امریکی صدر Donald Trump کی نئی پالیسیوں کے بعد اسرائیل پر دباؤ پڑا ہے اور اس وقت واشنگٹن میں تنقید کی جا رہی ہے کہ انہوں نے ’گریٹر اسرائیل پروجیکٹ‘ ختم کر دیا ہے۔ اسٹیو بینن، ٹرمپ کے سابق مشیر اور وار روم پوڈکासٹ کی میزبانی کرنے والے نے کہا ہے کہ اسرائیل کو مکمل آزادی دی جائے گی، لیکن اس پر شرائط چھوڑی جائیں گے۔
اسٹیو بینن نے کہا کہ ’مقدس سرزمین میں ایک عیسائی ریاست ہونی چاہئے تاکہ آئندہ 20 یا 30 سال میں اس خطے میں امن و استحکام پیدا ہو سکے‘۔ یہ تجویز فلسطین کے تین ریاستی حل سے متعلق تھی جس پر سابق اسرائیلی وزیراعظم بنjamin نیتن یاہو نے تنقید کی ہے اور انہوں نے اسے ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اسٹیو بینن نے غزہ امن معاہدے میں بین الاقوامی فورس کی شمولیت کو سلطنت عثمانیہ کے ٹوٹنے کے بعد بننے والے نظام کا خاتمہ اور ترکی اور عربوں کی واپسی قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ Qatar میں مالی معاونت،Turkey غزہ میں سیکیورٹی فورس کی قیادت، اور اردوان کو نئے اتحاد کی قیادت کرنے کا کام تھامایا ہے۔
اس ٹوٹے ہوئے نظام کا ایک حصہ برطانوی جنرل ایلن بی اور لارنس آف عریبیہ کا تعینات تھا۔ انہوں نے سلطنت عثمانیہ کو شکست دے کر فلسطین پر قبضہ کیا اور عرب قوم پرستی کی تحریک کو بھڑکا دیا تاکہ وہ عثمانیوں کے خلاف لڑ سکیں۔
اسٹیو بینن اب کوئی سرکاری عہدہ نہیں رکھتے اور ٹرمپ کی ٹیم کا حصہ نہیں ہیں، مگر وہ ٹرمپ کے ایجنڈے (Make America Great Again) کے حامی اور بیانیے کو فروغ دینے کے لیے سرگرم رہتے ہیں۔
امریکی صدر کی یہ نئی پالیسیاں کچھ قابل احترام ہیں، لیکن ابھی بھی ان کی دباؤ اور فلسطین پر لگائے جانے والے پتھر بہت چلچلے ہیں
اسٹیو بینن کا مقصد یقینی طور پر امن و استحکام کو برقرار رکھنا ہوگا، لیکن اس سے فلسطین کو مکمل آزادی بھی مل سکتی ہے اور وہ اپنی اپنی قومیں بنا سکتا ہے؟ یہ دیکھنا تنگ آئے گا کہ انہوں نے کوئی توازن حاصل کر لیا ہے یا صرف ایک پہلو کو سمجھا رہا ہے
فلسطین کی واپسی کو کیسے ممکن کیا جائے گا؟ اورTurkey اور عربوں کی واپسی اس وقت تک Possible نہیں ہوگی جب تک فلسطینیوں کو اپنا راستہ اختیار کرنا نہیں پڑتا
اس کے ساتھ ہی ، بڑا सवال یہ ہے کہ ترمپ کی آگے بڑھنے کے لیے اسے ان پالیسیوں کو کس وجہ سے چھوڑنا پڑا؟ اور اس سے Israel پر دباؤ اور فلسطین میں ایک آجازہ تو نہیں آئے گا، بلکہ مزید تیز ہوگا
ترمپ کی نئی پالیسیوں سے واشنگٹن میں زیادہ تنقید کرتا ہوا کہ وہ اسرائیل پر دباؤ ڈال رہے ہیں، ان کی بات تو سمجھنی چاہئے لیکن ہمیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ اسرائیل پر دباؤ نہیں ڈالنا پورے خطے میں امن و استحکام پیدا کرنے کے لیے، بل्कہ اسے یہ سمجھنا چاہئے کہ اسرائیل کی آزادی سے پہلے فلسطین کے سوال کو حل کرنا ہو گا۔
اسکالر کے بھی نہ ہونے کی وجہ سے یہ بات اسٹیو بینن کا دباؤ ڈالتے ہوئے اور فلسطین کے سوال کو حل کرنے کی چالाकش سے بھی زیادہ سمجھنا پڑتی ہے جو یہ نہیں کہ ان کی بات سے ہر کام ہو جائے گا، اس لیے کوئی ایسے حل کی تلاش میں نہیں آگھا ہونا چاہئے جو اس کے لیے ساتھ نہیں دے گا۔
اس ٹرمپ کی پالیسیوں سے اسرائیل پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے اور یہ بات کہیں نہ کہیں کہ انہوں نے ’گریٹر اسرائیل پروجیکٹ‘ ختم کر دیا ہے تو اس سے کیا فائدہ ہوسکتا ہے؟ Israel ka aazadigiri ke liye koi raaz nahi hai lekin us par kuch sharaiyyat chhodne se kya hoga?
