شہریوں کے تحفظ کیلئے سرحد پار دہشتگردوں کیخلاف اقدامات کرتے رہیں گے ، خواجہ آصف

ڈولفن

Well-known member
افغانستان کی نئی سرحد پार ہونے والی تنگوں میں بھارتی اور پاکستانی سربراہین کے درمیان گہری تنقیدوں کی لہر توڑ گئی ہے۔ اس وقت کھلی باطلت کا یہ جال خواتین، بچوں اور اقلیتوں کو زہرت سے متاثر کر رہا ہے۔

خوجہ آصف نے 4 برس گزرنے کے بعد اپنی پالیسیوں پر چیلنج کیا ہے اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہی آپ کی سرگرمی سے نہیں کھا رہے۔ خوجہ آصف نے افغانستان کو ایک خبردار مقام پر لے جانے کے لیے اپنے پالیسیوں کو آگے بڑھانے کی قوت کا اظہار کیا ہے اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہی سرحد پر جھوٹے بیانات پر مبنی سربراہی کرتے رہنے دیتے ہیں اور اس سے ان کا تعلق بھی نہیں ہوتا۔

خوجہ آصف نے کہا ہے کہ افغانستان کی غیر نمائندہ حکومت کو دھارمک دھڑوں، خواتین، بچوں اور اقلیتوں پر جبر کیا جا رہا ہے اور ان سے حقائق بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وہی سرحدی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لیے اپنی سرگرمی کا اظہار کرتے رہنے دیتے ہیں اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کی سربراہی میں شہریوں کا کوئی نقصان نہیں پڑتا ہے۔

خوجہ آصف نے ایک بھرپور بیانیہ جاری کیا ہے اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کی پالیسیوں کو افغانستان میں قومی اتفاقِ رائے سے موافقت دی گئی ہے۔ وہی سرحد پر جھوٹے بیانات پر مبنی سربراہی کرتے رہنے دیتے ہیں اور اس سے ان کی سربراہی میں شہریوں کو نقصان نہیں پڑتا۔
 
تنگوں میں گھنٹے گرگیشے لگی ہوئی ہیں، مچھلیاں کی طرح افغانستان کی حکومت کا ایک جال خواتین اور بچوں پر پھیلایا جا رہا ہے۔ خوجہ آصف نے اپنی پالیسیوں سے بھارتی اور پاکستانی سربراہین کی تنقید کیا ہے، اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کی حکومت ایک خبردار مقام پر لے جا رہی ہے۔

میری نظر میں یہ ایک بہترین تھا کہ خوجہ آصف نے اپنے پالیسیوں کو آگے بڑھانے کی قوت کا اظہار کیا ہے، لہذا یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان کی سربراہی میں شہریوں کو نقصان نہیں پڑتا۔

میں اس سے بھگت رہ گیا ہوں کہ خوجہ آصف نے اپنے بیانیے میں بتایا ہے کہ پاکستان کی پالیسیوں کو افغانستان میں قومی اتفاقِ رائے سے موافقت دی گئی ہے۔ اس پر میں کچھ نہ کچھ سوچ رہا ہوں۔
 
یہ تو بہت زیادہ خوفناک ہے کہ اب افغانستان کی سرحد پر کیا کر رہے ہیں؟ ان کی واقفیت کو لینے کا یہ جال نہیں کھل سکتا تو کیسے نکلتا? اس کے لیے افغانوں کو اپنی سرحدوں پر ایسے سربراہین کی ضرورت ہے جو ان کی واقفیت کو لینے میں معذور ہیں؟
 
ہمیشہ یہ بات نظر آتی ہے کہ دوسرے لوگوں کی سرزمی کا انہیں جو بھی فائدہ اٹھانا پڑتا ہے وہ خود اپنی سرزمی سے نہیں اٹھاتے بلکہ دوسروں کو اس میں مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اب خوجہ آصف کا بھی یوں ہی اچھا نتیجہ مل رہا ہے۔
 
اس سرحد پر ہونے والی بھرپور تنقیدوں سے لینے سے پہلے، یہ بات اس طرح سمجھنی چاہئے کہ ایسے میڈیا کی جانب سے بھی جال خواتین اور اقلیتوں پر زور دیا جاتا ہے جو شہریوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے... 💔
 
یہ لوگ اپنی جھوٹی پالیسیوں پر اتنا گار ہوتے ہیں کہ وہ خود کو بھی زہرت سے متاثر کرتے ہیں اور دوسروں کی زندگیوں میں بھی اسے پھیلاتے رہتے ہیں، ابھی افغانستان کی سرحد پر ہوتا ہے تو وہ جھوٹے بیانات کرتے ہیں اور ابھی دوسری سرحد پر ہوتا ہے تو ان کی پالیسیاں ایک دوسرے سے متاثر ہوتی ہیں، اس کو وہی لوگ سمجھتے رہتے ہیں جو اپنی آنکھوں کھول کر دیکھتے ہیں اور ان کی زندگی میں ایسی بات کو جھیلنے سے بچتے ہیں
 
