امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہائی اسکلڈ ورکرز کے لیے ایک جھیلوں سے بھر پھولے زبانیں چٹا دیں ہیں، ان کا حکم تیز ہوا گئی اور وہی زبانیں جو اس کی خطرناک صلاحیتوں کا حوالہ کرتی تھیں اب آگے بڑھتی جا رہی ہیں۔
امریکی سفارت کاروں کو ایچ ون بی ویزا کے درخواست گزاروں کی فہرستوں کے جائزے کیOrder دی گئی ہے، انہیں اس کو چھوٹھی چھوٹی چھت پر رکھ کر جائزہ لیا جائے گا اور اس سے قبل اسے ایک ہی روز کا نتیجہ ملے گا۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنے سفر کے ریزومے یا لنکڈان پر بھی جائزہ لیا جائے گا، اس سے پہلے یہ جاننا مشکل ہوگا کہ ایسا کیونکہ وہ اب ملازمت میں ناکام ہوسکتے ہیں اور ان کے پاس بھی اس سے قبل کے ایم ایل اے کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوگا۔
ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ یقینی طور پر انہی کمپنیوں کے لیے نقصان دہ ہوگا جن کی حمایت ٹرمپ نے کی تھی اور یہ بھی اس بات کو ظاہر کر رہا ہے کہ وہ ان ناکامیوں پر سڑک پر چل رہا ہے جو اس کے صلاحیتوں کے حوالے سے بھی مشubuور ہیں۔
امریکی صدر نے ایک دھمی دھمی زبانیں چٹا دیں ہیں اور اب وہی اس کی خطرناک صلاحیتوں پر چل رہے ہیں جو لوگ انہیں منکر سمجھتے تھے . یہ سچ مچ ایک بدلتے ہوئے معاشرے میں ہے جہاں وہ جو کچھ بھی ممکن ہوتا ہے وہ اس پر کام کر رہا ہے۔
ایچ ون بی ویزا کو چھوٹھی چھت پر رکھنا اور سفر کے نتیجے سے قبل اسے جائزہ لیا جانا ایسا سانسنا ہے جو ملازمت میں ناکامی کا لالچا بن سکتا ہے . وہ لوگ جو اپنی صلاحیتوں پر بھرोसے رہتے ہیں انہیں ایسا دیکھنا مشکل ہوسکتا ہے جب کہ وہ لوگ جو کمزور ہوتے رہتے ہیں ان کی مدد سے بھی بھرپور نجات مل سکتی ہے۔
اسٹرٹجیکری کا ایسا طریقہ ہے جس نے امریکا کو پہلے ایک زبردست اور خطرناک صلاحیت دکھائی، اب وہ اسے اپنے ساتھ لے کر جارہی ہے، اور یہ سب ان کے پاس ہوا گیا ہے کیوں کہ وہ کبھی بھی سچائی سے نہیں چلو۔ میں یہاں تک یقین رکھتا ہoon کہ ان شواذ کے نتیجے پر جس سے اب وہ بے حد کامیاب ہوئے ہیں وہ توڑ اٹھانے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔
امریکی صدر کی یہ decison اچھی نہیں ہے، وہ ابھی ان امریکینوں کو خطرہ دیتا ہے جو باہر کے ہیں اور ان کے پاس ویزا میٹنے کی کوئی چANCش نہیں ہوتے، ایسا جیسا ہی یو بی سی کے ملازمین نے جو آج سے پچاس سال پہلے ویزا لیا تھا اور اب وہ باہر ہیں تو ان کی فہرست میں شامل کرنا کیا یہ فیصلہ صاف ہے۔
منفی موڈ میں ہیں نے، یہ معاملہ ایسا ہوا ہے کہ جب تک آپ اس پر فोकस نہ کریں گے تو یہ دھچکا لگتا ہے۔ سٹیڈیم میں بہت لوگ ہیں جو انہی زبانیں کا بہانہ اور ان کو تیز رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن واضع طور پر یہ بات بھول جائیگی کہ یہ معاملہ پوری دنیا میں ہوا ہے، سارے لوگ اس کی نوجوانی اور اس کی طاقت کو دیکھ رہے ہیں۔
زندگی میں بھی ایسے وقت آتے ہیں جب آپ کو لگتا ہے کہ سب کچھ کھونے والے لافازے سے توڑ دیتا ہے لیکن اس میں بھی ایک lesson ہوتا ہے جس کو آپ کو نہیں سمجھتا ہو آپ کے سفر میں کسی بھی قرار گزاری کا انحصار ان لوگوں پر نہیں کرتا کہ آپ کے ساتھ کیسے بات چیت کرتے ہیں بلکہ ان کی صلاحیتوں اور کامیابی کی پیداوار میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے، اس سے آپ کو سب سے اچھا lesson ملتا ہے کہ ایک معاملہ جیسے یہ کہ ایک شخص اپنے سفر میں کبھی بھی ناکام ہو کر بھی آپ کو سجدہ کی جاتا ہے تو اس سے آپ کو سمجھنا چاہिए کہ وہ person ہمیں کچھ سیکھاتا ہے اور یہ ہی lesson ہے کہ ہم اپنے آپ کو بھی ایسے بنانے کی کوشش نہیں کرنا چاہیں جیسا کہ اس person کو بنایا گیا ہو
