دنیا کے نقشے پر لکیر ہمیشہ ایسی ہوتی ہے جتنا صدیوں سے محکوم انسانوں کے دلوں پرکھنچی ہوئی ہے۔ بیسویں صدی میں ہم نے یہ خواب دیکھا تھا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی انسان کی مشقت کم کرے گی، جب عالمی منڈیاں وسعت اختیار کریں گے، جب صنعتیں محنت کشوں کے خون اور زندگی کو نچوڑنے کے بجائے انصاف کے اصولوں پر چلیں گی تو شاید انسان کے درمیان موجود طبقاتی فاصلہ کم ہونے لگے گا مگر ہوا کیا?
دنیا کے نقشے پر جو لکیر ہر بار ایسی ہوتی ہے جتنا صدیوں سے محکوم انسانوں کے دلوں پرکھنچی ہوئی ہے وہ امارت اور غربت کو ایک ساتھ دکھا سکے، جتنی ہی گہری ہو گی۔ سرکاروں کی پالیسیوں نے یہ لکیر بڑھا دی ہے اور اب دنیا کے کئی حصوں میں نئی مزاحمت جنم لے رہی ہے، ورکر یونینز دوبارہ مضبوط ہو رہی ہیں، طلبہ تحریکیں نظام کے خلاف سوال اٹھا رہی ہیں، آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے دور میں بھی انسان اپنی آواز تلاش کر رہا ہے۔
ارے وہ کچھ جس کے بارے میں پوری دنیا بات چیت کر رہی ہے اس پر میرے لیے بہت گہرا جذبہ ہے! ہمیں پتا نہیں کہ یہ پوری دنیا اچھا سے بدل دی جائے گی، یا اس میں کیا نئی چھاؤنیاں آنگیں ہوں گی? ہمیں اپنی دولت کو انصاف میں تقسیم کرنا پڑے گا تو کیوں نہیں؟ میرے خیال میں دنیا کے کسی بھی حصے میں سوشلزم پہچان لیا جائے، یہی کہہنا کافی نہ ہو گا!
یہ تو ایک شدید ماحولاتی تباہی کا واقعہ نظر آ رہا ہے! سرکاروں کی پالیسیوں نے یہ لکیر بڑھانے میں کیا کردار ادا کیا ہے؟ اب نئی مزاحمت جنم لے رہی ہے اور اس کی وجہ سے پوری دنیا میں ماحولاتی مسائل پر چلتا ہوا تھوڑا سا کچھ بھی تبدیل ہوتا ہے؟
میری رائے یہ کہ سرکاروں کی پالیسیوں میں ایک ایسا چرچہ ہوتا ہے جو ماحول کو متاثر کرنے والی کارروائیوں کی طرف بڑھاتا ہے، اور اب نئی مزاحمت کا مطلب یہ نہیں کہ انسان اپنی زندگی میں کچھ زیادہ استثنا لیتا ہے بلکہ یہ اس بات کی واضح عکاسی کرتا ہے کہ اب ماحول کو متاثر کرنے والی کارروائیوں پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔
میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ یہ لکیر اپنی آزادی کو ایک ساتھ دیکھنے کی ترغیب دیتی ہے، انسان نے صدیوں سے محفوظ رہنے کی پالیسیوں پر چلتا تھا اور اب اس نے اپنی زندگی میں ایسا فراموش کر دیا ہے کہ انسان کے دماغ کو بھی ماحولاتی مسائل سے محفوظ رکھنا پڑ رہا ہے!
