وزیرِ اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے بڑی بات کہہ دی - Daily Ausaf

سائبر ساتھی

Well-known member
اس کہیں ہم دیکھتے ہیں کہ وزیرِ اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے بڑی بات کی ہے، اور اس بات کو سمجھنا ہمیں ضروری ہوگا کہ انہوں نے کیا کہا اور کس طرح انہوں نے اپنی بات کی ہے۔

انہوں نے بتایا ہے کہ استنبول میں چار روزہ مذاکرات متوقع نتیجہ تک نہ پہنچ سکے، اور ان کی وجہ یہ ہے کہ افغان وفد نے بنیادی مسئلے سے ہٹ کر بحث کو ہٹانے کی کوششیں کیں تاکہ معاملہ حل نہ ہوسکے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ پاکستان نے اپنی پالیسی واضح کی، اور اس میں افغان سرزمین کو دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے استعمال ہونے سے روکنے کا ایجنڈہ شامل تھا۔

لیکن ان شواہد پر افغان فریق نے کوئی حتمی یقین دہانی یا عملی عزم موصول نہیں کیا، اور اس لیے بات چیت فوری طور پر مسئلے کا حل فراہم کرنے میں ناکام رہی۔ انہوں نے بتایا ہے کہ افغان وفد نے بنیادی نکتے سے ہٹ کر بحث کو موڑنے کی کوششیں کیں، جو نتیجے میں رکاوٹ بنی۔

عطا اللہ تارڑ نے قطر اور ترکی کی ثالثی اور کوششوں پر خصوصی شکریہ دی ہے، اور ان ممالک کی بین الاقوامی ثالثی کو عملِ صلح کے لیے مثبت قرار دیا ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ حکومتِ پاکستان کا مقصد افغان عوام کی فلاح و بہبود اور دونوں ملکوں کی سلامتی ہے، اور وہ خطے میں دیرپا امن کے لیے اپنا کردار جاری رکھے گی۔
 
یہ کہنا ہے کہ استنبول میں چار روزہ مذاکرات سے بعد پاکستان نے ان شواہد پر اپنی پالیسیوں کو تبدیل کرنا ہوگا، لیکن اس پر اب تک جواب نہیں آئا، اور پتا چلا گیا کہ ایسے صورت حال میں بات چیت ناکام رہتی ہے جب ایک طرف سے ہٹ کر بحث کو موڑنے کی کوشش کی جائے۔
 
اس بات پر تو انہیں ہمدردی ہے کہ چار روزہ مذاکرات میں نتیجہ نہ مل سکا، لگتا ہے اس کو حل کرنے کا یہ سبسٹیٹیوول ذمہ داری بھی ہے جسے اچھی طرح سمجھنا چاہیے۔ افغان وفد نے بنیادی مسئلے سے ہٹ کر بحث کو ہٹانے کی کوشش کی، یہ تو ایک بڑی غلطی ہے، آج کے وقت بات چیت ایسا ہونا چاہئے جس سے کچھ بھی نہیں ٹھیک ہوگا، اس لیے کیے گئے تمام کوششوں کی پیداوار کو سمجھنا ہے۔
 
عطا اللہ تارڑ کی بات پر ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے یہاں افغان وفد کی جانب سے موقوع پہنچنے کی کوشش کو دیکھا ہے، لیکن وہ اپنی بات کی اور چار روزہ مذاکرات میں نتیجہ نہیں تھمایا۔ اگر افغان وفد نے بنیادی مسئلے کو حل کرنے کا جوش دیکھا ہوتا تو ممکنہ طور پر بات چیت کی طرف ایک اہم مोड تھا۔ لेकिन اب یہ سوچنا مشکل ہو رہا ہے کہ آئیے کیا اس معاملے میں کوئی حل ممکن ہے؟
 
استنبول کی بات بہت گंभیر ہے، یہ بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ ہم نے پہلے سے ہی بتایا تھا کہ بات چیت میں جس معیار پر انٹرنیشنل کنونشن کی بنیاد رکھی گئی وہ بھی اس بات پر مبنی تھا کہ افغان سرزمین کو دہشت گردانہ کارروائیوں سے بچایا جائے گا۔ لیکن آج تک اسی معاملے کی بات نہیں ہوئی، اس پر توہمات پھیل رہے ہیں اور دوسرے ممالک کے ساتھ بدشہ ملوث ہونے کا بھی امکان ہے۔ قطر اور ترکی کی ثالثی پر شکریہ دی گئی، لیکن یہ بات بھی سمجھنی چاہیے کہ ان ممالک نے جس معاملے میں اپنا کردار ادا کیا وہ بھی انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔
 
ایسے تو ایسے افغان فریق کو ہمیں بات چیت سے پہلے بھی ہٹنے کی چانس دی جائے تو کیا نتیجہ ہوتا؟ انہوں نے تو ایسی ہی بات کہی جو آپ کے ذہن سے لگ رہی ہے تاکہ ہمیں بھی ہٹنا پڑے۔ اور ان کی یہ کوشش کس قدر Effective رہی جس کی وجہ سے بات چیت ناکام ہوگی؟
 
اس ماحول میں سماجی پریشانیوں سے نکلنے کی مشکل ہے ، ہم سب کو اپنی زندگیوں کا مقصد تلاش کرنا پڑتا ہے، اور ایسے موقع پر یقین رکھنا چاہیے کہ صحت مند رشتے بنائے جا سکتے ہیں ، لہذا افغان وفد نے اپنے معاملے میں اس طرح کی سوچ کو چھوڑ دیا، جس کے نتیجے میں بات چیت آئی نہیں ہوسکے۔
 
واپس
Top