متحدہ عرب امارات میں ابشمسی توانائی اور بیٹری اسٹوریج پر مبنی دنیا کا سب سے بڑا قابل تجدید توانائی منصوبہ شروع ہو گیا ہے، جس سے یہاں روزگار کی ہزاروں مواقع پیدا ہوگیں۔
ابوظہبی میں اس منصوبے کا آغاز صدارتی دیوان برائے ترقی و شہداء کے نائب چیئرمین شیخ ذیاب بن محمد بن زائد النہیان نے رکھا ہے، جسے دنیا کے سب سے بڑے قابل تجدید توانائی منصوبوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اس منصوبے کی تیاری گلف نیوز کے مطابق ابوظہبی فیچر انرجی کمپنی ‘مصدر’ اور امارات واٹر اینڈ الیکٹریک سسٹم کمپانی ایوییک نے مشترکہ طور پر کی ہے۔
اس منصوبے میں شمسی فوٹوولٹائک پلانٹ اور بیٹری اسٹوریج کا بھی تعین عمل میں آیا ہے، جس سے یہ منصوبہ دن رات 1 گیگاواٹ صاف توانائی عالمی سطح پر مسابقتی نرخوں پر فراہم کرے گا۔ اس کے ذریعے سالانہ 5.7 ملین ٹن کاربن کی کم میں کمی اور 10 ہزار سے زیادہ روزگار کی مواقع پیدا ہوگیں۔
				
			ابوظہبی میں اس منصوبے کا آغاز صدارتی دیوان برائے ترقی و شہداء کے نائب چیئرمین شیخ ذیاب بن محمد بن زائد النہیان نے رکھا ہے، جسے دنیا کے سب سے بڑے قابل تجدید توانائی منصوبوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اس منصوبے کی تیاری گلف نیوز کے مطابق ابوظہبی فیچر انرجی کمپنی ‘مصدر’ اور امارات واٹر اینڈ الیکٹریک سسٹم کمپانی ایوییک نے مشترکہ طور پر کی ہے۔
اس منصوبے میں شمسی فوٹوولٹائک پلانٹ اور بیٹری اسٹوریج کا بھی تعین عمل میں آیا ہے، جس سے یہ منصوبہ دن رات 1 گیگاواٹ صاف توانائی عالمی سطح پر مسابقتی نرخوں پر فراہم کرے گا۔ اس کے ذریعے سالانہ 5.7 ملین ٹن کاربن کی کم میں کمی اور 10 ہزار سے زیادہ روزگار کی مواقع پیدا ہوگیں۔
 
				 . تو اس طرح سے 10 ہزار سے زیادہ روزگار پیدا ہونے سے نہ صرف یہاں کے شہروں کی ذمہ داری میں کمی ہوگی، بلکہ اچھے معاشرے بننے کے ہی منصوبے پھنس جائیں گے?
. تو اس طرح سے 10 ہزار سے زیادہ روزگار پیدا ہونے سے نہ صرف یہاں کے شہروں کی ذمہ داری میں کمی ہوگی، بلکہ اچھے معاشرے بننے کے ہی منصوبے پھنس جائیں گے?