یہ تو اچھا نہیں، آج کل ہر چیز ایک لچکی کی گیند بن رہی ہے اور لوگ اپنی منڈیاں فیکس کرنے کا محض تھوڑا بھی وقت پکے ہوئے ہیں، کیا یہ حقائق کے ساتھ نہیں آ رہے؟ پوری دنیا میں گرانے کے دور میں لوگ بھارتیاں اور پاکستانیوں سے کچھ فرق کیا جاتا ہے? اب میرا خیال یہ ہے کہ ہر چیز ایک لچکی کی گیند بننے کے لیے نہیں بلکہ اس کو مندرج کیا جائے اور لوگ اپنی وجوہات بیان کرن۔
یہ تقسیم کیسے؟ میرا خیال ہے کہ یہ تقسیم دنیا کو ایک ساتھ نہیں لانے والی ہوگئی ہے، مگر اس لئے کہ وہ لوگ جو ٹیکسٹائلیٹ نہیں ہو سکیں گے اور ان کی आवाजھوں کو شناخت نہیں ملے گی، وہ صرف اپنے بچپن کے دھونے والے سڑک اور محلات پر تسلط حاصل کر رہے ہیں۔
اس طرح ان کا بھرósا یہ ہے کہ وہ ایسے لوگوں کی دھیندھی پھیلائیں گے جو وہ نہیں ہو سکیں گے، مگر میں یقینی نہیں کہ یہ تقسیم کس طرح دنیا کو بدل دے گی؟
امaret aur gharibat ko ek saath dikhana kaisa hai?
Meri rai hai ki sirf kuch log hi ismein bhaag le rahe hain, bas usse bachna chahiye aur apni tarah se samajhna chahiye. Har ek vyakti ko apne haq ka ped pehsana hota hai, nahi toh hum sab kuch sirf dosti ke naam par haath milaayenge?
یہ واضح ہے کہ اب نئی لکیر کس بات کی نشاندہی کررہی ہے؟ سرکاروں کا یہ تصور کہ انصاف اور نظام کی پالیسیوں سے صحت مند معاشرے کا نتیجہ نکالنے میں کچھ نئی چیلنجز پیدا ہونے کا بھانپنا؟
یہ تو ایک عجیب سواہ کے تئیر ہے... دنیا کی نقشے پر اس لکیر کو دیکھتے ہیں تو یہ حقیقت ہے کہ انسانوں کے دل پرکھنچی ہوئی ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ سارے انسانوں نے ایسی ہی طرح کی تلاش شروع کر دی ہے جو لوگوں کو ایک دوسرے کی طرف متوجہ کرتے ہوئے، یہ تو ایک بڑا سواہ ہے...
اسDivision کی بات کرتے ہو تو مجھے لگتا ہے کہ یہ ہماری ایک بڑی غلطی ہے۔ دنیا میں انصاف اور نجی مفاد کے درمیان کشیدگی زیادہ بڑھ رہی ہے، لوگ اب ٹیک्नالوجی کی مدد سے اپنی حقیقت کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور دوسروں کے خون پر بھی گزرنا چاہتے ہیں۔ یہ توہین پسندی کی ایک نئی صورت کو دیکھ رہی ہے، جس میں لوگ اپنے خلاف بیان کر رہے ہیں اور محنت کشوں کے ساتھ دوڑ رہے ہیں۔
اس وقت دنیا کا نقشہ ایسا ہو گیا ہے جیسا ہمیشہ محکوم انسانوں کے دلوں پرکھنچی ہوئی ہے، لکیر عالمی منڈیاں وسعت اختیار کر رہی ہیں اور صنعتیں بھی انصاف کے اصولوں پر چل رہی ہیں مگر اس نئی مزاحمت کو دیکھتے ہوئے بہت گہری غلطیوں میں پھنسا ہوا ہے، کبھی آمریکی وٹس نے کیا، کبھی یورپی یونین نے، اب یہ ایک عالمی بہاؤ کے نام سے سرگرمیاں شروع کر رہی ہیں جہاں تمام ممالک ایک ساتھ مل کر اپنے لوگوں کی زندگی کو نچوڑنے والے بڑے صنعتی معاملات میں مدد فراہم کرتے ہیں، مگر یہ سب انصاف کے اصولوں سے باہر ہی ہوا رہا ہے، آج بھی ایسے لوگ ہیں جو نچوڑنے والے ماڈل کے نچلے حصے پر رہتے ہیں، ان کا بھی کوئی دوسرا ماحول نہیں ہے۔
