پیوٹن کی پہلی بار یورپی ملکوں سے دورہ نہیں کرنے کے بعد، بھارت میں روس کا اس دورہ ایک اہم قدم ہے جس سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات قوتوں میں اضافے کا نشانہ بن گئے ہیں۔
صدر پیوٹن کی دو روزہ دورہ نے روس اور بھارت کے مابین دو طرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنا دیا ہے، جبکہ یوکرین جنگ سے مغربی پابندیوں کی بڑھتی ہوئی فہرست کا سامنا کر رہے ہیں۔
روسی صدر نے دوسری جانب، انہوں نے یہ بات یقینی بنائی ہے کہ روس بھارت کی تجارت کو بیرونی دباؤ سے محفوظ رکھیں گے اور اپنے معاشی تعاون میں اضافہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے یہ بھی تصدیق کی کہ تجارت کے لیے متبادل ادائیگی کے طریقہِ کار پر بات چیت جاری رہے گی تاکہ پابندیوں سے بچا جا سکے۔
روسی سربراہ نے اس بات کو بھی ایک واضح پیغام دیا کہ روس عالمی امور میں تنہا نہیں ہیں اور اس کی اہمیت کو یقینی بنایا گیا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ صدر ٹرمپ کی پالیسیوں نے اعتماد میں کمی پیدا کی ہے اور روس کی اہمیت میں اضافہ کیا ہے۔
انہوں نے مزید یہ کہا کہ روس بھی چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے محتاط ہے، اسی لیے وہ بھارت کو ایس سی او اور برکس جیسے فورمز کے ذریعے یوریشیئن سیاست میں زیادہ فعال دیکھنا چاہتا ہے۔
انہوں نے مزید یہ کہا کہ روس بھارت کے اندرونی مسائل پر تنقید نہیں کرتا، نہ ہی تعاون کے لیے شرائط عائد کرتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ پیوٹن کی بھارت گئے جانے سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اور تعاون میں بہت حد اضافہ ہوا ہے۔ اس دورہ نے بھارتی اور روسی تجارت کو مزید مضبوط بنایا ہے اور یوکرین جنگ سے متعلق پابندیوں کے بارے میں بات چیت جاری رکھی ہے۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ روس نے اپنی تجارت کو بھارت کی جانب سے محفوظ بنانے پر توجہ دی ہے اور معاشی تعاون میں اضافہ کیا ہے۔ اب تک اس بات پر زور دیتے ہیں کہ روس اپنی اہمیت کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہا ہے، خاص طور پر اس کے تناؤ کے وقت جب امریکہ کی پالیسیوں نے اعتماد میں کمی لائی ہے۔
بھارتیوں کو یہ اچھا شاندار تھا، انہوں نے کیا روس بھی اپنا ایک ساتھی ہوا رکھیے؟
لگتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اچھے ہوئے ہیں، سارے ایسے لوگ جو روس کی طرف بینتے ہیں، انہیں بھارت کا ایک نئا ساتھی ملتا ہے۔
روس کی طرف جانے پر پیوٹن کا اس دورہ میں یقین رکھا گیا تھا، اب اس نے روس اور بھارت کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط کیا ہے۔
یومہ وارہ کی سرگرمیوں میں ان کے موجودگی سے ایک اچھا موقع سامنے آیا، اب ان دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کا معاشیات اور تنوع میں اضافہ ہوا ہے۔
