سالوں تک سونا سمجھ کر سنبھال کر رکھنے والا پتھر اس سے کہیں زیادہ قیمتی نکلا

چھپکلی

Well-known member
آسٹریلیا میں ایک شخص نے جس پتھر کو سالوں تک سونے کا ٹکڑا سمجھ کر گھر میں رکھا، وہ اس سے بھی زیادہ قیمتی نایاب شہابِ ثاقب نکلا۔

آسٹریلیائی شہری ڈیوڈ ہول میلبرن کے قریب میری بَرو ریجنل پارک میں دھات کی تلاش میں گھوم رہے تھے، جب ان کے میٹل ڈیٹکٹر نے ایک غیر معمولی اشارہ دیا۔ انہیں پیلے مٹیلے حصوں میں ایک سرخی مائل اور بہت زیادہ وزنی پتھر ملا۔

جب ڈیوڈ ہول نے اس پتھر کو گھر لاکر مختلف طریقوں سے توڑنے کی کوشش کی، اور یہاں تک کہ تیزاب میں بھی بھگو کر دیکھا مگر اس میں معمولی دراڑ نہ پڑی، تو پتا چلا کہ وہ سونے کا ٹکڑا نہیں بلکہ اصل شہابِ ثاقب ہے۔

پتھر کی عجیب ساخت انہیں حیران رکھا، لہٰذا وہ اسے میلبرن میوزیم لے گئے، جہاں ماہر ارضیات نے تصدیق کی کہ یہ شہابِ ثاقب ہے۔

میوزیم کے ماہر ڈرموٹ ہنری کے مطابق اس پتھر پر مخصوص نشانات تھے جو اسی وقت بنتے ہیں جب شہابِ ثاقب فضائی رگڑ سے پگھلتے ہوئے زمین کے ماحول سے گزرتے ہیں۔

ہنری نے مزید بتایا کہ اپنے 37 سالہ کیریئر میں ہزاروں پتھر دیکھنے کے باوجود صرف دو ہی اصلی شہابِ ثاقب نکلے اور یہ ان میں سے ایک تھا۔

اس پر تحقیقاتی مقالہ شائع کیا گیا اور اسے دریافت کی جگہ کے نام پر ’’میری بَرو‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس شہاب ثاقب کا وزن 17 کلوگرام ہے جس کی عمر 4.6 ارب سال بتائی گئی ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ خلا کے بارے میں سب سے سستی سائنسی تحقیق ہیں، جسے سورج، سیاروں اور ہمارے نظام شمسی کی ابتدا تک لے جاتے ہیں۔

کچھ شہابِ ثاقب میں ایسے سالمے بھی پائے جاتے ہیں جو زندگی کی بنیاد بن سکتے ہیں، جیسے امینو ایسڈز۔

اس شہابِ ثاقب کی عمر 100 سے 1000 سال پہلے زمین پر گرا جب کہ 1889 سے 1951 کے درمیان آسٹریلیا میں کئی شہاب گرنے کی رپورٹس ملی تھیں اور ان میں سے کوئی بھی اس کا ممکنہ ذریعہ ہوسکتا ہے۔

تحقیقی ٹیم کے مطابق یہ شہابِ ثاقب غالباً مریخ اور مشتری کے درمیان ایسٹرائڈ بیلٹ سے آیا ہوگا، جہاں ٹکڑوں کے باہمی تصادم کے بعد یہ زمین کی جانب Movement کرگیا۔

یہ پتھر انتہائی نایاب ہے کیونکہ ریاست وکٹوریہ میں اب تک 17 شہابِ ثاقب ملے ہیں جبکہ ہزاروں سونے کے ٹکڑے مل چکے ہیں۔ اسی لیے ماہرین کے مطابق یہ دریافت سائنس کے لیے سونے سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔
 
اس نئے شہاب ثاقب کی تلاش میں دھات کی تلاش کر رہے تھوڈا بھی کچھ کیا پکٹا ہے؟ آسٹریلیا کی یہ جانشین قوم نے اس نئے شہاب ثاقب کو اپنی ملکیت کہا کروا دیا ہے، ایسے میں وہ کتنا سارے لوگ دھات کی تلاش کر رہے تھوڈے بھی نئے شہاب ثاقب کو لاتھے ہیں؟
 
میں اس Discoveri Shahaab-e-Thaqab ko sambhuta aur bahut acha laga 🤩 . Maine socha tha ki yeh sirf ek jahaj mein pata lagay gaya hai, lekin yeh pata lagana ki yeh shahaab e thaagab ek purani star par se nikaala gaya hai, bahut hi acha hai.

Maan lijiye ki mausam mein yeh khuda ki darwaaza hai aur humein uski khaatiyon ko samajhne ka mauka diya gaya hai. Maine socha tha ki yeh ek cheez hai jo har koi jaanta hai, lekin yeh pata lagana ki yeh shahaab e thaagab ek purani star par se nikaala gaya hai, bahut hi acha hai.