سائنس اور ٹیکنالوجی نے انسان کی زندگی کو کتنا زیادہ آسان بنا دیا ہو گا؟ اس سوال کے جواب میں، 2025 میں ٹیلی کمیونیکیشن کی ایک رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ دنیا بھر میں 4.2 ارب لوگ اس وقت تک ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں جبکہ یہ ساتھ ہی 3.5 ارب لوگ فیکٹریز میں کام کر رہے ہیں۔
اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ٹیلی کمیونیکیشن کی ترقی کے ساتھ ہی ایک نئے طبقے کا وجود ہوا ہے جو پرانے طبقات میں بھی اپنے حصے کو لینے کے لیے اٹھ رہا ہے۔
ایک فوری ٹrend ایسے ہیں جیسا کہ یوٹیوب پر پہلے سال میں 20 ارب سے زائد فیکٹ، 50 لاکھ سے زائد ویڈیوز، اور 100 ملین سے زیادہ اسٹرامرز کا شمار ہوا ہے۔
اس کے علاوہ، ایک فوری فیکٹریز میں کام کرنے والے ملازمین کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ جیسا کہ ایک رپورٹ میں ذکر ہے کہ 2024 میں، 30 لاکھ سے زیادہ فیکٹریز میں کارکنوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جبکہ اس سال ان میں 20 لاکھ سے زیادہ نئے ملازم ہوئے۔
ایسے حالات میں کیا انسان اپنی زندگی کو آسانی سے حاصل کر سکتا ہے؟ یہ سوال ابھی بھی پہلے سے رہا ہے۔
اس لکیر کو کتنا سڑکے کی ڈاللی ہوا دیکھو... اب لوگ اس لکیر پر ایسے ہی ہیں جیسا صدیوں سے تھا، صرف یہ کہ اب وہی لاکھوں کو تھام کر رہے ہیں اور اس سے بھی ان کے دل پرکھنچی ہوئی ہے... یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ وہ لوگ جو اس لکیر کو بنانے والوں ہیں اب اپنی سستدستیوں پر انفرادی طور پر بیٹھ رہے ہیں، نہ تو انہیں کام کا ایسی منصوبہ ہے اور نہ یہ کہ وہ اپنی زندگی کو کچھ اچھا بنا سکیں...
یہ وہ وقت ہے جب ہم ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ہمیشہ کی طرح اس Problem کو حل کرنا چاہیں گے, پہلے سے انصاف اور مساوات کی بات کرو, انسانوں کی پیٹی بھرنے والی پالیسیوں کو چھوڑو, ہمیں ایک دوسرے سے محبت کرو, ہم انصاف کی راہ میں قدم بڑھائیں, یہ ہی وقت ہے جب ہم اپنےPlanet کو ایک بہتر Future दیکھنا چاہیں گے!
اس عالمی معاملے پر مجھے یہ سوچنے کا لگتا ہے کہ سب کچھ اس وقت تک بھی نہیں ہوا جب تک کہ لوگ اپنی کامیابیوں اور مسائل کی دیکھ نہیں رہے۔ مجھے لگتا ہے کہ لوگوں کو اس معاملے پر زیادہ فخر محسوس نہیں کرنا چاہئے، بلکہ وہ اپنی آزادیوں اور حقوق کی لڑائی میں خود کو شامل کرنے چاہئیں۔ مجھے یہ بھی سوچنے کا لگتا ہے کہ سرکاروں کو اپنی پالیسیوں میں مایوسी محسوس نہیں کرنا چاہئے، بلکہ انہیں لوگوں کی ترجیحات اور احتیاطوں کو سمجھنا چاہئے۔ مجھے یہ بھی سوچنے کا لگتا ہے کہ دنیا میں نئے تجدید پسند منظر ناموں کی ضرورت ہے، جس سے لوگوں کو اپنی آزادیوں اور حقوق کی لڑائی میں حصہ لیا جا سکے۔