سابق وزیراعظم کی حالت تشویشناک وینٹی لیٹر پر منتقل کر دیاگیا

مگرمچھ

Well-known member
بنگلہ دیش کی قومی پارٹی کی چیئرپرسن اور سابق وزیر اعظم بیگم خالدہ ضیاء کی حالات ایک تشویشناک صورتِ حال میں پھنس گئی ہیں۔ ان کا حال وینٹی لیٹر پر منتقل کر دیا گیا ہے جس سے ان کی حالت مزید نازک ہوگئی ہے۔

انہوں نے ایک سی سی یو سے آئی سی یو منتقل کیا تھا، پھر وینٹی لیٹر پر رکھ دیا گیا تھا۔ اس نئے ادارے میں ان کی صحت کو بہت کمزور پایا گیا ہے جو ان کے حالات کو مزید خراب کر رہی ہے۔

بیگم خالدہ ضیاء کے بیٹے طارق رحمٰن، جو خود سوز جلاوطن تھے اور اب ان کی وطن واپسی کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، حالات کا ایک بے پناہ مظاہرہ بن رہے ہیں۔

انھوں نے سوشل میڈیا پر ایک پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ "وطن واپس آنا میرے اختیار میں نہیں، میرے لیے یہ صرف اس کی نوبت ہے جو اس پر ہے"۔

ان کی ممکنہ واپسی پر سیاسی و قانونی رکاوٹوں کے سوال اٹھنے لگے ہیں جبکہ عبوری حکومت نے کہا کہ ان کی واپسی پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

لیکن عملی وزیرِ خارجہ توحید حسین نے بتایا کہ اگر طارق رحمٰن وطن واپس آنا چاہیں تو ایک دن کے اندر ان کے لیے ٹریول پاس جاری کر دیا جائے گا۔
 
یہ خبر تھی جس سے آپ سب کھینچ آئے ہاتھ رہے اور اب بھی ہم اس پر نظر رکھ رہے ہیں کہ وہ کیسے چلے گا؟ بیگم خالدہ ضیا کی حالات انتہائی problematic ہو گئی ہیں اور اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے لیے کوئی سہارا نہیں ہے بلکہ ایسا لگ رہا ہے کہ وہ اس سے نکلنے کی کोशिश کر رہے ہیں۔

ان کا بیٹا طارق رحمٰن اب وطن واپسی کے لیے منصوبہ بنانے والا ہے اور اس کے لیے حالات مزید خراب ہو رہے ہیں۔ یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے مظاہرے سے ان کے حالات کو بھی تیز کر رہے ہیں اور اب اس پر ہمیں اس کی موقف کا پورے ملک میں منظر پیش کرنا ہو گا۔
 
بیگم خالدہ ضیاء کی حالات ایک انتہائی Problematic situation میں پھنس گئی ہیں! وہی سی سی یو سے آئی سی یو منتقل کر گئی تھیں، اور اب وینٹی لیٹر پر رکھ دی گئی ہیں! یہ بہت Weak and Vulnerable لگ رہا ہے... کیا ان کی حالت کو بہتر بنایا جائے گا؟

جلاوطن طارق رحمٰن کی وطن واپسی کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور اب حالات کا ایک Bizarre مظاہرہ بن رہا ہے! وہ سوشل میڈیا پر پیغام جاری کر رہے ہیں کہ "وطن واپس آنا میرے اختیار میں نہیں" - یہ تو ایک Powerful Statement ہے!

لیکن Politics and Law and Order کو دیکھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ وہ کیوں نہیں ہوتیں? کیوں نہیں ہوتا? یہ ساری Questions and Answers کے ساتھ Full of Controversy میں پھنس گئی ہیں!
 
بھانے بھانا یہ بات کہنے کے لئے بڑی اچھی ہے کہ طارق رحمٰن کو وطن واپس آنا چاہیے، لیکن توحید حسین نے اس کی واپسی پر ایک دن کے اندر ٹریول پاس جاری کر دينا ہوگا؟ یہ سے پتھرا کا رستہ ہوا ہوگا؟ انھیں نہیں پوچھنا چاہیے کی واپسی پر کس طرح کے قواعد اور پابندیاں لگی ہوئی ہیں؟
 
😕 بھی دیکھیں کیوں ہمت نہیں رکھ سکتے ان سے؟ بیگم خالدہ ضیاء کا حال تھوڑا سا بھی چھٹکنا تو اتنا بھارپور مظاہرہ بن گیا ہے کہ اب وہ سب کو دیکھ کر ہمت ہार جاتے ہیں۔ پہلے ان کی صحت یہاں تک بھی نچلی تھی، اور اب تو وہ ایک سوجھنے والے گھڑی میں چھپے ہوئے ہیں۔

ان کے بیٹے طارق رحمٰن کو وہی ماحolerہ مل رہا ہے جو اپنے والد کی ایسائی ہوتے دیکھتے تھے، یہ کہ ان کے ساتھ سیاسی و قانونی رکاوٹیں نہیں، بلکہ ان پر آپسی کا زور ہو رہا ہے۔
 