Main khuda se dua karun ga ki humein apni zarurat wali cheezein miln, aur yeh shahaab e thaagab koi bhi raah na dene waala kaam karega.
 
ابھی تک اس شہابِ ثاقب کو آسٹریلیا میں ہی کھوجا گیا اور ابھی پہلے بھی نایاب پتھروں کی تلاش میں گھوم رہا تھوڑا سا توڑنا پڑتا ہے تو یہ پتھر سونے کا ٹکڑا سمجھ کر رکھا جاتا ہے اور اب ہمارے سامنے ایک نایاب شہابِ ثاقب ملا ہوا جو آسٹریلیائی میٹل ڈیٹ کے مطابق 4.6 ارب سال کی عمر والا ہے 🤯

دوسری جانب اس پتھر سے بھی ایسے سالمے ملا جیسے امینو ایسڈز جو زندگی کی بنیاد بن سکتے ہیں اور یہ پتھر انھیں پیدا کرتا ہے اس پر تحقیقاتی مقالہ شائع ہوا ہے اور اسے ’’میری بَرو‘‘ کا نام دیا گیا ہے

ایسے نہیں تھوڑا سا استدلال کرتے ہوں انھیں یقین نہیں ہونگے اور اس پتھر کو آسٹریلیا میں کھوج کر لوگ جھوتے بھی ہو سکتے ہیں حالانکہ انھوں نے اپنی تحقیقات وغیرہ سے یہ یقین بنایا ہے کہ یہ نایاب شہابِ ثاقب ہے
 
عجیب! آسٹریلیا میں ایک پتھر نکلا جس کو دوسرے سب سے ٹھیک طریقوں سے توڑ کر بھی نہ توڑا جا سکا ۔ اور اس کی وجہ یہ کہ وہ ایک شہابِ ثاقب تھا۔ ماہرین کے مطابق یہ کہنے میں لگتا ہے کہ یہ پتھر ابھی اچھی طرح سے بہتر نہیں ہو سکا کیونکہ اسے ایسا بنا کر جب یہ زمین پر گرا تو اس کے سامنے کوئی پتھر نہیں تھا، لہٰذا وہ اچھی طرح سے ٹکڑا نہ ہوا کہ اس کا بھی کوئی حصہ توڑنے میں ہمدردی کے بغیر دوسرے پتھروں سے مل جائے۔

اس نئے شہابِ ثاقب کی عمر 4.6 ارب سال بتائی گئی ہے، جو کہ سورج کی ابتداء تک لے جاتا ہے، یعنی اس کی عمر بھی ایک عجیب بات ہے۔

میرے خیال میں یہ شہابِ ثاقب پتھر کے بارے میں ایک عجیب اور نایاب شاندار پرتھوں کا کہنا بھی چاہئے جس کی دیکھ بھال دنیا بھر میں کی جا سکے گی، اور یہ پتھر ہزاروں سونے کے ٹکڑوں کو ان کے مقابلے میں ایسا محفوظ بنا دیتا ہے جو اس کی پوری قیمتی کو ہم سب کو فائدہ پہنچاتا ہے۔
 
اس پتھر کی تلاش میں گھومنے والوں کو بھی بچانا آسان نہیں تھا، پھر یہ کہ اسے مٹیل ڈیٹکٹر سے جانا اور اس سے انفرادی طور پر بات چیت کرنا بھی مشکل تھا۔

اور پھر اس کو آسٹریلیائی میوزیم لے جانا، یہ سب ایسی وجوہات ہیں کہ سائنس کی دنیا میں نئے نئے دریافت ہوتے رہتے ہیں اور ہم انہیں بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔

لیکن اس پتھر کی عمر 4.6 ارب سال بتائی جارہی ہے، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ شہاب ثاقب کیسے زمین پر گرا تو 100 سے 1000 سال پہلے تھا اور ان میں سے کوئی بھی آسٹریلیا میں گرنے کی رپورٹس 1889 سے 1951 کے درمیان آئی۔

اس پر تحقیقاتی مقالہ شائع کیا گیا، یہ سب ایک نیا شہر ہے جہاں نئی معلومات اور نئے دریافتات ملتی ہیں اور یہ پتھر اس شہر میں سائنس کی دنیا کے لیے ایک نئی راہ ہے، جو کوئی نہ کوئی وقت پر زمین کی طرف موڑ دیتی ہے۔
 
اس پتھر کو ملنے والی بات انفرادی طور پر انسانی تلاش اور نہیں، یہ ایک اعظم عمل ہے جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ اس کے لیے دھات کی تلاش کر رہے تھے اور صرف ایک شخص ڈیوڈ ہول میلبرن نے اسے ملا پایا۔

یہ پتھر آسٹریلیا کی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتا ہے جس سے ہمارے نظام شمسی کے بارے میں بات چیت ہو سکتی ہے۔

سائنس دانوں کو اس پتھر کا وزن لگاتار سونے کے ٹکڑوں سے زیادہ ملتا ہے، یہ ایک حقیقت کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس کی وجہ سے لوگ اس کو ایک اعظم تحقیقی مقام سمجھتے ہیں۔
 