Mere khayal main ye socha ki Israel aur Palestine ki samasya ka hal kisi bhi tareeke se nahi kiya ja sakta, isliye yah zaroori hai ki hum sab ek saath mil kar is samasya ka suljhana chaye.
ایسا لگتا ہے کہ اسٹیو بینن کی تجویز میں ایک پہلے سے موجود مسئلے کو حل کرنا اور نئی بھاری شرائط دینا ہو گا، یہ واضح طور پر فلسطین کے خطے میں امن و استحکام پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ لیکن اس سے یہ بات بھی پٹی چلوں گی کہ اسرائیل کی آزادی مکمل ہو گئے تو اس خطے میں امن و استحکام پیدا ہوگا، یا اس سے نتیجہ کیسے نکلا؟
یہ بتانے سے بھی نہیں ہوگا کہ امریکی صدر کی ایسی پالیسیاں ہیں جو اسرائیل پر دباؤ پڑاتے ہوئے بھی فلسطین کی حقیقی تراگیں نہیں سمجھتیں ۔ ’گریٹر اسرائیل پروجیکٹ‘ کو ختم کرنا اس لیو ہوتا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے دباؤ سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔
اسٹیو بینن کی تجویز میں ایک عیسائی ریاست کو مقدس سرزمین پر قائم کرنا ان کی نیت سے تو واضح طور پر سمجھنے لگتی ہے، لیکن یہ بات بھی طévاری ہے کہ اس طرح کی تحریک فلسطینیوں کو اپنی خودمختاری سے محروم کردے گا ۔
غزہ امن معاہدے میں بین الاقوامی فورس کی شمولیت کو سلطنت عثمانیہ کے ٹوٹنے کے بعد بننے والے نظام کا خاتمہ اور ترکی اور عربوں کی واپسی اس بات کی علامت ہے کہ فلسطینیوں کو انہی قوتیوں سے بچنا پڑ رہا ہے جو انہیں ختم کرنے کے لیے اور انہیں اپنی خودمختاری سے محروم کرنے کے لیے سرگرم تھیں۔
ایسا لگتا ہے کہ ترمپ نے اسرائیل کے لیے بھرپور حمایت کی، پھر نہیں وہاں ایک عیسائی ریاست بنانے کی تجویز اچھی ہوگی؟ فلسطینیوں کو اس بات پر یقین کرنا چاہئے کہ ان کے حقوق کی بھावनہ ساتھ ملوث رہیں گے، نہ تو ان کے ساتھ ڈھیلے ہوئے معاملے بننے دئیں گے اور نہ ہی ان کے ساتھ ساتھ بھی رہیں گے
اس ٹرمپ کی پالیسیوں پر بات کرنے والے لوگ اسے دیکھتے ہیں کہ وہ اسرائیل سے جہاں بھی بات کرتے ہیں انہیں فلسطین کی تحریک کی توجہ دینا پڑتا ہے اور اسے ایسے حلوں کا ذکر کرنے سے بھگتے ہیں جو فلسطینیوں کے لئے معقول نہیں ہیں۔
اس کی یہ پالیسیاں اس بات کو ظاہر کر رہی ہیں کہ وہ فلسطینیوں اور عربوں کے ساتھ مل کر کام نہیں کرنا چاہتے، ان کے معاملات کو حل کرنے کی کوشش وہ نہیں کر رہے ہیں اور اس کے بجائے فلسطینیوں اور عربوں کو ایک دوسرے کے خلاف لڑنا چاہتے ہیں۔
اس کی یہ پالیسیاں معاشرے میں بھی پھیل رہی ہیں، یہ لوگوں کو ایسے مسائل کے لئے ذمہ دار بنا رہی ہیں جن کو حل نہیں کرنا ہے اور انہیں دوسروں کے خلاف لڑنا پڑتے ہیں۔