شیخ حسینہ واجد کی حوالگی کا مطالبہ بھارت کا ردعمل بھی آگیا

کوئل

Well-known member
بھارت نے بنگلہ دیش سے اپنے سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی حوالگی کا مطالبہ کرنے پر رد عمل ظاہر کیا ہے جس میں اس صورتحال کو بھی شامل کیا گیا ہے جس سے انہیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی ہے۔

بھارتی وزارتِ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ بنگلہ دیش کی عدالت سے متعلق فیصلوں سے آگاہ ہیں اور ان صورتحال کو قریب سے دیکھ رہی ہیں، جس سے یہ بات واضع ہوتی ہے کہ بھارت اپنے پڑوسی ملک بنگلہ دیش کے عوام کے بہترین مفادات کے لیے پورے طور پر متحرک ہوگا۔

ان بیان میں یہ بات بھی بتائی گئی ہے کہ بنگلہ دیش کا امن، جمہوریت اور استحکام بھارت کے لیے اہم وہیں ہیں جن کی سجاوٹ میں ان کا تعاون ضروری ہوگا، اور یہ بات کو یقینی بنانے کے لیے بھارتی حکومت نئی دہلی تمام متعلقہ فریقوں کے ساتھ مسلسل تعمیری رابطہ جاری رکھے گا۔

ابھی غالباً گزشتہ برس اقتدار سے محروم ہونے کے بعد شیخ حسینہ واجد بھارت منتقل ہوئی تھیں، اور اسی مقام پر آج ان کی حوالگی کا مطالبہ کیا گیا ہے جس پر بھارتی حکومت نے اپنا پورا ردعمل ظاہر کیا ہے۔
 
بنگلہ دیش اور بھارت کی اس صورتحال میں، میں حیرتزدہ ہوں گا اگر یہ بات صحت مند نہیں ہوتی کہ دو پھرتی ہوئی ملکوں کے درمیان ایسے معاملات نکلنے پر جس سے بھارتی عوام کے لیے اچھا نتیجہ نہیں لگتا۔

ابھی تو اس وقت ہو رہا ہے کہ بھارت کی اپنی معیشت میں جس بڑے تباہی کا شکار ہوا ہے، اور اس سے پہلے بھی وہ لوگ جنہوں نے ملک کے لیے انفرادی طور پر اپنی جائیدادوں کی دھجیاں چھوڑ دیں، اب انہیں اپنے بیٹے ملک میں ایسا ہی پیش کرنا پڑ رہا ہے جس سے وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے ملک کی قدامتیت کو برقرار رکھ رہے ہیں۔
 
عزیز میرے، یہ صورتحال بہت غم گزار ہو رہی ہے! بنگلہ دیش کی عدالت میں جو حوالگی کا مطالبہ کیا گیا ہے وہ بھارت کے لیے ایک بڑا خطر ہو سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس صورتحال کو حل کرنے کے لیے دوسرے ممالک کی مدد لینا ضروری ہوگا تاکہ یہ صورتحال کو اس سے دور کریں۔
 
تمام بہت اچھی طرح سمجھ لیوں گے! اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ کہنے میں آسانی نہیں ہے کہ بھارت کی حکومت بھی انچارچی سلوک کر رہی ہے! وہ تو اس ماحول کو منظم کرنا چاہتے ہیں جس میں انہوں نے اپنے سابق وزیراعظم کے تعلقات کو بھی ختم کر دیا تھا! اور اب وہ ان پر حوالگی کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ دکھائی دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ کون سے بھی انچارچی نہیں! لگتا ہے کہ وہ اپنی حکومت کا مطابق کیا جانا چاہتے ہیں، لیکن یہ واضح بات ہو گئی ہے کہ بھارت کی حکومت نے ابھی ابھی ہی ایسے لوگوں کو جواز کرنے کا رواج کیا ہے جو انہیں اپنی حقیقت سے دور رکھتے ہیں!
 
بھارت کی ایسی بات کرتے ہوئے تو واضح ہوگا کہ وہ بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کے حوالے سے ایسے نقطے پر کیسے آ رہی ہے جن سے ان کا احترام ختم ہوگا ؟ اور اب جب ان کا مطالبہ ہوا تو وہ اتنے سرقہ دہ ہوئے کہ نہیں کہ انہیں یہ بات اچھی لگ رہی ہوگی؟

اس طرح کی صورتحال میں کئی ایسے معاملات شامل ہیں جو سارے ملک کا دیکھنا پڑ سکتا ہے، اور یہ بات کو بھی یقینی بنانے کے لیے ضروری ہوگا کہ سارے معاملات کی سجاوٹ میں توازن برقرار رکھا جائے، نہ کہ کسی ایک کو دوسرے پر زیادتی کرتے ہوئے اپنا حقدار حاصل کر لیتے ہیں۔

