کیتھولک چرچ کئی سال سے دو ریاستی حل کی حامی ہے پوپ لیو

ڈاکٹر

Well-known member
کیتھولک چرچ کا ایک اہم کردار یہ ہے کہ اس نے دو ریاستوں کے حل کی تجدید پر زور دیا، جس میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازع شامل ہے۔ پوپ لیو نے ایک اطالوی صحافی سے گفتگو کرتے ہوئے یہ کہا کہ وہ دو ریاستی حل کی حامی ہیں اور وہ یقین رکھتے ہیں کہ ایک فلسطینی ریاست کا قیام ایسا تنازع کا واحد حل ہے جو اسرائیل اور فلسطین دونوں کو حل کر سکے گا۔

رومن کیتھولک چرچ کی اعلیٰ قیادت نے کئی سال سے یہ کہنا رہا ہے کہ دو ریاستی حل کی تجدید پر زور دیا جائے، تاہم اس نے بھی یقین نہیں کیا ہے کہ اسرائیل یہ حل قبول کرے گا اور انہوں نے کہا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والی ایک ایسی قیادت کی جانب کھینچ رہے ہیں جس کی طرف ہولی سی، اس وقت کے کیتھولک چرچ کا سربراہ، نے پھنس کر انہیں اپنی جانب سے تعاون دیا تھا۔

پوپ لیو نے کہا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی جانب ہیں اور وہ اس تنازع کا حل تلاش میں ہیں، انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اسرائیل اور فلسطین دونوں کو ایک دوسرے سے ملاقات کرنے کی وجہ سے حرمت رکھتے ہیں تاکہ انہوں نے یہ معاہدہ طے کیا جاسکے۔

پوپ لیو کے مطابق، وہ دو ریاستی حل کی جانب سے تعاون کر رہے ہیں اور وہ یقین رکھتے ہیں کہ ایسا معاہدہ طے ہو جائے گا جو اسرائیل اور فلسطینی عوام دونوں کی ضروریات کو پورا کر سکے گا۔
 
ایک باطنی بات یہ ہے کہ کیتھولک چرچ کی بیانیہ میں ایسا معاملہ شامل ہے جو انہوں نے اٹھیں بھی اور اس پر اپنی جانب سے زور دیا بھی ہے، لیکن اس کا اثر اب واضح ہونے لگ رہا ہے اور یہ ایک جسمانی تحریر ہو گئی ہے جبکہ ان کی سایہ اور تحریریں بھی اس سے کدر کو متاثر کر رہی ہیں، لگتا ہے کہ یہ واضح ہو گئا ہے کہ فلسطین کو تسلیم کرنا اور یہ معاملہ حل کرنا ہی توازن کی طرف بھی لے جائے گا یا اس سے ایسا معاملہ پیدا ہوگا جو ابھی تک پیدا نہیں ہوا، یہ بات کچھ اور وقت کی ضرورت ہے کہ واضح ہونے لگے کہ کیتھولک چرچ کا ایسا معاملہ ان کے ساتھ ساتھ ابھی بھی رہنے دے گا
 
اس وقت کتھولک چرچ نے ایسے فیصلے پر زور دیا ہے جو کہ ہزاروں سال پہلے رائے دہی سے گزر کرے اور اب بھی اس کی اسی جدوجہد کا تعین ہے، ایسا معاہدہ جس میں دونوں طرفوں کو مل کر یقین حاصل ہو کہ وہ ایک دوسرے کی جانب سے سمجھتے ہیں اور یہ معاہدہ دونوں کی زندگی میں ایسی تبدیلی لا سکے جس سے کئی صدیوں سے موجود تنازعہ کو کمزور کرکے اسے حل کیا جا سکے۔
 
اس بات پر مجھے شک ہے کہ پاپ لیو نے یہ دھारण کیا ہے کہ ایک فلسطینی ریاست کا قیام صرف اسرائیل اور فلسطین دونوں کی ضروریات کو پورا کر سکے گا۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک سست حل ہے جس میں دوسرے ممالک اور قومی سرگرمیوں کو بھی شامل کیا گیا ہے، اور مجھے اس بات کی خواہش ہے کہ یہ معاہدہ اسرائیل اور فلسطین دونوں کی تعاون اور صلح کے لیے ایک اچھی تجدید ہو جس میں سب کے لئے فائدہ ہो।
 
یہ سوال تھا کہ کتنی دیر سے یہ مذاکرات ہوئے اور اس بات پر یقین ہے کہ وہ حل ہو جائے گا یا نہیں؟ پوپ لیو کے ان بیانوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسے معاہدے کی جانب سے تعاون کر رہے ہیں جو دونوں پارٹیز کو حل کر سکے گا لیکن یہ بھی بات ہے کہ وہ اسرائیل کی جانب سے بھی کس قدر متاثر ہوں گے، اس پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اچھی بات ہے کہ انہوں نے فلسطینی عوام کی جانب سے تعاون کیا ہے لکین اس پر یقین رکھنا مشکل ہے۔
 
