سابق وزیراعظم سے بڑی شخصیات کی ملاقات

استاد

Well-known member
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر ڈاکٹر شفیق الرحمان نے بی این پی کی چیئرپرسن اور سابق وزیراعظم بیگم خالدہ ضیا کی عیادت کی، جنہوں نے ڈھاکا کے ایور کیئر ہسپتال میں زیر علاج تھے۔

انہوں نے ان کے جاری علاج اور مجموعی صحت کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور اس مشکل وقت میں ان کے اہلِ خانہ کے لیے صبر اور ہمت کی دعا کی۔

ڈاکٹر شفیق الرحمان نے اپنی بیماری کے باوجود ثابت قدم رکھنے کی بڑی قدر کا اظہار کرتے ہوئے کہہ دیا، "چونکہ وہ اپنی بیماری کے باوجود ثابت قدم ہیں، اس لیے ہم پُرامید ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ وہ جلد صحت یاب ہوں"۔

انہوں نے بیگم خالدہ ضیا کی فوری اور مکمل صحت یابی کے لیے دل سے دعائیں کیں اور ہسپتال کے احاطے میں ایسی بھیڑ نہ لگاں جس کی نظم و ضبط کو متاثر کرے یا کسی کے لیے تکلیف کا باعث بنے۔ بلکہ انہوں نے درخواست کی کہ سب لوگ بیگم خالدہ ضیا کی صحت اور خیریت کے لیے دعا جاری رکھیں۔
 
بغیر کوئی بدلाव ہو کر ہونے والے اس ماحول میں بھی ہمیں دیکھنا ہوتا ہے کہ چنگیز خان سے لے کر اس وقت تک کی سیاسی سرگرمیوں میں ایسی باتوں کو سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے جو پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان فاصلے پر ہی نہیں بلکہ اس وقت تک پہنچ جاتی ہیں جب تک کہ وہ سیاسی سرگرمیاں خود سے جوڑ لیں اور لوگوں کی حقیقی ضروریات کو سمجھ کر اپنا مقصد بنائیں تو صرف ایسا ہی ہو سکتا ہے جیسا کہ بیگم خالدہ ضیا کی صحت یابی کے لیے ایسی بھرپور تحریک شروع ہوئی ہے ، ہمیں لگتا ہے انھوں نے اپنی سیاسی سرگرمیوں سے تھک گئے اور اب صرف ایسا ہی چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کی عوام کے لیے کچھ فائدہ ہو جو لوگ ان سے مل کر ہمیں اس فائدے کی پوری وضاحت بتائیں تو ضرور کریں ، اب یہاں ایک اور بات نہیں کہنا چاہیں گی اور وہ بات بھی نہیں ہوگی کیونکہ اس وقت کے معاشی اور سیاسی حالات سے لوگ ایسی تحریک شروع کرنے میں کوئی ٹھیک نہیں کرتا ہے اور یہاں بھی وہی بات کی جا سکتی ہے جو کہ ماضی میں راز تھی اور اب یہاں بھی راز یہیں رہتا ہے
 
چلے دیئے، اس خبر کو دیکھتے ہوئے میں سوچتا ہوں کہ بیگم خالدہ ضیا کی صحت یاب ہونے کا یہی نتیجہ ہے ، انہیں ایک برس سے ایور کیئر ہسپتال میں رہے تھے اور اب وہ صحت یاب ہو گئیں تو یہی بہت Good ہے لیکن میں اس سوال پر فیکٹچر کر رہا ہوں کہ ان کی صحت یاب ہونے کے بعد وہ کیا کریں گئیں؟
 
عیداللہ ڈاکٹر شفیق الرحمان کو بیگم خالدہ ضیا کی فوری اور مکمل صحت یابی کے لیے دعائیں کرنے پر بہت خوش ہوں! ان کی ایسے کردار نے مجھے بہت متاثر کیا ہے، جس سے ہم سب کو اپنی صحت اور خیریت کے لیے دعا کرنے پر مجبور کیا گیا ہے.