بھارت کی جانب سے بنگلہ دیش کے عوام کے مفاد کے لیے پورا اترچاہ ہوگا تو اس میں ایک بات واضع ہوجاتی ہے، اور اس صورتحال میں یہ بھی کوئی بات نہیں کہ جس سے کسی ملک کی سرحدوں پر پورا امن برقرار رہ سکے تو وہاں اچھا ہونا ضروری ہوگا۔
 
ابھی تو یہ بات تو سمجھ لیں ہر دوسرے ملک میں رہنے والوں کو اپنی پیدائش ملک سے بھاگ کر گئے ہوتے ہیں اور وہاں کے ممتاز شخصیات سے مل کر اپنا رشتہ دوسرے ملک میں بناتے ہیں تو انہیں یہ بھی ضرورت ہوگی کہ وہ اپنے ممتاز زبردست شاعری سے نہ صرف اپے ملک کی معیشت کو محفوظ رکھے بلکہ اس کے عوام کو بھی ایسا ہی محفوظ کرے۔
 
ہمیشہ بتایا کردہ بات یہ ہے کہ بھارت اور بنگلہ دیش میں اس صورتحال کی پہچان سے اچھی طرح آگہ ہو۔ لیکن یہ بات بھی بات ہے کہ بھارتی وزیراعظم نے کہا ہے کہ وہ بنگلہ دیش کی عدالت سے متعلق فیصلوں سے آگاہ ہیں، لیکن یہ بات کبھی نہیں بتائی جاتی کہ وہ اس صورتحال کے بارے میں کیا کھانے والا ہوں گے؟ بھارتی حکومت کو ان معاملات سے آگاہ رہنا چاہیے، نہ کہ اس پر کچھ بات کرنے والا ہونا پڑے۔
 
اس بات کو سمجھنا مشکل ہو گا کہ وہ لوگ جنہیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی ہے، انہیں حوالگی کا مطالبہ کروانے والی بھارتی حکومت کو یہ سوال پیش کرنا ہوگا کہ وہ معملی طور پر اس صورتحال سے آگاہ تھے یا نہیں؟ کیونکہ اسی صورتحال میں انہیں سزائے موت سنائی گئی ہے، تو یہ بات بھی پوچھنا مشکل ہوگا کہ وہ اس صورتحال کو کم کرنے کے لیے کیا کرسکتے تھے؟
 
ایک راز کی طرح، یہ بات تو واضع ہے کہ وہ کون سے افراد بھارت میں رہتے ہیں وہ اس کی نیند اٹھاتے ہیں ، اس صورتحال سے متعلق بات چیت بھی کچھ زیادہ لازمی نہیں ہوگی کیونکہ وہ پوری صورتحال کو سمجھ رہے ہیں اور اس پر انکشافات پر مبنی توجہ دی جائے گی
 
یہ سورٹ برہم کی صورت حال اس لئے اچھی نہیں لگ رہی ، ایسا تو نہیں ہو گا کہ بنگلہ دیش کے واضع مفادات کو یقینی بنانے کے لیے ان سے بات کرنا چاہئیے تو بھی شائicana دکھائی دیتا ہو کہ وہ اس کی بات نہیں سمجھ رہے.
 
بھارت کو تو وہی فائدہ ہوتا ہے جو چاہتا ہو، جیسے وہ اپنے سابق وزیراعظم کو بنگلہ دیش سے کھاتے ہیں اور پھر واپس اٹھا لیتے ہیں! 🤣 مگر یہ بھی بات کو چھپائی جاتی ہے کہ یہ سچ اور نایاب فائدہ ہے؟
 
یہ بات واضح ہے کہ بھارت کی حکومت وغیرہ بہت جسٹ سست ہو گی، انہیں اس حالات کو اپنی نوجوانوں پر مجبور کرنا چاہیے کہ وہ کیسے معاشرے میں اپنے بھائیوں کی فصیلوں سے محروم ہونے کا سامنا کریں؟ اور یہ بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ وہ اس صورتحال میں کیسے اقدامات کر سکتے ہیں، انہیں ابھی اپنے پچھلے وزیر اعظم کو بھی ملانے کی ضرورت ہو گئی ہے؟ میری رائے میں یہ بات واضح ہے کہ سوشل میڈیا پر پورے اس معاملے کو دیکھا جاسکتا ہے اور انہیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ انہوں نے بھی وہی سارے فیصلے کیے ہیں جو شہر میں لوگوں کو متاثر کر رہے ہیں؟ 😐
 