ابھی تو افغانستان کی سرحد پر کچھ بھی ہوا تو یہ طویل واضح واضح بات ہے کہ خوجہ آصف نے پاکستانی سربراہین کو تنقید دے کر پکڑ لیا ہے اور انھوں نے یہ بات بھی بتائی ہے کہ وہ جس میں سے بھی اپنی پالیسیوں پر چیلنج کرتے رہنے دیتے ہیں وہی کھا رہے ہیں۔ یہ بات کوئی نہیں جھگڑتی، انھوں نے صاف و صاف بتایا ہے کہ افغانستان کو ایک خبردار مقام پر لینے کے لیے ان کی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کی قوت کا اظہار کیا ہے اور یہ بات کوئی نہیں جھگڑتی کہ وہ جس میں سے بھی اپنی سرگرمی کا اظہار کرتے رہنے دیتے ہیں ان کی سربراہی میں شہریوں کو نقصان نہیں پڑتا ہے۔

🤔
 
اس کھیل میں کبھی بھی کسی کی ناکاموں کو منہ سے نکالنا اور ایسی پالیسیوں پر چیلنج کرنا جو عام شہریوں کو نقصان پہنچائیں تو کیا واضح ہوتا ہے؟ 😂 بھارتی اور پاکستانی سربراہین کی انہی پالیسیوں پر تنقید کی لہر توڑ گئی ہے اور اب خوجہ آصف نے اپنی پالیسیوں کے بارے میں بھی چیلنج کیا ہے۔ وہی شہریوں کو نقصان پہنچائیں تو یہ ناکامی ہی ہوگی۔
 
یہ تو دھرتیوں پر گولbol چل رہی ہیں، سارے لوگ کچھ لگاتار کرتے ہیں اور کچھ نہیں کرتے ہیں۔ یہ سرحد کی پالیسیاں تو ہی انہیں چیلنج کر رہی ہیں، لیکن انھوں نے ہمیشہ سے ایسا کہا تھا، اب یہ جو ہوتا ہے وہ ہی ہوا دیتا ہے۔ افغانستان میں زہریلے جال کی واز ہے اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ کچھ لوگ ہمیشہ اسی چلाकی پر اٹھتے رہتے ہیں۔
 
یہاں تک کہ 4 برس قبل کیا ہوا تھا وہ اب بھی ہوتا چلا گیا ہے۔ خوجہ آصف کی پالیسیوں پر دھyan نہیں ڈالنے کے بعد اب اس پر گہری تنقید کرتے ہیں تو یہ کیا انھوں نے اپنی پالیسیوں کو تبدیل کرنا پکا دیا ہے؟

افغانستان کی سرحد پر جھوٹے بیانات پر مبنی سربراہی کرتے رہنے سے ان کے پاس اپنی سرگرمی سے نقصان نہیں پڑتا، مگر اس سے وہ اپنے شہریوں کو نقصان دہ بھرپور بیانات سناتے رہتے ہیں!
 
ایسا لگ رہا ہے کہ یہ خبروں کا جال اچھی طرح ختم ہو گیا ہے، کیونکہ اب واضح ہوتا ہے کہ کسی بھی سرحد پر جھوٹے بیانات پر مبنی سربراہی سے شہریوں کو نقصان پڑتا ہے اور ان کی پالیسیوں کو لوگوں کی حقیقت کے طور پر منظر عام پر لایا نہیں جاتا۔ اس کے برعکس، خوجہ آصف نے اپنی سرگرمی سے صاف بات کی ہے اور شہریوں کو ایسا دکھانا ہے کہ وہیں بھرپور معاشرتی رائے کا مظاہرہ ہوا ہے۔
 
افغانستان کی سرحد پر یہ جھگڑہ تو ایک بڑی تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ خوجہ آصف نے اپنی پالیسیوں پر چیلنج کرنا ٹھیک ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کی سربراہی میں شہریوں کو نقصان نہیں پڑتا ہے۔ لیکن افغانستان کی غیر نمائندہ حکومت پر دھارمک دھڑوں اور اقلیتوں پر جبر کرنا غلط ہے۔ خوجہ آصف کو ایسا کہنا چاہیے کہ شہریوں کی سمجھ اور معافیت کی پابندی کا احترام کیا جائے۔
 
[ GIF: ایک شخص جو کہتے ہوئے دھونے والے ایسے ہیں جیسا کہ انہیں سرینہالوں کی غلطیوں سے نا ملزما ہے ]
 
ابھی تک کھلے باطلت کے جال سے ہٹنا مشکل ہوگا اس گھنٹی کی رات میں بھی یہ اچانک نہیں ٹوٹ پئی ہوگی، پاکستان اور بھارت کے مابین دھاری سرحد پالیسیوں پر جتنی تنگائی ہو گئی ہے وہی واضح طور پر یہ بتا رہی ہے کہ دونوں ممالک کی سربراہانوں کی جانب سے شہریوں کو نقصان کا سامنا کرنا پیاری ہونگے
 
یہ تو ایسا لگ رہا ہے کہ ان لڑائیوں میں کچھ لوگ صرف اپنے لئے ہی بھاقتے رہتے ہیں اور دوسروں کا خیال نہیں کرتے۔ افغانستان کو ایک خبردار مقام پر لانے کے لیے سرحدی پالیسیوں کو آگے بڑھایا جا رہا ہے اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ شہریوں کو نقصان نہیں پڑتا۔ لگتا ہے کہ ان سربراہین کے پاس ایسا بھنک رہا ہے کہ وہ صرف اپنی جائیداد کو محفوظ رکھنے کی چिंتا کرتے رہتے ہیں اور دوسروں کے خیال نہیں کرتے۔
 
واپس
Top