامیاب استقبال بھی یہ بات کو تصدیق کرتا ہے کہ وہی سہولتوں اور ایسٹیبلشمنٹ کی پالیسیاں اچھی نہیں لگ رہی ہیں، جیسا کہ انہوں نے اپنے آپ کو ایورکیئر ہسپتال میں دیکھایا ہے۔

جب تک اہل خانہ اور پارٹی رہنماؤں نے اسٹریچز کی واضح بات کی نہیں کہی، تو اس معاملے میں ان کی موثر ہدایت ہو سکی ہی نہیں۔
 
عمرِ صبح شام کو بنگلہ دیشی خاتونوں میں ایک نئی صورتحال سامنے آئی ہے، جس کا مقصد پریشان خاتون بیگم ضیا کی سونے کا زمانہ ہوا لینا ہے اور اس کو نجات دلانا ہے۔

اس وقت یہ بات کبھی سوچنی چاہئیے کہ ایک شخص کی معالجگی میں ان کی قربانی کیسے آئے گی، اور اس کی ناقابل تسخیر زندگی کو کس علاج سے سونے والا بنایا جا سکتا ہے؟

میں سمجھتا ہوں کہ ہم سب ان خواتین کی محبت اور کوشش کی نمائندگی کریں جو اب وہی پہچانتے ہیں اور اس کے لیے اپنا جانی شہد کھانے والے ہیں، اور انہیں ایک نئی زندگی دیں۔
 
واپس
Top