ایک ناکام حملے میں طالبان سربراہ ملا ہبت اللہ کو شہید کرنے کے بعد افغانستان میں طالiban حکومت پر شدید اندرونی بحران کا سامنا ہوتا دکھایا جاتا ہے۔
ملا ہبت اللہ اخوندزادہ، جو طالبان کی قیادت کیے کرنے والے افغانستان کی سربراہی حکومت کے سربراہ تھے ان پر وسطی جہادی مدرسہ میں ایک ناکام حملے سے شہید ہونے کو آئی۔
شہادت کی وجہ یہ جانتا جاتا ہے کہ ہبت اللہ کو وہی جہادی مدرسہ میں شہرت ملی جہاں ان کی حفاظت تین بنیادی عناصر پر مشتمل عمری لشکر کے 60,000 مسلح جنگجو پر مشتمل یونٹ کے زیر انتظام تھی۔ اس نے ان کے خاندان، کلیدی کمانڈرز اور علما کی حفاظت کی اور علاقوں کی نگرانی کی۔
اس حملے میں لیفٹیننٹ حفيظ صدیق اللہ کو شہادت کا شکار ہونے پر ان کی جانب سے ایک ناکام کوشش کی گئی جس کے دوران وہ ہبت اللہ کے دائیں ہاتھ پر چھری سے حملہ کیا لیکن اس نے زخمی ہونے کو کہا اور فوری طور پر ہبت اللہ کی حفاظتی یونٹ عمری لشکر نے اسے واپس مار دیا مگر وہ ابھی بھی زندہ ہے اور قندھار کے قریب طالبان حراست میں تفتیش کا سامنا کر رہا ہے۔
اس واقعے سے افغانستان کے اندرونی تنازعات کے بارے میں کئی گھنٹوں پورے دنیا پر شعبہ جات کی توجہ اٹھا رہی ہے، جو یہیں تک پہنچ گئے ہیں کہ یہ افغانستان میں طالبان حکومت کے اندر سب سے بڑا بحران ہو گا۔
افغانستان کو عالمی سطح پر بڑا دھچکا ملا جس نے طالiban کی انٹرنیٹ سروس کو معطل کردی ہے، 2010 میں شروع کرنے والی انٹرنیٹ سروس جو افغانستان میں اس وقت تک بھرپور تھی جب کابل پر طالبان کا کنٹرول تھا لیکن جس نے یہ پہلا دھچکا تھا جب امریکی فوج نے 2010 میں اسے سیلف ڈیلی کوٹر بھی جاری کیے، اور جو یہ پہلا آزاد کپتان بنے گا وہ ایک فوجی افسر ہو گا جس نے اس دھچکی سے مقابلہ کرنے کا عزم کیا گا۔
اس حادثے سے پتہ چلتا ہے کہ طالبان کی حکومت میں بھی انفرادی اور اندرونی تنازعات ہیں، جس سے حکومت کو تباہ کرنے کا عزم رکھتے ہوئے لوگ شہرت حاصل کرتی ہیں۔ اس ناکام حملے میں افغانستان کی ایک نئی ناکامی پر اشارہ کیا جاتا ہے اور یہ بات بھی اس کے بعد ظاہر ہوتی ہے کہ حکومت کے اندر طاقت کے لیے جدوجہد جاری ہے۔
اس حملے کے بعد افغانستان کی صورت حال بہت تاریک دکھائی دی ہے مگر یہ بات بالکل نہیں ہے کہ ہفتوں میں پوری و्यवसیت طالبان حکومت کی چھت کو توڑ کر افغانستان کی ایک نئی ترقی کا آغاز کر دیا جا سکتا ہے!
شہادت ان کے خلاف شہدت کا ایک قائل بن سکتا ہے جو اس وقت تک طالiban حکومت کو پھیلانے کی ترغیب دیتا رہے گا جب تک وہ افغانستان میں اپنی جماعت کو متحد نہیں کرسکتے ہیں۔
اس واقعے سے اس بات پر غور کرنا zarوری ہے کہ پہلے یہیں تک دھسپتی تھی۔
ہمارے پاکستان میں بھی اسی طرح کی بربادی کی وجہ سے ہمیں افغانستان کی طالبان حکومت پر دیکھنا پڑ رہا ہے جو اس وقت ایک ناکام حملے کے بعد ہبت اللہ کی شہادت سے بحران میں پھوس رہی ہے
یہ واقعہ افغانستان کو بڑا دھچکا لگا رہا ہے، اور اس کے بعد یہ وہی نامانت کے بعد آئی جس سے انہوں نے اپنی حکومت قائم کی تھی
افغانستان کی ایک ناکام حملے میں شہید ہونے پر طالبان کی حکومت پر بڑا بحران دکھایا گیا ہے، اور اس واقعے سے افغانستان کے اندرونی تنازعات پر دنیا بھر میں توجہ مبذول ہو رہی ہے
ہمارے پاکستان میڰ افغانستان کی حکومت پر دیکھنا پڑ رہا ہے جو اس وقت ایک ناکام حملے کے بعد ہبت اللہ کی شہادت سے بحران میں پھوس رہی ہے
ملا ہبت اللہ کی شہادت نے افغانستان میں طالiban حکومت پر ایک بڑا بحران پھینکتا ہوا دکھایا ہے. یہ شہادت ایک ناکام حملے سے ہوئی جس میں لیفٹیننٹ حفيظ صدیق اللہ کو بھی زخمی کر دیا گیا تھا. افغانستان کے اندرونی تنازعات پر پوری دنیا کا توجہ مرکوز ہو رہی ہے اور یہ دیکھنا بہت خطرناک ہے.