اس بات پر غور کرتے ہیں کہ کتنا یہ بھی مشکل ہوتا ہے کہ پاپ نے فلسطین کا استحکام کی کوشش کی ہو یا اس کو توازن برقرار رکھنے کی کوشش ہو، وہ دونوں باتوں کے درمیان آسان لگتی ہی نہیں۔ اور یہ بھی چिंتا دہ ہے کہ پاپ نے فلسطینی عوام کو کبھی بھی یہ راز سچائی کیا ہوگا یا انہوں نے صرف ایک سیاسی حل کی تلافی دی ہوگی۔ میتھews پپنے کی جانب سے فلسطینی عوام کو تسلیم کرنے کی بات بھی چلائی جا رہی ہے تو یہ کس قدر مشکل ہوتا ہے۔
 
🤔 پوپ لیو نے ایسا کہا ہے کہ انہیں یقین رکھنا چاہیے کہ ایک فلسطینی ریاست کی بنیاد پر اسرائیل اور فلسطین دونوں کو حل کر سکتا ہے۔ لیکن وہ اس بات کو بھی جانب دیتے ہیں کہ اسرائیل یہ معاہدہ قبول نہیں کروگا تو کیا؟ وہ فلسطینی عوام کی جانب سے ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہوگی کہ وہ ایسا معاہدہ قبول کرنے پر تیار ہیں یا نہیں? اس میں سے بھی ایک اہم سوال ہے کہ فلسطینی عوام کی جانب سے وہ معاہدہ قبول کرنے پر تیار ہونے کی یہ کوشش کیجائے۔ یہ سب ایک اچھی گھڑی میں حل نہیں ہوسکتا۔
 
اس پاپ نے ایسا کہنا ہے کہ ایک فلسطینی ریاست کا قیام ایسا انازع کا واحد حل ہے جو اسرائیل اور فلسطین دونوں کو حل کر سکتا ہے... لیکن وہ یقین نہیں کرتے کہ اسرائیل یہ معاہدہ قبول کرے گا؟ انہیں فلسطینی عوام کی جانب سے تعاون کیا جا رہا ہے اور وہ ایسا معاہدہ چاہتے ہیں جو اسرائیل اور فلسطین دونوں کی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے... لیکن یہ کیا gar garantee hai?
 
اللہ کی blessing ho 🙏, یہ بہت عجیب بات ہے کہ ایک چرچ نے دو ریاستی حل پر زور دیا اور اب پاپ لیو نے اس پر اپنی جانب سے حمایت دی ہے، اس کی دھूम لگ رہی ہے۔ میرے خیال میں یہ بہت اچھا کھیل ہے کہ وہ فلسطینی عوام کو تسلیم کرنے کی جانب ہیں، اس سے اسرائیل کو بھی اس معاہدے میں شامل ہونے کا موقع ملے گا، یہ ایک جادو کی نوعیت کا خیال نہیں کہ دونوں ایسے معاہدے پر ایک دوسرے سے ملاقات کرنے لگائیں گے، یہ تو کچھ عجیب ہے۔
 
تھوڑی سیرے لگنے کے بعد میں یہ بات سامنے آئی کہ کیتھولک چرچ نے فلسطینی ریاست کی طرف کھینچ رہا ہے اور وہ اس کی جانب سے تعاون کر رہے ہیں، یہ بات تو کہی ہوئی ہے لیکن میں انہوں نے جسے فلسطینی لوگوں کو تسلیم کرنے کی جانب کھینچ رہے ہیں وہ پہلے سے ہی موجود تھا، یقین رکھو میرے بھائیو نہ میں تھوڑا کھاموش ہوا ہوں، اس معاملے میں ایسا کوئی حل نہیں مل سکتا جسے دونوں طرف سے قبول کر لیا جا سکے گا
 
یہ نھیں یقین کہ وہ دو ریاستی حل کی جانب سے توجہ دی جائے، اس کے باوجود وہ ہمیشہ ان کی توجہ دیتے رہتے ہیں اور اب بھی یہ کہتے ہیں کہ وہ اسے قبول کرنے پر تیار ہیں۔ پوپ لیو نے ہمیں ایسا معاہدہ دیکھنا چاہیے جو دونوں tarafوں کے لئے کوئی خیر نہیں، مگر وہ اسے قبول کرنے پر تیار ہیں؟ :))
 
😂🤣👊

[Image of Pope Francis with a puzzled expression, surrounded by Israeli and Palestinian flags]

🤔🤷‍♂️ اس کیتھولک نے تھوڑی دیر پہلے ہی یہ بتایا تھا کہ وہ دو ریاستی حل کی جانب سے تعاون کر رہے ہیں... اور اب وہ اسی طرح کے ہی ب Bolt ڈلٹن! 🤣
 
عرب دنیا میں یہ بات پھیل چکی ہے کہ کیتھولک चرچ نے اسرائیل اور فلسطین کے تنازعے پر زور دیا ہے، لیکن پوپ لیو کی یہ کہانی تھیں تو وہ ایسا کہتا جہاں سے وہ لائے ہوتا اور اب وہ ایسا بھی کہ رہے ہیں تاکہ یہ معاہدہ طے ہو جائے جو عرب دنیا کی خواہشات کو پورا کر سکے گا نہ تو اسرائیل اور فلسطین دونوں کو فائدہ پہنچا سکتا ہے، وہی بات جو کہا جاتا رہا ہے کہ فلسطینی عوام کی جانب سے حرمت رکھی جا سکتی ہے یہ بھی ایک پالیسی ہے؟
 
واپس
Top