اس وقت کی سیاست میں سبق ہے کہ معاشرے میں کتنے لوگ اچھائی اور صحت کو دیکھتے ہیں، ان کو مفتانہ سے نازناہ بنایا جائے گا.

دولت کی جانب سے فوری اور مکمل صحت یابی کے لیے اسے سراپے پر معزز کہا جا سکتا ہے.
 
اس وقت بھی ہوتی رہتی ہے کہ پہلے لوگ بیٹھتے ہیں اور بعد میں اچھا لگتا ہے، لیکن ڈاکٹر شفیق الرحمان کی طاقت بھی ایسے نہیں ہوتی جو اس وقت سے پہلے کے مقابلے میں سب کو اپنی جگہ پر بیٹھانے اور ہارنے کا موقع نہیں دیں گے۔
 
بیگم خالدہ ضیا کو ہسپتال میں رہنے کی اجازت ملنی چاہئے تاکہ ان کے اہل خانہ ساتھ ان کی فرائض کرتے رہ سکیں... 😐
 
بھائی اگر بیگم خالدہ ضیا کی صحت یاب ہوجائے تو ایسا ہیہو گا اور اس میں اس کی فوری و مکمل صحت کے لیے ہمیں اچھے دلوؤں کی ضرورت ہے، پھر بھی ان کے جاری علاج کو دیکھتے ہوئے ایک بات بالکل سہی نہیں ہوسکتی وہ اپنی بیماری کے باوجود ثابت قدم رکھنے کی بڑی قدر کا اظہار کررہے ہیں اور ہم سب کو اس کی صحت کے لیے دعائیں کرنا ہوگی۔
 
اس وقت کی ٹیکنالوجی پر یہ رواج ہو گیا ہے کہ ہر گروپ نے اپنی اپنی نئی فیکٹری اور ہسٹوری بھیڑ دی ہے... لاکھ لاکھ پیسے کے باوجود یہ کیے بغیر کسی کو فائدہ نہیں ہو سکتا ... دیکھو اور بیگم خالدہ ضیا بھی ایسی ہی فیکٹری بنائی، اس میں کیسے پابندیں لانے کی ضرورت ہوئی؟ کیا ان کی صحت کا اہل خانہ ان فیکٹریز سے ہمدردی محسوس کرے گا؟
 
بھائی، ایسا لگتا ہے کہ بیگم خالدہ ضیا کا حال بہت خراب ہو گیا ہے اور اس کی صحت سے جڑی سب کوششوں کو ان پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ ایور کیئر ہسپتال میں ان کے لیے بھیڑ نہ اٹھنی چاہیے۔

اس وقت جب بھی ہمارے سامنے کوئی مشکل آنے پر پہنا ہوتا ہے تو دوسروں کی مدد سے یہ problem حل کر لیا جا سکتا ہے۔

ہم پوری دنیا میں ان کے لیے دعائیں کر رہے ہیں اور اس صورتحال سے نکلنے کی امید رکھتے ہیں۔
 
میں سمجھتا ہوں کہ یہ گھنٹیاں ایسے وقت میں گزرتے ہیں جب ہم اپنی دuniya کی چیلنجز کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں اور صحت یابی نہ ہونے پر ہمارا دل ٹوٹتا جاتا ہے...

ایسے وقت بھی ہوتے ہیں جب ہم اپنے ملک کے رہنماؤں کو سونپ رہے ہوتے ہیں، اور ان کے صحت مند ہोनے کی کوشش میں دل سے دعائیں دیتے ہوتے ہیں... لیکن اس بات کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ صحت اور ناکامہ دونوں ایسی چیزہیں ہیں جیسے ہم ان پر اپنی یقین کا بھار دیتے ہوتے ہیں۔
 
🙏 یے بات تو واضح ہے کہ بیگم خالدہ ضیا کی صحت میں بہت سارے لوگ دل جوڑے ہیں اور ان کی صحت کی دعا کر رہے ہیں، یہ تو کچھ نئی چيز نہیں ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ ان کی صحت پر دباؤ بھی پڑنے لگا ہے جو کہ فوری اور ٹھیک صورتحال نہیں ہوسکتی ہے۔
 