طالبان حکومت کی ایسی صورتحال آ گئی ہے جس میں ان کے اندر سب سے بڑا بحران ہو گا. اس شہادت نے طالiban کو اپنے اندرونی تنازعات کی وجہ سے معذور کر دیا ہے اور یہ دیکھنا بہت Dangerous ہے.
ہی، یہ تو ایک بڑا خطرہ ہے! طالبان کی حکومت پر انڈرونی بحران اور اس شہادت کا جواب دہی وہاں کے لوگوں کو بھی دکھائی دے گا، اب افغانستان نے ایسا ہی چیلنج کیا جیسا کہ امریکا نے اسے کیا تھا!
اس حقیقت کو توڑنا ہوا ہے جب ایک طالبانی سربراہ کو ایک ناکام حملے میں شہید کر دیا گیا ہو۔ اس کے بعد افغانستان میں طالبان حکومت پر شدید بحران دکھایا جاتا ہے جو کہ افسانوی نہیں بلکہ حقیقت ہے۔
جب تک کہ طالiban کے سربراہ ملا ہبت اللہ شہید ہو جائیں گے تو افغانستان میں ایسے اندرونی تنازعات ہر وقت دیکھے جائیں گے جیسے کہ کوئی نا کوئی طالبان سے منسلک ہو کر ان کے خلاف لڑ رہا ہو اور یہ سب ایسی چلن میں آ رہا ہے جو انھیں شہادت کی طرف بڑھائی گئی ہے
ایسا ناکام حملہ کیا جائے تو وہاں کے لوگ اس کی وجہ کو پوچھتے رہیں گے اور یہ حقیقت بن جائے گی کہ طالiban کی حکومت ایک ناکام ہے۔
ਆؤٹا! یہ حقیقت کہ اس وقت تک طالiban کی انٹرنیٹ سروس پوری دنیا میں موجود تھی اور لوگ اس پر بھی جارہے تھے، مگر اب وہ شہید ہو گیا ہے! یہ طالiban کی بھارتی قیادت پر ہونے والے حملے کا دوسرا حملہ نہیں ہے، ایک ساتویں جہادی مدرسہ میں اس پر حملہ کرنا تو لالچ مند ہو گیا ہے، لیکن وہ بھی شہید ہونے کے بعد ان کی جانب سے ناکام کوشش کی گئی جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ شہادت ہبت اللہ کے لئے ایک اچھی بات نہیں ہو گی!
آج کے افغانستان میں طالiban حکومت پر ان دراز گشت خوات کو دیکھنا تھا تو چینی نہیں، وہ فوری طور پر اس شہادت سے بھागنے لگے! اور اب وہ اپنی قیادت کے لئے اٹھنا چاہتے ہو تو ان کی سرکردگی میں یہی ناکام حملہ کرنا!