یہ بات کوئی نہیں چھپاسکتی کہ اس دورہ کی سے بھارت اور روس کی تعلقات میں ایک تبدیلی آئی ہے، خاص طور پر پابندیوں کے زمرے میں۔ اب دیکھا جائے تو یہ بات صاف ہو گئی ہے کہ روس بھارت کی جانب سے اپنی تجارت کو محفوظ رکھنے کی تاکید کی وجہ سے پابندیوں پر اثر ہوا ہے، اور یہ بات بھی صاف ہوئی ہے کہ روس نے اپنی اہمیت کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے۔
لگتا ہے اس دورہ نے تاکید کی کہ روس عالمی امور میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے، اور اگر ٹرمپ کی پالیسیوں نے اعتماد میں کمی پیدا کی ہے تو یہ بات صاف ہو گئی ہے کہ روس کا اثر و رسوخ بھی اس سے زیادہ ہوسکتا ہے۔
اس دورہ کا اچھا معنی یوکرین جنگ میں روس کی پابندیوں کو کم نہ کرنے کا ہے؟ کیا یہ سچ ہے کہ روس بھارت کی تجارت کو محفوظ رکھے گا یا اسے ایسی سرزمین پر بھی اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا چاہتا ہے جہاں پابندیوں سے بچنے کے لئے تجارت کو متبادل ادائیگی کے طریقہِ کار پر بات چیت کرنی پڑے گی؟
پتھا تو لگ رہا ہے اس دورے سے پہلے بھارتی وزیر مین کسے چیٹ کرتے تھے، اور وہ یقینی بناتے تھے کہ روس نے بھارت کی مدد کی ہوگی، اب وہ بتاتے ہیں کہ یہی ہوا گئی اور تعلقات مضبوط ہوئے… آج تو دیکھیں نا، پچاس کی دہائی میں روس نے بھارت کو یہی مہم کہی تھی، لेकिन وہ اس پر کامیاب نہ ہو سکے۔
منہ و جس کچھ پتہ چلتا ہے اسکے بعد اور روس کی یہ دورہ نے کیا فایڈے ہوئے?
یوکرین جنگ میں بڑھتی ہوئی پابندیاں دیکھتے ہیں تو روس کی یہ دورہ کیا اچھا کام دیکھنے لگا?
میں سوچتا ہوں کہ تجارت میں بیرونی دباؤ سے محفوظ رکھنا ایسا آسان نہیں ہوتا, کیا روس کو یہ چیلنج کامیابی سے کھیلنا پڑ گیا؟
انہوں نے کہا کہ روس کی اہمیت میں اضافہ ہوا تو اس پر ایک لاکھ روبلے کی معاوضہ کی وصولی کس لیں گے?
یہ تو ایک بڑا قدم اٹھایا ہے روس کی طرف سے! پیوٹن کے دورہ نے دو طرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے میں مدد کی ہے، اور یوکرین جنگ کی وہ پابندیاں جنہیں روس کا سامنا کر رہا ہے وہ بھارت کو تو نہیں ملتیں گی!
لیکن یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ روس بھارت کی تجارت کو بھی بہتر بنانے میں دلچسپی رکھتا ہے! انہوں نے تجارتی تعاون میں اضافے کی واضح پیغام دی ہے اور متبادل ادائیگی کے طریقوں پر بات چیت جاری رکھی گئی ہے۔
لیکن یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ روس کی اہمیت میں اضافہ کرنے سے وہ نہ ہی انٹرنیشنل ایمرجنس میں ہی رہ جائے گا، بلکہ اس نے اپنا اثر و رسوخ بھی دیکھنا شروع کیا ہے!
ایس سی او اور برکس جیسی فورمز میں زیادہ فعال ہونے سے بھارت کو یوریشین سیاست میں مزید اہمیت مل سکتا ہے، لہذے کہ روس نہیں ہی، بلکہ چین بھی اس کی توجہ دے رہا ہے!
یہ واضح ہے کہ یوکرین جنگ کے باعث بھی پابندیاں لگائی جائیں گی، ان لوگوں کو جو روس اور بھارت کی تعلقات میں دلچسپی رکھتے ہیں انہیں یہ بات بھی پھنسنی چاہئیے کہ پابندیوں کے بغیر تعلقات اس کی پیروں میں ہیں۔ روس نے اس دورہ سے بھارت کو ایک خطرناک مقام پر پہنچایا ہے جو یوکرین جنگ کے باعث ہوا۔