دونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت میں ایسے درجہ کا کم ترین سطح پہنچ گیا ہے جو اسے دوسری مدت میں بھی نہیں دیکھنے کے لئے بھرے تھے۔ گیلپ سروے کے مطابق اس صدر کی مقبولیت صرف 36 فیصد رہ گئی ہے، جس سے اسے پچاس سالوں میں سب سے کم سطح پر دیکھنے کو ملا ہے۔
تاہم وہی نہیں جو امریکی عوام کے دل سے لگا رہا ہے، اس سے پہلے کے لئے بھی اسی درجہ کی تباہی دیکھنے کے لئے نہیں تھا۔ اس کے برعکس، ان کے خلاف تباہی میں اضافہ ہوا ہے، جو اب 60 فیصد تک پہنچ گئی ہے اور اس سے پہلے کی طرح ایک سال میں نا منظوریت کے درجہ پر تھا جس سے امریکی عوام نے ان کے عمل کو جانب سے چھوڑ کر رہا تھا اور اسے 41 فیصد مگر بھی قبول نہیں کیا تھا۔
تاہم اس بات کی تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ ری پبلکنز اور آزاد ووٹروں میں ٹرمپ کی مقبولیت میں ایسی ہی تباہی آئی ہے جس سے اس کا عمل داری بھی اپنی حد تک کمزور ہو گیا ہے۔
ری پبلکنز کی منظوری میں ایک رکاوٹ آئی ہے جو ریپبلکنز کے الیکشن میں ناکامی کا سبب بنی ہے، اسی طرح آزاد ووٹروں میں سے بھی ٹرمپ کی مقبولیت میں ایسا ایسا درجہ تباہی آئی ہے جس کے بعد اس کے لیے اپنی ووٹنگ کی منصوبہ بندی کی ضرورت ہوئی اور اب اس کی ووٹنگ میں بھی ایسی کمی ہوئی ہے جو اسے دوسری مدت میں بھی اس درجہ کا سامنا کرنا پڑے گا جس سے اسے اپنی ووٹنگ کی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہوئی۔
تاہم وہی نہیں جو امریکی عوام کے دل سے لگا رہا ہے، اس سے پہلے کے لئے بھی اسی درجہ کی تباہی دیکھنے کے لئے نہیں تھا۔ اس کے برعکس، ان کے خلاف تباہی میں اضافہ ہوا ہے، جو اب 60 فیصد تک پہنچ گئی ہے اور اس سے پہلے کی طرح ایک سال میں نا منظوریت کے درجہ پر تھا جس سے امریکی عوام نے ان کے عمل کو جانب سے چھوڑ کر رہا تھا اور اسے 41 فیصد مگر بھی قبول نہیں کیا تھا۔
تاہم اس بات کی تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ ری پبلکنز اور آزاد ووٹروں میں ٹرمپ کی مقبولیت میں ایسی ہی تباہی آئی ہے جس سے اس کا عمل داری بھی اپنی حد تک کمزور ہو گیا ہے۔
ری پبلکنز کی منظوری میں ایک رکاوٹ آئی ہے جو ریپبلکنز کے الیکشن میں ناکامی کا سبب بنی ہے، اسی طرح آزاد ووٹروں میں سے بھی ٹرمپ کی مقبولیت میں ایسا ایسا درجہ تباہی آئی ہے جس کے بعد اس کے لیے اپنی ووٹنگ کی منصوبہ بندی کی ضرورت ہوئی اور اب اس کی ووٹنگ میں بھی ایسی کمی ہوئی ہے جو اسے دوسری مدت میں بھی اس درجہ کا سامنا کرنا پڑے گا جس سے اسے اپنی ووٹنگ کی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہوئی۔