بھارت کی ایسی پوزیشن تو ہی متاثر کن ہوگی، جیسا کہ وہ بنگلہ دیش کے سابق وزیراعظم کو اپنے ممالک سے بھگت کر رکھنا چاہتے ہیں… یہ ان کی اپنی ادارہ بندی کی ناکام ہوئی پھر کیپٹل پمپ کے بعد کے ماحول میں ایسے باتوں کو جواب دہ طور پر ظاہر کرنے سے بچنا چاہتے ہیں… انھیں پورا یقین تھا کہ اپنی اور اس کی ناکام کی وہی پوزیشن دوسری کو سے بھگت کر رکھتی ہے…
 
بھارت اور بنگلہ دیش کی ممتاز تعلقات میں ایک بار فिर ایسا صورتحال پیدا ہو گیا ہے جس سے اس علاقے کے política میں توٹ پڑی ہے. یہ بات واضع ہوتی ہے کہ بھارت نے اپنی پچھلی سرگرمیوں سے تھوڑا ایسا زیادہ راز گھٹایا ہے. اِس صورت میں بھی یہ بات بھی پھیلائی جارہی ہے کہ بھارت کے لئے بنگلہ دیش کا سدباب اہم ہے، لیکن اِس بات کو کیوں غلط بنایا گیا، جو کہ ملکی سیاست میں ایک اہم پہلو ہے.

ایسے صورتحالوں پر مشتمل پوری دنیا میں بھارتی عالمی درجہ بندی میں دیر سے اضافہ ہوا ہے اور اس کا فیصلہ انٹرنیشنل ریل ایجنسی (این آئی سی) نے اِس سال بھی کیا تھا جس کے بعد یہ درجہ بندی میں دو سال تک اضافہ ہوا ہے.

انٹرنیشنل ریل ایجنسی (این آئی سی) کی ڈیٹا پر دیکھتے ہیں، بھارت نے اس سال پچاس ملین ٹن کا انExport اور Imports کر لیا تھا جس سے یہ بات واضع ہوتی ہے کہ ملک کی معیشت میں یہ ایک اہم پہلو ہے۔

سورج آخری بٹ پر چھت کا درجہ، اِسی صورتحال کو دیکھتے ہیں تو یہ بات واضع ہوتی ہے کہ بھارت کی معیشت میں ایک اہم پہلو کا تعین کرنا اس وقت مشکل ہے جب politics میں کوئی وارنسی نہیں رہتا۔
 
یہ بات سے متعرض نہیں ہوگا کہ بھارت نے شیخ حسینہ واجد کی حوالگی کا مطالبہ کرنے پر ایک اور صورتحال کو بھی شامل کیا ہے جس میں اس کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات لگائے گئے تھے۔

اگرچہ بھارتی وزارتِ خارجہ نے یہ کہا ہے کہ وہ بنگلہ دیش کی عدالت سے متعلق فیصلوں سے آگاہ ہیں، لیکن اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ وہ ان صورتحالوں کو قریب سے دیکھ رہی ہے جو اس وقت بھی جاری ہیں، ایک سا پریشانی ہے جو کہ کسی بھی ادارے کے لیے نہیں ہوگا۔

ان میں یہ بات تو صاف ہے کہ بھارت اپنے پڑوسی ملک بنگلہ دیش کے عوام کے بہترین مفادات کے لیے متحرک ہوگا، لیکن اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ وہ ان صورتحالوں کو قریب سے دیکھ رہی ہے جو اس وقت بھی جاری ہیں اور ان کا تعاون ضروری ہوگا، ایک ایسے پریشانی کی اہمیت کو یقینی بنانے کے لیے کہ وہ اپنے بہترین مفادوں کو یقینی بنائیں، ایک اور سا جواب نہیں ہوگا۔

ایسی صورتحالوں میں انفرادی لوگوں کا کیا کردار رہتا ہے جسے حوالگی کا مطالبہ کیا گیا ہوتا ہے؟ اور یہ بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ان صورتحالوں میں انفرادی لوگوں کا کیا کردار رہتا ہے، ایک سا جواب نہیں ہوگا۔

سچائی یہ ہے کہ جب کسی ادارے کی حوالگی یا تعینات کی صورتحال میں کسی اور کے لیے اس پر پورا رد عمل ظاہر ہوتا ہے، تو وہ ادارہ اپنے کام کو نہیں چھوڑتا بلکہ اپنا جواب دہی کرتا رہتا ہے۔

اس صورتحال میں بھی یہ اسی طرح ہونا چاہیے۔
 
واپس
Top