کوئٹہ میں چکن 400، مگر ہوٹلوں میں کڑاہی 2000 روپے کلو! عوام کا کارروائی کا مطالبہ - Daily Qudrat

خرگوش

Active member
چکن کی قیمتوں میں ایسے اضافے جس سے شہر کے ہوٹل اور ریستوران عوام کو گھنٹی بھر دھونے کے بدولت چکن کڑاہی پانے کے لیے مجبور کر رہے ہیں، ان کے بارے میں عوام نے غم و غصہ ظاہر کیا ہے۔ چکن کی فی کلو 400 روپے میں دستیاب ہے مگر شہر کے مختلف ہوٹلوں میں اسے 2000 روپے تک فروخت کیا جارہا ہے، جو یہاں تک نہیں آگئی کہ عوام کو ایسا اچھا لگ رہا ہے کہ وہ اس کے لیے چلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ایک کلو کڑاہی میں صرف 750 گرام یا اس سے کم گوشت شامل ہونے کی صورت حال میں عوام نے شدید تنقید کی اور شہر کے مختلف ہوٹل اور ریستوران پر انہیں اپنی کارروائیوں سے منظم کرنا پڑے گا۔

شہریوں نے ضلعی انتظامیہ اور محکمہ پرائس کنٹرول کے خلاف فوری معامله کی وعدہ دہی کی ہے کہ انہیں کاغذوں تک محدود پرائس کنٹرول کمیٹیاں ہی نہیں بلکہ اس سے زیادہ مقناطیص کور کو بھی شامل کرلیا جائے گا، جبکہ گراؤنڈ پر مؤثر چیک اینڈ بیلنس ہوگا اور اس طرح عوام کو ان ہوٹلوں میں کھانا کھانے سے وہ ہم آہنگی محسوس کر سکیں گئیں۔

شہریوں نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ حکومت فوری طور پر ہوٹل میں چکن کڑاہی کی قیمتوں، مقدار اور معیار کا جائزہ لے، اور خلاف ورزی کرنے والے ہوٹل مالکان کے خلاف سخت کارروائی کریں۔

اس سلسلے میں شہریوں نے کہا ہے کہ اگر ہوٹل مافیا کے خلاف ٹھوس قدم نہ اٹھایا گیا تو عوامی استحصال اور مہنگائی کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔
 
ملازمت میں ناکام ہونے پر بھی آپ کو ہمیشہ اپنی ملازمت کے لیے責بند رہنا چاہیے
 
جب تک یہ چکن کی قیمتوں میں اضافہ جارہا ہے تو عوام کو دھونے کے بدولت گھنٹی بھر گول میں پایا جا رہا ہے، یہ صرف توسیع کا ایک نئا طریقہ ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ساتھیوں کا جو کچھ کر رہا ہے انھیں اچھا لگنا چاہیے اور عوام کو بھی اس کی بدولت بے نتیجہ ہٹانا چاہیے
 
یہ بے حسی عادی ہے، پانی کی چکن کی قیمتوں میں اتنا اضافہ کر دیا جا رہا ہے کہ لوگ دھونے کے بدلے ہی اسے کھانے کے لئے مجبور ہو گئے ہیں! یہ بھی نہیں واضح ہوتا کہ شہر کی مختلف ہوٹلوں میں اسے اتنا سستا فروخت کیا جا رہا ہے؟ انہیں لوگ یہ جانتے ہوئے بھی چلنے کی کوشش کر رہے ہیں!

ایک کلو کڑاہی میں صرف 750 گرام یا اس سے کم گوشت شامل ہونا، یہاں تک کہ عوام نے ان پر بھی تنقید کی ہے! اور اب شہر کے لوگ ضلعی انتظامیہ اور محکمہ پرائس کنٹرول کے خلاف فوری معاملة کر رہے ہیں، لیکن پہلے اس بات کو واضح کرنا چاہئے کہ یہ انہیں کتنے پیسے دیا جا سکتا ہے؟ اور اس سے زیادہ مقناطیص کور شامل کرنا، یہ بھی کیا معذور ہو گا؟

مگر واضح ہے کہ شہر کی قومیں مجبور ہوئی ہیں! جب تک ان پر پرانے نظام کو اپنا نہیں رکھنے کی کوشش کی گئی، وہ یہاں تک بھی اچھا لگائے گی کہ وہ اس سے جھучتی ہیں! اور ایسے میں ان کے لیے صرف ایک حل یقینی نہیں ہے!
 