یہ واقفہ ہر ایک کو ڈرتا ہے، طالبان کی سربراہی حکومت پر انٹرنیٹ سروس ختم کر دی گئی ہے، یہ عالمی سطح پر ایک بڑا دھچکا ہے۔ 60,000 جنگجو کے ناطے عمری لشکر کو اس حملے میں کیا ناکام ہو گیا؟
ابھی ہفتہوں پہلے ہبت اللہ کو شہید کر دیا گیا تھا اور اب ان کے دائیں ہاتھ پر چھری سے حملہ کیا گیا، تو یہ کیسے ممکن ہوا؟
افغانستان میں طالiban حکومت پر شدید بحران آ رہا ہے، لہٰذا یہ بات بھی دیکھنی پڑ رہی ہے کہ افغانستان کو اس سے نکلنے کا کس طرح منصوبہ بنایا جائے گا؟
ایسے ہی ٹالiban کی حکومت میں ایک ناکام حملے سے طومناہ تنگ آ گیا اور اب یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ اس جہاڈی مدرسہ میں شہادت ہونے والے ملا ہبت اللہ کو وہاں سے بچایا گیا تھا یا نہیں؟ میرے لئے یہ ایک حقیقی تارے کی مانند ہے جو افغانستان میں طالiban حکومت کے اندر سے خلا و خلوص کو تلاش کر رہا ہے۔ اس طرح کی شہادتوں سے طالبان حکومت کے اندرونی تنازعات اور فوجی کارروائیوں میں اضافہ ہوتا دکھایا جاتا ہے۔
جہاں انٹرنیٹ کے بغیر وہ بھی نہیں رہتے جو کہ افغانستان کی زندگی ہے تو اب وہاں سے گزرنے کے لیے ایک فوجی افسر کے پیدل چلنا بھی ایسا ہی جگمگایا دے گا کہ وہ اس دھچکے سے مقابلہ کر رہے ہیں؟
اس شہادت پر بات کرنا تھوڑا بھی ہرکٹ نہیں آتھا، یہ ایک طالبان حکومت میں ڈائری لین ہی ہو گیا ہے۔ ان تمام جہادی مدرسے جب تک کہ وہ کسی بھی شہید کو نہیں دیتے، ان کا ایک ہی کام ہوتا ہے اور وہ صرف اُس پر فوجی حملوں سے بچاتے رہتے ہیں۔ ان کے پاس 60,000 جنگجو تھے لہٰذا یہ ایک طالبان حکومت میں ڈائری لین ہی نہیں بلکہ طالبان کی بھارتی سرگرمیوں کا ایک بھرپور مظاہرہ ہے۔
یہ تو حیرت انگیز بات ہے! ڈالٹون، امریکا میں ایک دوسرے شہروں سے بھرپور لڑائی کے بعد اس پر ٹیکسٹنگ رکاوٹ کا ریکارڈ قائم ہوا ہے، مگر افغانستان میں ایسا کچھ نہیں دکھایا جائے گا؟ میرے لیے یہ بھی سوال اٹھاتا ہے کہ 60,000 مسلح جنگجو کیوں نہیں رکتی ہے؟
ایسی situations میں لطف آتے ہیں تو یہ سوچنا شروع کرلو کہ کیا یہ حقیقی طور پر ایک ناکام حملے کی وجہ سے ہوا یا یہ ان لوگوں کا ایک معینہ قرار جس کو حکومت نے اپنی وافریوں میں فیل کیا تھا۔
لطف آتے ہیں تو پچھلی حکومت کا یہ کہنا بھی سوچنے لायक ہے کہ انٹرنیٹ سروس کو معطل کرنا ایک معینہ قرار دیا گیا تاکہ افغانستان کی حکومت کو بہت کم دباؤ میں رکھا جا سکے۔
ایسے situations پر غور کرتے ہیں تو یہ سوچنا شروع کرلو کہ طالiban حکومت کے اندر ایسے لڑائیوں کی چھپائی کی گئی ہو گی جس سے اس حکومت کو اپنے خلاف مچانے میں مدد ملے گی۔
ایک اور بری حقیقت سامنے آئی ہے، ایسے لوگ جو اپنی پوری زندگی کوPolitics میں خرچ دیتے رہتے ہیں وہ اپنی جانوں کا بھی قیمتی خیز نہیں سمجھتے۔ اس واقعے سے افغانستان کو دوسرے جیسے ہی سامنا کرنا پڑتا ہے جو انفرادی طور پر بھی ایسے حالات کی تلافی کرتا ہے کہ سیاسی رکنوں کو کبھی بھی یہ سوچنے دینا چاہیے کہ اُنھیں اپنی جان و مال کی کس قیمت پڑے گی.
جب یہ بات سامنے آتی ہے کہ 60,000 جنگجو والی یونٹ میں ایک اور کچلا ہوتا ہے، تو اس سے آپ کو پتہ چلتا ہے کہ جب کسی نظام میں ایک دوسرے کی حفاظت نہیں ہوتی تو اس کے لئے بحران پیدا ہوتا ہے اور وہ انفرادی طور پر چلنا پڑتا ہے، ایسا ہی یہ طالبان کی حکومت بھی دیکھ رہی ہے جہاں ہر کمانڈر اپنے لئے فیلڈ مارشل کر رہے ہیں اور اس لیے ان کے درمیان تنازعات پیدا ہوتے رہتے ہیں، ایسا ہی اپنے گھر کے اندر بھی لڑائیوں کی سیر بکھر کر جاتا ہے تو آپ کو پتہ چلتا ہے کہ اس نئی زندگی میں آپ کس حد تک ہم آہنگی اور ایک دوسرے کی حفاظت کرتے ہیں؟
ایسے میں یہ بھی تھوڑی نچوٹی ہے کہ افغانستان کی انٹرنیٹ سروس کو آج بھی ہلکے ہونے پر مجبور کر دیا گیا جبکہ یہ واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ افغانستان میں اپنی آسانی سے کوئی بھی دھچکا ایسا لگای سکتا ہے۔ شہادت کی وجہ سے طالبان حکومت پر اندرونی بحران کا سامنا کرنا ان کی جانب سے ایک بڑا موقع ہوا جیسا کہ افغانستان میں انٹرنیٹ سروس کو معطل کرنے کی صورت حال میں یہ کچھ نہ کچھ نئی دھاروں لائیں گے۔