بے شکرت سے انہوں نے بیگم خaldہ ضیا کی تناپ ہوا دیکھی اور ان کے اہل خانہ کو بھی اس مشکل وقت میں توسیع کا موقع دیا 🙏 ان کی صحت یاب ہونے پر ہمیں بھی توسیع ملے گی اور ہم ان کے لیے ایک نئی پہلی دیکھیں گے ❤️
 
بھائی یہ واضح ہو گا کہ بیگم خالدہ ضیا کو پچیس دہائی سے لاحق بیماری کا سامنا کر رہی ہیں، لیکن وہ ایسے ساتھ دیتی ہیں جو نہ صرف ملک کی سVP کی بڑی شخصیات ہیں بلکہ دنیا بھر میں اپنے احترام اور سمجھ کو لائیں ہیں۔

اس وقت ان کی صحت کے بارے میں کسی بھی شخص سے بات کرنا ایسا ہوتا ہے جیسے اس پر فخر ہو۔

انہوں نے اپنے بیماری کے باوجود پوری دنیا کے سامنے بھرپور چہل کھیل رکھی ہیں اور اب وہیں ان کی صحت کو خرطہ دینے میں معاون ہوتے ہوئے یہ دیکھنا جراتور ہے کہ بیگم خالدہ ضیا نے اپنے سامعین سے محبت اور احترام کی دعا کی ہیں۔
 
"تازہ ہونے والے حالات میں سلوचन اور دباؤ سے بچنا مشکل ہو سکتا ہے، لیکن ایسے وقت میں کہتے ہیں "۔
 
اس وقت تو بھرپور حالات میں بیگم خالدہ ضیا ہسپتال میںospital میں دھکیل دی گئی ہیں اور ان کی صحت کے بارے میں تمام لوگ پروار ہو رہے ہیں … اور ایسا لگتا ہے کہ یہ بھی ایک نئی عادت بن گیا ہے کہ جب کोई شخص بیمار ہونے کے بعد ہسپتال کے اور ان کی زندگی میں دھلان ڈالتے ہیں تو تمام دنیا اس شخص کی صحت اور خیریت کے لیے پروار پھیل جاتی ہے … آج بھی ایسا ہی رول پر بیگم خالدہ ضیا ہیں …
 
امید ہے کہ بیگم خالدہ ضیا جلد بہتر ہو گئیں، ان کی صحت اور خیریت کے لیے سب کا دھنہ ہو رہا ہے. اس دور پر ہسپتال میں بھرتی ہونے کے باوجود بھی پوری امانت سے کام کر رہے ہیں. دوسری طرف یہ تو واضح ہے کہ ان کی صحت یابی کی پوری دیکھ بھال ہسپتال کے سربراہوں اور اس وقت تک کے طبی کارروائیوں سے ہوتی ہے.
 
بنگلہ دیش کی امیر شخصیات بھی ایسے ہیں جو چھپے میٹھے کام کو بھی کرتے ہیں۔ انھوں نے بیگم خالدہ ضیا کی صحت کے بارے میں کچھ دیر پہلے تو کہا تھا اور اب وہ کچھ اور کہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے بنگلہ دیش میں ایسی صورتحال پڑتی رہتی ہے جہاں سب لوگ ایک دوسرے کی صحت کے بارے میں بات کرنا نہیں چاہتے بلکہ انھوں نے ڈھاکا کے ایور کیئر ہسپتال میں بیگم خالدہ ضیا کو بھی لینا شروع کر دیا ہے۔
 
بغداد میں رہتے ہوئے تو یہ جاننے کے لئے بھارتیوں کو کیا کروڈا؟ انھوں نے ایک بھیڑ میں بیگم خالدہ ضیا کی صحت کے لیے دعا کرنی چاہیں تو اس میں بھی ہندوستانیوں کو شامل ہونا پڑے گا؟ نہیں تو یہ ایک پاکستانی ماحول میں ہوتا ہے اور ہندوستانیوں کو اس میں شرکت کرنا بھرپور غیرعادی کے ساتھ ساتھ مسلم معاشرے کے حوالے کر دیا جائے گا؟
 
واپس
Top