کوئٹہ پولیس مقابلہ — تین خطرناک اغوا کار ہلاک، تاوانی وارداتوں کے بڑے گروہ کا خاتمہ — اسلحہ و گاڑی برآمد، دو ساتھی فرار - Daily Qudrat

فلمساز

Active member
پولیس اور مسلح افراد کے درمیان کوئٹہ میں ایک پریشانی خیز واقعہ ہوا جس میں تین خطرناک اغوا کار ہلاک ہوئے، جو نواب علی اور احمد سلطان کے نام سے شناخت دی گئی ہے، جبکہ تیسرا ملزم نادرا کی مدد سے تلاش میں لایا جا رہا ہے۔

اس واقعے کی تحقیقات کرتے ہوئے پولیس نے موقع سے بھاری اسلحہ اور وہ گاڑی برآمد کرلی جو مختلف تاوانی وارداتوں میں استعمال کی جاتی تھیں۔

پولیس کے مطابق ان تینوں افراد تین ایک منظم گروہ کے رکن تھے جنہوں نے کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سرگرم عمل تھا اور ان کے ہاتھ میں ایک لاکھ روپے سے ایک کروڑ روپے تک کے تاوان وصول کیے تھے۔

فائرنگ کے دوران دو اغوا کار فرار ہوگئے، جبکہ ایک پولیس اہلکار زخمی ہوا۔ اب تک انڈسٹریل پولیس اسٹیشن میں ایک مقدمہ اور جناح ٹاؤن میں دو مقدموں کا خاتمہ ہو چکا ہے۔

اس سلسلے میں سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس سیریس کرائم انویسٹی گیشن ونگ عمران قریشی نے بتایا کہ یہ واقعات تین ایک منظم گروہ کے رکنوں کے ہاتھ میں تاوان وصول کرنے کی کوشش سے جڑے ہوئے ہیں، جو کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سرگرم عمل تھا۔
 
اس واقعے کی ایک بڑی سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ تین ایک منظم گروہ کے رکنوں کو کس قدر نامندگی میں پھنساتے ہیں ان کے ہاتھ میں تاوان وصول کرنے کی کوشش سے ہی یہ واقعہ جڑا ہوا ، اور اب تک ایسا کبھی نہیں سنا گیا کہ پریشانی خیز واقعات میں پھنستے ہوئے لوگ ہلاک ہو کر آ جائیں ، یہ کہ انھیں تین ایک منظم گروہ سے وابستہ ہونے کی حالات اچھے نہیں تو۔
 
😬 یہ واقعہ کتنا خطرناک اور غمازدہ ہے، پلیس اور مسلح افراد کے درمیان لڑائی نتیجے میں تین ایک جھاڑا ہوا تو ہلاکتوں کی تعداد بڑھ گئی، اب تک جناح ٹاؤن میں دو مقدموں کا خاتمہ ہو چکا ہے، یہ بھی بات سچائی ہے کہ تین ایک جس کی جانب سے تاوان وصول کرنا تھا، لیکن لڑائی میں انھیں پلیس کے ہاتھوں شہید کردیا گیا ہے ۔
 
ایسے واقعات نہیں ہوتے تو یہاں انڈسٹریل پولیس کی سہولیات بھی نہ ہوتیں۔ پھر کیا ان لوگوں کو تاوان وصول کرنے کی اجازت دی جائے گی؟ پورے ملک میں مسلح ہونے والا ایسا سے نہیں ہوتا، یہ تو ہمارے ملک کے لوگوں کے لیے بھائی چارے کی بات ہے۔ ابھی ان کے گروہ کو پورا لاکھ روپے سے ایک کروڑ تک تاوان وصول کرنا، اور یہاں تو جلاوطن بن کر بیٹھ گئے ہیں۔
 
مرحوم شہزادہ نواب علی اور احمد سلطان کی پریشانی خیز وفات سے اس وقت تک کی نیند نہیں آ سکتی. یہ واقعہ ہوتے ہی ایک سوالات کا جتنا بھی جواب نہیں دیتا. کس نے ان تینوں افراد کو وہ اسلحہ اور تاوانیں فراہم کیں؟ اور کس طرح ان کے سرگرمیوں پر نظر رکھ کر انہیں پچھا بھیجا گیا؟ کہاں ہے اس گروہ کا قیام اور وہ سرگرمیوں کی منظم نیت? یہ سب کوئٹہ سمیت بلوچستان سے لے کر پاکستان کے دیگر علاقوں تک پھیلے ہوئے کچھ نہ کچھ کی گئی بات ہوگی.
 