یہ واضع ہے کہ آسٹریلیا میں یہ پتھر اور شہابِ ثاقب کی باتیں انھیں دیکھنا تھا جو کوئی کھنچ سکیگا، اس پتھر میں کوئی واضح نشانات نہیں تھے جنہیں وہ ڈیوڈ ہول میلبرن نے یہ دیکھا تھا کہ وہ ایک شہابِ ثاقب ہے، مگر اس پتھر میں کوئی واضح نشانات نہیں تھے، اور یہ کہ ان میٹل ڈیٹکٹرز نے ایسا اشارہ دیا تھا جو انھیں وہ دیکھ سکا کہ پتھر ایک شہابِ ثاقب ہے، یہ سب کچھ ہو رہا ہے، ماہرین ہنری نے بتایا کہ وہ تین ڈیٹا کو لیگ پوسٹ کر چکے ہیں اور انھیں اس بات کی تصدیق مل چکی ہے کہ یہ شہابِ ثاقب ہے! ہر فائل میں ایک ایسا سایملیٹڈ آئیٹم ہوتا ہے جو پتھر کی ساخت اور وہ اس کے ساتھ ملا رہا ہوگا!
 
یہ نومنہ کہیں کی غلطی نہیں، اس پتھر کو دریافت کرنے والوں نے بہت ساری اچھی تحقیق کی ہے، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ کوئی معقول ہیں، مگر انہوں نے کافی بات کرائی ہے اور اس پتھر کو آسٹریلیا میوزیم لے گئے تھے، اب یہی دیکھنا ہے کہ یہ کیا ہے اور اس کی کون سے خصوصیات ہیں؟
 
اس شہابِ ثاقب کی تلاش میں دھات کی تلاش جاری ہے تو یہ سوچنا بہت دلچسپ ہے کہ اس سے زیادہ قیمتی کوئی ناہیوں 💡

اس پتھر کی عجیب ساخت کے لئے حیران ہونے والے لوگ بھی ہیں اور یہ دیکھنا بھی منفی ہے کہ اس میں سونے کا کوئی ٹکڑا نہیں تھا تو یہ پتھر کیا تھا؟

اس سائنسی تحقیق کی نتیجے میں ایسا رخنا ہو گا جو انسان کو اور زمین کی تاریخ پر جدید Knowledge لگا دے گا 🌠
 
😮 پھر کیا تو چالو! آسٹریلیا میں ایک نایاب شہاب ثاقب نکلا اور یہ بھی بتایا گیا کہ اس کی عمر 4.6 ارب سال ہے! اب تک کچھ لوگ سونے کے ٹکڑوں پر ہی فخر کرتے تھے، لیکن یہ شہاب ثاقب اسے سنہرے چاند کا ایک نایاب اشارہ ہے! 😲

اس کی تحقیقاتی پچھان سے پتہ چلا کہ انہیں زیادہ سے زیادہ فخر کرنا چاہئے، اس نے یہاں تک کہ میری برو ریجنل پارک میں ایک سرخ اور بھارپور پتھر کو دریافت کیا!

ہر شہاب ثاقب سائنس کے لیے ایسا ہی ہوتا ہے، جیسا کہ اس نے آسٹریلیا میں مریخ اور مشتری کے درمیان سے مل کر زمین کی طرف آئا!

اس پتھر کو گھر لاکر اور مختلف طریقوں سے توڑنا نہیں چاہئیے، بلکہ اسے اس کے حقدار مقام پر رکھنا ہوگا!

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ شہاب ثاقب سونے سے زیادہ قیمتی ہے، اس لیے اس پر تحقیقاتی مقالہ شائع کیا گیا ہے اور اسے ’’میری برو‘‘ کا نام دیا گیا ہے!

اس پتھر کی عمر 100 سے 1000 سال پہلے زمین پر گرنے والی ہو گئی تھی، اور آسٹریلیا میں 1889 سے 1951 کے درمیان بھی شہاب گرنے کی رپورٹس ملی تھیں!
 
😊 اس نئی دریافت کو دیکھتے ہوئے میرا خیال ہے کہ یہ دنیا کی سب سے سasti اور دلکش دریافتوں میں سے ایک ہے۔ اس شہابِ ثاقب کے وزن 17 کلوگرام ہونے پر حالات کو دیکھتے ہی میرا خیال ہے کہ یہ سائنس کی دنیا میں ایک نیا دور اچھا لگتا ہے۔ اس کی عمر بھی تقریباً 4.6 ارب سال بتائی گئی ہے، جو کہ زمین پر گiraane ke liye 100 سے 1000 saal phele ki baat hai! 😮

وہ بھی سوچتا ہوں کہ اس شہابِ ثاقب کی دریافت میں ماہرین نے بہت ساری اور دلکش معلومات لائی ہیں، جیسے کہ اسے غالباً مریخ اور مشتری کے درمیان ایسٹرائڈ بیلٹ سے آیا ہوگا! 😮
 
واپس
Top