اس ٹرمپ کی ناکاموں پر چلی گئی روایات سے ابھری ہوئی پائیدار ماحول کیسے رہا؟ وہ لوگ جو ان کی صلاحیتوں کو اپنی اچھائی میں بدلنے پر زور دیتے ہیں وہ آج تک سچائیوں سے دور ہیں، پھر بھی لوگ ان کا استق巴ال کر رہے ہیں؟ اور اب یہ بات تو ایک حقیقت بن چکی ہے کہ وہ ہائی اسکلڈ ورکرز کے لیے زبانیں چٹا کر رہے ہیں جو ان کی خطرناک صلاحیتوں کا حوالہ دیتی ہیں؟ یہ ایک گھنے جال میں پھنسے ہوئے ہیں جن سے نکلنا مشکل ہوگا، لیکن اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ یہ جاننے میں بھی کوئی problem نہیں ہے کہ وہ لوگ کس طرح ہار گئے؟
امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے سفر کی ایک چھوٹی سی پوری بات پر فخر کرتے ہوئے تمام ناکامیوں کو ظاہر کر دیا ہے، یہ تو ایک جھیلوں سے بھر پھولے زبانیں ہیں جن کا مقصد ان کے سفر کی ناکامیوں کو بڑھانا ہے۔
جیسے جیسے وہ اپنے سفارت کاروں کو اس سے پہلے کے ملازمت کے ریزومے یا لنکڈان پر بھی فOCUS کر رہے ہیں، یہ ایک طویل لچकिलہ پڑ رہا ہے جس سے وہ اپنی ناکامیوں کو ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس سے ان کے سفر کی ناکامیوں پر فخر کرتے ہوئے دھلک چڑھ رہا ہے۔
میں ان کے لئے ایک علامہ بننا چاہूं گا، جسے وہ اس ناکامی پر فخر کر سکتے ہیں جنہوں نے ان کی ملازمت میں کچھ بھی نہیں کیا ہے۔
اس بات کی یقین نہیں کیا جا سکta hai کہ یہ پالیسی اس کے ناکامیوں کو چھپانے کی کیوشی ہوگئی ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ اس میں کچھ مزید اور تھروٹ ہوسکتا ہے۔
جس سے پہلے ایسا بھی ہوا تھا جب یہ پالیسی کا عارضی طور پر استعمال کیا گیا تھا اور اب وہ اس کو مزید زبردست بنانے کی کوشش کر رہتے ہیں۔
یہ بات یقین نہیں کہ یہ ان کمپنیوں پر صرف نقصان دہ ہوسکتی ہے جو ٹرمپ کی حمایت کر رہی ہیں، لیکن یہ بات بھی تھروٹ نہیں ہوگی کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ بھی نقصان پہنچایا جاسکتا ہے جن کی وہ اپنی صلاحیتوں کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
اس طرح کی ایسے اقدامات ہوتے تو لگتا تھا کہ وہ صرف ایک معاملے پر مرکوز رہے گئے، پہلی بار سیکھا جاتا ہے کہ یہی نہیں بلکہ اس کا منظر بھی بدلتا ہے جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ اپنی بات کو چالانے کے لیے ایسا کیا جاسکتا ہے اور اس سے پہلے بھی اس کا اندازہ لگایا گیا تھا کہ یہ کیسے کام کریں گے۔
امریکی صدر کا یہ فیصلہ تو بالکل نا موزوں ہے، وہ یہ کہتے ہیں کہ ایسی زبانیں جو خطرناک ہیں ان کو چھوٹی چھت پر رکھ کر جائزہ لیا جائے گا، اور اب یہ سچ ہو گیا ہے کہ وہی زبانیں جو اس کی خطرناک صلاحیتوں کا حوالہ دیتی ہیں اب بڑھتی جا رہی ہیں، یہ تو ہمیشہ سے آج تک ہوتا ہے۔ اور اب ان سفارت کاروں کا یہ فیصلہ تو بھی نا موزوں ہے کہ وہ اپنے سفر کے ریزومے یا لنکڈان پر بھی جائزہ لیا جائے گا، یہ ایسا فیصلہ ہے جو کسی کی ملازمت میں ناکامی کو زیادہ کم کر دے گا۔
امریکی صدر کی یہ نئی پالیسی ان لوگوں پر ٹپنی لگا رہی ہے جو کمپنیز میں کام کرتے ہیں اور وہ بھی اس بات سے کچھ متاثر ہوں گے جو تریخ سے آئی ہوئی ہے. ایسے سے ٹرمپ نے اپنی پالیسی کو یہ دکھایا ہے کہ وہ ہائی اسکلڈ ورکرز کے لیے بھی ایسے سے دباؤ میں رکھنا چاہتا ہے جو اب تک نہیں رکھا گیا تھا. مگر یہ سوال ہے کہ ان لوگوں کو اس بات سے کیسے نمٹایا جائے گا جو اس پالیسی کے تحت محرک بننے والی دھمکیوں میں ہیں. یہ پالیسی ایسے سے ہے کہ اس کے نتیجے کو دیکھتے ہوئے لوگ اس پر کہیں بھی بات کرنے لگتے ہیں.