تمہیں پتا ہونا چاہیے کہ یہ واقعات اس وقت کے کہاں بھی نہیں ہوتے کہ ایک گروہ جس کے رکن تین ایک منظم ہو کر سرگرم عمل ہیں، ابھی یہ بات سامنے اٹھائی جا رہی ہے کہ ان کے ہاتھ میں کتنے روپے تاوان ہیں؟ یہ چاہیے کہ پولیس نے بھی یہ بات پہلی بار بتائی ہو کہ ان رکنوں کے ہاتھ میں لاکھوں روپے تاوان ہیں؟ 😒
 
اس واقعے کی بے سائع گولیوں میں تین کروڑ روپے سے لاکھ روپے تک تاوان وصول کرنے والے اور پھر واپس ہاتھ میں آنے والے، پھر فिर گاڑی برآمد کرلی جانے والے ،اس سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ انڈسٹریل پولیس اسٹیشن میں ایک مقدمہ اور جناح ٹاؤن میں دو مقدموں کا خاتمہ، اور تین ایک منظم گروہ کے رکنوں کے ہاتھ میں تاوان وصول کرنے کی کوشش سے جڑے ہیں، مگر اب تک کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سرگرم عمل تھا۔
 
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان تینوں کھلوساروں کو اپنے معاملات سے خلاصی نہیں دکھائی دی، اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوتے تو اب انڈسٹریل پولیس اسٹیشن اور جناح ٹاؤن جیسے مقامات پر مظالم نہیں ہوت۔
 
اس واقعے کی پوری تشریح نہیں کر سکتا کیونکہ یہ بہت گہرا مظالم ہے اور اس کا فائدہ لینے والوں کو ان کا نام بتایا گیا تو ہی نہیں، تاہم اگر یہ بات سمجھ لی جائے کہ ایسے واقعات کی پوری تشریح دوسرے لوگوں سے نہیں ملا سکتا، تو اسے مندرجہ ذیل قرار دیا جا سکتا ہے کہ بلوچستان میں ایسی سے واقعات کی پوری تشریح صرف وہی کر سکتا ہے جو ان واقعات سے جودہ ہوا ہو اور ان کے ساتھ بھی اس طرح کے واقعات کا سامنا کر چکا ہو، اس لیے یہ بات تو واضح ہے کہ بلوچستان میں ایسی تاوانی گریمیوں کی پوری تشریح صرف ان لوگوں سے نہیں ملا سکتی جو ان واقعات سے جودہ ہوا ہو، جیسا کہ میں یہ کہتا ہوں گا کہ وہ لوگ جن سے بات کی جا رہی ہے ان کو پوری دیکھنا نہیں چاہئے بلکہ صرف ان کی بات کو سمجھنے والوں کے لیے ہی اہمیت ہو گی، اس لیے اس واقعات میں بھی یہ بات تو واضح ہے کہ وہ لوگ جو اس سلسلے کی پوری تشریح کر رہے ہیں ان کی بات کو سمجھنے والوں کو ہی اہمیت حاصل ہے، 😐
 
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان تینوں اگوا کاروں نے کتنی پریشانیوں سے باہر آئے تھے اس سے پہلے کہ وہ کوئٹہ میں ہلاک ہوئے… میرا خیال ہے کہ وہ ان کے سامنے بہت سی چیلنجز ہوگئیں تھیں… جیسے جس کی لڑائی میں آٹھ گولے چلے پائے، ابھی تک کے حالات اس بات کو ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ تین اگوا کار کیسے ان منظم گروہوں میں شامل ہوئے؟
 
یہ واقعہ تو چنتہ کار ہے جب ٹریفک پریشانی سے بھاگتے ہوئے گاڑیاں دوسرے کی طرف لگاتی ہیں، لیکن یہ واقعہ تو بہت خطرناک ہے جب تینوں لوگوں کو ایک ساتھ ہلاک کر دیا جا رہا ہے، اس کے بعد بھی نادرا کی تلاش میں لایا جا رہا ہے۔

میں سوچتا ہوں کہ یہ واقعہ تو ایک جملہ سے زیادہ ہے، اس گروہ کی سرگرمی کا کوئی معیار نہیں ہے جو وہ کیا کر رہے ہیں، وہ لوگ پوری دنیا کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں، اس لیے پولیس کو ان کی تلاش میں اور ان کے ساتھ ہونے والے واقعات کو توڑنا ضروری ہے۔

اس بات پر تفرقہ نہیں ہے کہ یہ گروہ ہر جگہ جاتا ہے اور لوگوں کو پریشانی پہنچاتا ہے، ایسے مظالم سے بھی نکلنا چاہئیں جو یہ لوگ وہاں لاکر فرار کر دیتے ہیں۔
 
ایسا کیا کرتے ہیں؟ پوری کوشش کے بعد بھی ان تینوں کے بارے میں کوئی نتیجہ نہیں آ رہا، اب انڈسٹریل پولیس اسٹیشن اور جناح ٹاؤن میں مقدموں کی تعداد بڑھ گئی ہے!
 
واپس
Top