بڑی حیرت کی بات ہے اس غم و غصے کی کہ شہر کے ہوٹل اور ریستوران عوام کو ایسی اچھی نہیں ہے جس سے پکے کھانے کا आनंद لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چکن کو ایسے اضافے پر فروخت کرنا بہت نچٹکے اور غیر مقناطیص عمل ہے، مگر عوام نے ہوٹل مالکان سے ایسی معاملات کی توڑ پھوں لگائی ہیں کہ وہ اب ان پر غور انداز نہیں کر سکتے۔
 
ਮੈں اس غم و غصے کو سمجھتا ہوں جو عوام نے شہر کے ہوٹل اور ریستوران پر پھیلایا ہے، یہ سب ایسا ہوا ہے جیسے لوگ اپنی اپنی زندگیوں سے بچنے کے لیے کوئی وارننس نہیں چاہتے، اس لیے ہوٹل اور ریستوران اسی 400 روپے کی چکن پر 2000 روپے تک سے زیادہ لگاتی ہے، یہ تو کچھ نہ کچھ ہوتا ہے لیکن شہر میں ان لوگوں کو جو اس معاملے سے بھرا رہتے ہیں وہ اس بات پر غور کرنے والے نہیں ہیں کہ یہ معاملہ ان کی کس طرح متاثر کرسکتا ہے، یہ لوگ صرف اپنی توجہ اس معاملے پر مرکوز کرنے والے نہیں ہیں وہ اپنی زندگیوں کو بھی ایک ساتھ رکھتے ہیں، یہ معاملہ ان کیFamily اور Children کا بھی تاثر کرسکتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ عوام کو ایسا وارننس ملے جو وہ اپنی زندگیوں سے لچکدار رہ سکے۔
 
میں یہ سوچتا ہوں کہ شہر کی ہسٹری میں ایسی دن نہیں آئی ہے جب عوام اپنے پیٹ پر بھار پڑنا پڑنے سے منع رہے ہوں، اور اس لئے جو حال ہوا ہے وہ ناقابل تolsی ہے، چکن کی قیمتوں میں اضافے سے عوام کو ایک گھنٹی بھر دھونے کے بدولت چکن کڑاہی پانے پر مجبور کر دیا جا رہا ہے، اور یہ صرف ایک چیلنج نہیں بلکہ ایک مشقت بھی ہے جو شہر کے لوگوں کو اپنے مابین ہٹانے پر مجبور کر رہی ہے
 
ایسا نہیں چل سکتی, چکن کی قیمتوں پر عوام کو اسچھی شکل میں مجبور کرنا جاری ہونا، اور یہ کہ لوگ ہوٹل میں دھونے کا مقابلہ کڑاہی پانے سے دھونے کا، اس ہے بھارپور استحصال جو کچھ سے کچھ چکر میں آ گیا ہے۔

آبادی ہی نہیں بلکہ ایسے لوگ جو ہوٹل اور ریستوراں میں کام کرتے ہیں ان کے لیے یہ کافی معشوق ہے۔

ایسا ہوا تو ان کی ملکی جائیداد کی واپسی ہوگی نہیں، مگر عوام کو بھی یہ سچ پکڑنے میں کافی صبر کی ضرورت ہے کہ وہ ان ہی لوگوں کے خلاف اٹھائیں جو انہیں استحصال کر رہے ہیں۔

شہریوں کی یہ طاقت ہے، یا انہیں بھی سمجھنا پڑے گا کہ اس کے لیے کیا ہونا چاہئے؟
 
یہ ایک بڑی ناکام قائمیت ہے کہ شہر کے ہوٹل اور ریستوران چکن کے مواقع پر عوامی استحصال کر رہے ہیں اور اب یہ لوگ عوام کو ایسا اچھا لگ رہا ہے کہ وہ ان کی قیمتوں میں اضافے کے لیے اپنی پیداوار کی ایک ایسی چٹان بننے پر مجبور ہوتے دیکھ رہے ہیں۔
 
