عیسائیوں کے روحانی پیشوا نے پاپ لیو کا کہنا ہے کہ وہ فلسطینی ریاست اور اسرائیل دونوں کی دو ریاستی حل کی حمایت کر رہے ہیں جس سے تنازع ختم ہوجائے گا۔
رومی کیتھولک چرچ کی اعلیٰ قیادت نے اس تنازع کو حل کرنے کے لیے دو ریاستی حل کی حمایت کی ہے جو فلسطینی عوام اور اسرائیل دونوں کے درمیان دہائیوں سے جاری ہے۔
پاپ لیو نے اٹلی کے سفر میں لبنان کے راستے سے پرواز کرتے ہوئے کہا ہے کہ رومن کیتھولک چرچ دو ریاستی حل کو قبول کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں جس سے فلسطینی عوام اور اسرائیل دونوں کے درمیان تنازع ختم ہوجائے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے میں اس نے 2015 میں اٹلی کی ریاست وہولی سی کی جانب سے یہ اعلان کیا تھا۔
روم کیتھولک چرچ کی اعلیٰ قیادت نے دھائیوں سے جاری تنازع کو حل کرنے کے لیے دو ریاستی حل کی حمایت کی ہے جو فلسطینی عوام اور اسرائیل دونوں کے درمیان بڑا تنازع ہے۔
عیسائیوں کی پاپ لیو کی بات سے نہیں سوچ رہا تھا کہ وہ فلسطینی ریاست اور اسرائیل دونوں کو دو ریاستی حل کے ساتھ یہ تنازع ختم کر دیں گے...لیکن اب جب انھوں نے ایسا کہا ہے تو یہ بہت اچھا ہے...دوسری جانب جیسے دیش پر پابندی لگائی گئی ہے یا اس طرح کی چپلوں سے لوگوں کو روکنا وغیرہ تو یہ بات بھی اچھی ہوگی کہ فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان ایسے حل تلاش کرنے کے لیے...دوبارہ اس سے تنازع ختم ہوجائے
میری رाय یہ ہے کہ پاپ لیو نے ایسی بات کی ہار جس پر انہیں بھرے ماحول میں اپنی نظروں سے نظر انا نہیں ہوسکتا। فلسطینی ریاست اور اسرائیل دونوں کو ایک دوسرے کی طرف سے تسلیم کرنا اس kadar آسان نہیں ہے جیسا کہ وہ لگاتار کہتے ہیں اور یہاں تک کہ اب بھی اس پر انہوں نے اپنا دباؤ قائم کرنا ہمیشہ نہیں رکھا ہوتا۔ یہ ایک بڑی سیاسی مہم ہوگی اور اس پر فوری نتیجہ ہوگا اس سے پہلے انہیں واضح رہنما کی ضرورت ہے۔
پاپ لیو کا یہ اعلان بھی تھا، مگر پچیس سالزے قبل وہ ہی اسنے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا اور اب انہوں نے ایسا دہرا دیا ہے لیکن یہ سوال بھی رہ جاتا ہے کہ پاپ لاو کی بیانات میں فلسطینی عوام کو ریاست تسلیم کرنے سے کیا نتیجہ نکلتا ہے؟
اس سے پہلے کہ پاپ لیو نے یہ اعلان کیا، میں سोचتا تھا کہ اس کا یہ کہنا کہ وہ فلسطینی ریاست اور اسرائیل دونوں کی دو ریاستی حل کی حمایت کر رہے ہیں، بہت اچھا سنیگہ دیتا ہے۔ لہذا اب وہ کہتے ہیں کہ وہ ایسا کر رہے ہیں تو یہ یقین کے ساتھ کہ وہ دونوں کی حمایت کرنے والے ہیں، اس میں کسی قسم کا پچھوٹ نہیں ہے۔ یہ بات صرف ایک بات ہے، دونوں کی دو ریاستی حل کی حمایت کرنا کوئی مشکل نہیں ہے لیکن اس سے کیا نتیجہ نکلے گا اس پر کوئی اور جائزہ دیکھے تو معلوم پڑے گا کہ یہ معلقت کیسے ختم کی جا سکتی ہے۔
پاپ لیو کی یہ بات دلچسپی دے رہی ہے کہ وہ فلسطینی عوام اور اسرائیل دونوں کے درمیان تنازع ختم کرنے کے لیے دو ریاستی حل کی حمایت کر رہے ہیں۔ یہ بات سب کو خوش دلی دے گی اس لئے کہ پاپ لیو کا یہ کہنا کہ وہ فلسطینی عوام اور اسرائیل دونوں کی دو ریاستی حل کی حمایت کر رہے ہیں ان سب کی نژادیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا اس لیے کہ فلسطینی عوام اور اسرائیل دونوں کا ایسا کوئی تعلق نہیں ہے کہ ان کی دو ریاستی حل کی حمایت کرنے سے وہاں کے لوگ مایوس ہوجائیں۔ لیکن اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ فلسطینی عوام اور اسرائیل دونوں کی دو ریاستی حل کی حمایت کرنے سے یہاں تک کہ وہ تنازع ختم ہوجائیں ان لوگوں کو بھی اس میں شامل کرنا چاہئے جنہوں نے فلسطینی عوام اور اسرائیل دونوں کی دو ریاستی حل کی حمایت کی ہے۔
اس وقت تک کہ نہیں پاتا کہ کس طرح دو ریاستوں کی ایسی ملکیت ہو سکتی ہے جس پر یورپی چرچوں میں تو بات چیت ہو رہی ہے لیکن یہاں تک کہ پاپ لیو کے بعد بھی نہیں سمجھا جا سکتا.
پانی ایک طرف اور ایسی دو ریاستی حل کی بات تو یہی ہے جو اس وقت چرچ میں پھیلائی جارہی ہے لیکن ہمیں صرف یہی سیکھنا چاہئیے کہ یہ سہولت کس طرح حاصل کی جا سکتی ہے؟ جب تک کہ اس میں لاکھوں فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کی جان پر معمہہ نہیں چڑھ سکتا تو یہ کہنا آسان ہے کہ دو ریاستی حل کی بات بے معنی ہے۔
اس سے پہلے اور اس سے بعد میں بھی یہی بات رہی ہے کہ جب تک کہ فلسطینی عوام اور اسرائیل دونوں کو اپنے حقوق پر اصرار کرنا بند نہیں کیا جاتا تو دو ریاستوں کی ملکیت کے بارے میں بات چیت ہونی پوری۔
اس بات سے مجھے اچھا لگتا ہے کہ فلسطین اور اسرائیل دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ سمجھنے کی जरورت ہے... میں یہ نہیں چاہتا کہ کسی بھی طرف کی فوجی کارروائی کر دی جائے کیونکہ وہ دوسرے taraf کو گھیر کر اچھا لگای گیا ہے... میں ہوڈے پر بیٹھا رہتا ہوں تو پاپ لیو کہتے ہیں کہ دونوں طرف کو ایک دوسرے سے Talks کرنے کی जरورت ہے اور اس طرح تنازع ختم ہوجائے...