اسٹار ووڈ کی نئی اور پرانے جیسے ایسا ہی چل رہا ہے جیسا کہ میرے سامنے ہمیشہ تھا، یہ ہمیں اس بات کو بھی یاد دلاتا ہے کہ شہروں میں زبانیں پھیلتی جاتی رہتی ہیں اور اب ہو گئی ہے کہ ان پر کوئی بات نہیں چل سکتی، جیسا کہ امریکی صدر ٹرمپ نے اس طرح کی زبانیں ایسے ہی چٹا دی ہیں جو اب سے بھی خطرناک ہو رہی ہیں اور اس کے ناقدین انہی کمپنیوں پر توجہ مرکوز کررہے ہیں جن کی حمایت ٹرمپ نے کی ہے۔ یہ تو ایک بار پھر اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ زبانیں سڑکوں پر چلتی رہتی ہیں اور ہمیں انہیں روکنا بھی مشکل ہو جاتا ہے...
ایسا نہیں چلو کیا وہ لوگ جو کہنے والے کے اس حکم کو اچھا نہیں سمجھتے ان کا کہنا ہو گا کہ یہ بھارتیوں کی زندگی تباہ کر دے گا؟ وہ لوگ جو اپنی زندگی میں ملازمت پر چل رہے ہیں ان کے لیے یہ ایک بڑا خطرہ ہوگا، کیونکہ اگر وہ جائزہ لیا نہیں پاتے تو ان کی زندگی تباہ ہو جائے گی۔
یہ بات سچ ہے کیونکہ جب تک امریکی سفارت کار اپنی ملک میں کھڑے ہوں گے تو وہ اپنے وزیراعظم کا یہ حکم اپنا لے رہے گا، لیکن انہیں یقینی طور پر اس سے پہلے سوچنی چاہئے کہ یہ اسی وجہ سے ہوا کیا اور اس نے کس طرح ایک ناکام ملازم کی زندگی کو خراب کر دیا۔
امریکا کی یہ نئی سسی پوری تیزاب ہوچکی ہے، اسے سمجھنے کے لئے میں تو ایک چھٹی کو صرف ایک دن میں جائزہ لیا جائے گا، ایسا تو یقینی طور پر ناکامیوں کی سڑکیں تیز ہوچکی ہیں۔
یہ بات تو واضح ہے کہ امریکی صدر کی یہ کارروائی ایک وادھے کی بے رحمی کا مظاہر ہے، ان سے پہلے بھی نہیں تھا کہ کسی کو ایچ ون بی ویزا کی درخواست پر جائزے دینے پر ایسی تشدد کو جاننا پڑتا۔
اس کارروائی میں ایسے لوگوں کو بھی شامل کیا گیا ہوگا جو ابھی تازہ یمن ہیں اور ان کی فہرستوں پر جائزہ لینے سے پہلے اس سے قبل کوئی کوشش نہیں کی گئی ہوگی۔
اس بات پر ایک خاص توجہ دی جاتی ہے کہ ابھی تک یہ بات واضح نہیں تھی کہ کس طرح اس معاملے میں پالیسی بنائی گئی ہو، ایسا لگتا ہے کہ اس پر اس سے قبل کے ریکارڈوں کو بھی دیکھنا پڑے گا جو انہوں نے اپنے سفر کے دوران ایم ایل اے کی طرح سے پیش کیا تھا، جو ابھی تک اس بات کی واضح نشانی نہیں تھی کہ اس سے قبل کس طرح کوشش کی گئی ہوگی۔
امریکی صدر کی یہ وضاحت تو قابل احترام ہوگی لیکن ایسے صورت حال میں آگے بڑھنے والی زبانیں خوفناک ہیں! یہ سچ تھا کہ آپ نے کہا تھا کہ اس کی صلاحیتوں کا احترام کیا جائے گا، اب یہ دیکھنا ہی انفرادی سڑکوں پر چل رہے ہیں جو ان کو خطرناک بناتی ہیں!
امریکی صدر کی یہ فैसलہ تو ہر ایک کا دھنکا ہے، لیکن اس کے پچھلے نتیجے کو دیکھتے ہوئے یہ واضح ہی نہیں کہ کون سے کمپنیاں اس پر نقصان محسوس کریں گی؟ اور تھوڑا سا منظر دیکھتے ہوئے یہ کہ کیا ان ناکام نوجوانوں کو اچھی نئی ملازمت مل سکتی ہے؟ اس پر پریشانی یقینی طور پر رہتی ہے لیکن یہ بھی بات ہے کہ اب تک کی صورت حال سے اچھی نئی ڈرامہ دیکھنے کو ہم نے کیا ہے؟