جب تک یہ بات پتے رہے گی کہ شہر کے مختلف ہوٹل اور ریستوران چکن کڑاہی کی قیمتوں کو عام عوام کو چھوٹا کرنے کی کوشش نہیں کر رہے تو انہیں ہر جگہ پر پہچان لینا پڑے گا 🤑

مگر میرے خیال میں یہ بات بھی درست ہے کہ عوام نے اچھی طرح کوئی سٹریٹجیز پیش کیں، اس لیے ڈھائی گنا تیزی سے کارروائی کرنے پر کہاں بھی دباو پڑ رہا ہے اور یہ فوری معامله کرنے کی وعدہ دی جائے گی تو صرف ایک بات محسوس ہوگی کہ ان کے پاس کوئی سارے اعداد و شمار نہیں ہوں گے 📊
 
اس میں بہت اچھی بات ہے کہ لوگ انفرادی طور پر ہیٹرز بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر اور ایسا نہیں بھی رہنا چاہئے جو لوگ اس طرح کے کھانے کی قیمتوں کو لے کر شہر کے تمام ہوٹل اور ریستوران کا انتظام کر رہے ہیں، انھیں یقین رکھنا چاہئے کہ ان کی قیمتوں پر ایسا پابندی نہیں لگنی چاہئے، وہ لوگ جب بھی کسی ہوٹل میں گزرتے ہیں تو اسے ان کی معیار کا مشورہ دیا جائے، اور یہ بھی ضروری ہے کہ شہری ان سے اپنی رپورٹ کرائیں تاکہ وہ ان کا نقصان ہونے کا مطلع کریں
 
عوام کو چکن کڑاہی کی قیمتوں میں اضافے سے ٹوٹنا پڑ گیا ہے، اور اب وہ انہیں گھنٹی بھر دھونے کے بدلے میں باڈی کو چلایا جا رہا ہے... ہوٹل میں سے اور کئی پلاسٹوری ایکہتھا ہے، یہ تو یہ ہمیشہ سے چھپا رہا تھا لیکن اب وہ اس پر ظاہر ہو رہے ہیں کہ عوام کی دیکھ بھال کی کمی میں انہیں ہونے والے نقصان کو توجہ نہیں دی جارہی... شہر میں کئی ایکہتھوں سے زیادہ دھونے کی لگن اٹھنے پر اس کا نقصان ہی توجہ بھی آ سکتی ہے...
 
یہ واضح ہے کہ شہر میں چکن کی قیمتوں پر کنٹرول نہیں ہے، اور یہ سب کچھ عوام کو دھونے کے لیے مجبور کر رہا ہے۔ وہ لوگ جو چکن کڑاہی کی قیمتوں پر نہیں دکھتے، وہ صرف عوام کے خلاف دیکھتے ہیں اور ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس بات کو تازہ کرنا ضروری ہے کہ عوامی استحصال نہیں ٹلے گا، اور ہوٹل مافیا کو ٹھوس قدم اٹھایا جائے گا۔
 
چکن کی قیمتوں میں اضافے کے بعد شہر کے لوگوں کو بہت دکھ پہنچا ہے اور انہیں یہاں تک لگ رہا ہے کہ وہ اس کے لیے چلنے کی کوشش کر رہے ہیں! 400 روپے میں دستیاب ہونے کے باوجود شہر میں 2000 روپے تک فروخت کیا جارہا ہے، یہ تو بے اعتبار ہے!

یہ سب وہ لوگ کرسکتے ہیں جنہوں نے کوئی کھانے کی خدمات فراہم کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اب یہ لوگ عوام سے پैसہ اٹھا رہے ہیں، یہ تو انتہائی غلطی ہے!

جب تک ان کا ایسا معاشرہ نہیں بنتا جہاں شہریوں کو ان کے ساتھ ہم آہنگی محسوس ہو، وہ لوگ پہلے ہی اپنی فتوحات کا علم دیتے ہیں اور عوام پر برتالہ کرتے ہیں!

شہریوں کی یہ وعدہ دہی کہ ان کی کارروائیوں سے منظم کرنے کو پڑے گا، یہ ایک بے مثال معیار ہے اور اس سے میرے لئے بھی یقین رہتا ہے!
 
واپس
Top