ایسا بات کو سمجھنا ہی ہوتا ہے کہ حالات کسی شخص کے جتنا خراب اور کمزور ہو جائیں وٹھلے کی طرف بڑھ جائیں۔ بیگم خالدہ ضیاء کی حالات ایسے ہی ہوئی ہیں، جن کا کوئی حل نہیں ہے اور وہ ان کے اسCritical سٹیٹ میں محو غم گم ہو گئی ہیں۔

سوشل میڈیا پر ایک پیغام جاری کرنے سے پہلے، طارق رحمٰن کی ایسی عادت نہیں تھی کہ وہ ہمیشہ لوگوں کو اپنی حقیقت سے آگاہ کرتے۔ لیکن اب وہ اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ان کی وطن واپسی ایک ضروری بات ہو گی، اور وہ ہمیں اس سے آگاہ کرنے میں تھक رہے ہیں۔

حالانچے کتنی زیادہ زبردست بات ہو گی، یہی نہیں، حقیقت کیسے بدل جائے گا؟ طارق رحمٰن کی وطن واپسی پر پابندیاں تو اٹھائی جاسکتی ہیں، لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کہ اسے کرنے کی کوئی صلاحیت مل جائے گی۔

ایسے میڈیا رپورٹس جاری کرنا بھی ایک بات ہے، جس میں لوگوں کا جذبہ اور دلچسپی پیدا ہوتی ہے۔ لیکن اس سے پہلے، طارق رحمٰن کو ان حالات کی وصولی کے بارے میں صراحت کیا جانا چاہیے، جس سے لوگوں کو یہ سمجھنا ہو سکتا ہے کہ وہ اس کے لیے کیسے مدد فراہم کر سکتے ہیں۔
 
اس سے پہلے طارق رحمٰن کی وطن واپسی پر سیاسی رکاوٹوں کی بات کرنا تھوڑی اچھی نہیں لگتی... کیا اس صورتِ حال میں کوئی سیکورٹی میثود نہیں ہے؟ میرا خیال ہے کہ وطن واپس آنے والے لوگوں کے لیے پہلے سے ہی کوئی ایسی پریشان کن صورتحال نہیں بنائی جا سکتی
 
اس دھارہ دار صورتحال پر توجہ دینے والوں کو یہ بات نہیں پٹنی چاہئیں کہ بنگلہ دیش میں سیاسی مظاہروں کی تاریخ سے پہلے ہی بھی انسداد وطن گھشتاسگی کے اقدامات کیا جاتے تھے۔
ہم کو یہ بات نہیں پٹنی چاہئیں کہ ادارہ داری سے پرہیز کرکے وکالت اور مدد کا راستہ اختیار کیاجائے۔
 
ایسا لگتا ہے کہ بنگلہ دیش کی سیاست میں ابھی بھی کچھ نئے خاتمے کی ضرورت ہیں۔ چیئرپرسن اور سابق وزیر اعظم بیگم خالدہ ضیاء کی حالات اس وقت ایک تیزاب کا شکار ہو گئی ہیں جب وہ وینٹی لیٹر پر منتقل کر دی گئیں، نہ صرف اس سے ان کی صحت کو مزید نقصان پہنچا، بلکہ ان کے بیٹے طارق رحمٰن کی وطن واپسی کی منصوبہ بندی پر بھی یہ صورت حال ایک بڑا دباؤ پڑ گئی ہے۔

ایسے سہمنہ نہیں لگ رہا کہ ہمیں ان کی واپسی پر تھوڑی چینی بھرنا پائی جائے، حالانکہ عبوری حکومت کے اس بات کا اعلان بھی کیا گیا ہے کہ کوئی پابندی نہیں ہے۔ لیکن یہ توحید حسین نے ہی ایسا کیا کہ اگر طارق رحمٰن وطن واپس آنا چاہیں تو ان کو ٹریول پاس جاری کر دیا جائے گا، یہ بھی ایک ہی سیرے میں آتا ہے، کیا انہیں ناہینہ دیکھنے کو ہی پکر رہا ہے؟
 
بھالے یہاں کی حکومت کو اچھی طرح پوری پٹی اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ بیگم خالدہ ضیاء کی حالات تو ایسے ہیں کہ ان کے خلاف یہ ہار سے بھی واضح ہو رہی ہیں۔

ایک بار پھر، انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ ایک کیمپوں میں ہی رہتی ہیں، نا ہی داؤں سے بھی ان کی جان بچائی جاسکتی ہے تو کیا اس کی واپسی پر کوئی پابندی ہو سکتی ہے؟

لیکن یہی بات یہاں کے سیاستدانوں کو لگنے سے بھی نہیں چلتी، تو ان کے اُتروں پر بھرپور تاریک ہوتا رہتا ہے۔
 
واپس
Top