خالد بن ولید پر بننے والی نئی تاریخی فلم، عرب سینما کی سب سے بڑی پروڈکشن - Daily Qudrat

تتلی

Well-known member
خالد بن ولید پر بنی فلم 'دی اَن بروکن سورڈ' نے عرب دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، جس میں ساتویں صدی کے جنگی لباس اور سامان کی باریک بینی سے تیار کرنا شامل ہے۔ فلم کی ہدایت کاری ہالی ووڈ کے مشہور ڈائریکٹر علی ق sokھاروف نے لی ہے، جو ’گیم آف تھرونز‘ اور ’اوزارک‘ جیسے بڑے پروجیکٹس پر کام کرچکے ہیں۔

اس فلم کی نشاندہی سے قبل سعودی وژن 2030 کا مقصد ملک کی فلمی صنعت کو عالمی معیار تک پہنچانا اور ایسی پروڈکشنز تیار کرنا ہے جو عالمی سطح پر سعودی عرب کی شناخت بن سکیں۔ ان میں سے ایک یہ فلم ہے جس نے عرب دنیا میں بننے والی سب سے بڑی اور مہنگی فلمی پروڈکشن قرار دیا گیا ہے۔

فلم کی مرکزی کہانی خالد بن ولیدؓ کی عسکری زندگی کے گرد گھومتی ہے، خصوصاً جنگِ یرموک جیسے فیصلہ کن معرکے پر، جس نے اسلامی تاریخ کا رخ موڑ دیا تھا۔ خالد بن ولیدؓ اپنی جرأت، حکمتِ عملی اور مسلسل فتوحات کے باعث ’سیف اللہ‘ کے لقب سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔

جولائی 2025 کی رپورٹس میں یہ اشارہ تھا کہ آسکر نامزد اسکرین رائٹر رابرٹ روڈاٹ کسی مرحلے پر سعودی فوج پر مبنی فلم سے وابستہ رہے، تاہم اس کی حتمی تصدیق فی الحال موجود نہیں ہے۔

فلم کی شوٹنگ کے لیے نئے تعمیر شدہ الحِصن بگ ٹائم اسٹوڈیوز اور قادیہ اسٹوڈیوز کا انتخاب کیا گیا ہے۔ پروڈکشن کا اسکیل اتنا بڑا ہے کہ اسے رِڈلے اسکاٹ کے تاریخی شاہکاروں کے برابر قرار دیا جا رہا ہے، جہاں بڑے پیمانے پر سیٹ کی تعمیرات، جدید ویژول ایفیکٹس اور بلند درجے کے ایکشن مناظر شامل ہیں۔
 
کیوں کیوں اس فلم کو ایک ایسا پروجیکٹ بنانے پر فokus کیا گیا ہے جس میں سب سے پرانی جنگی لباس اور سامان کا استعمال کیا جائے گا? یہ ریسپانس فی الحال عالمی معیار کے بارے میں بہت کم ہے، سعودی عرب نے کچھ کیا ہے یا تو سترہویں صدی کے ٹریکنگ فلمز کی واپسی پر ایک نواے دور کا آغاز کرنا چاہتے ہیں؟ 😒
 
اس فلم کو بنانے کا یہ منصوبہ تو ایک نیا دور ہوگا، لیکن اس کی تیاری میں اسے ایسی اہمیت دی گئی ہے جس سے دوسرے ممالک کو بھی ترغیب ملے گی کہ وہ اپنی فلمی صنعت کو زیادہ ترقی کا راستہ دیکھنے کی کوشش کریں۔

ابھی ہالی ووڈ کا ایک بڑا نامaliہ یہی فلم پر کام کر رہا ہے اور اب اس کی شوٹنگ کے لیے نئے اسٹوڈیوز کی تعمیر ہوئی ہے، جس سے اس کی منصوبہ بندی میں بھی ایک تبدیلی آ گئی ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ فلم کی مرکزی کہانی یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اب اس پر کام کرنے والے ایک نوجوان screenwriter ko bhi apne آپ سے پوچھتے ہیں، کیا یہ ایک خطرناک منصوبہ ہے؟
 
عرب دنیا میں ایسے فلموں کی تعداد کم ہوتی چلی گی، جیسا کہ اس فلم میں بھی ہوئی جو خالد بن ولیدؓ کی زندگی پر مبنی ہے، ایک ایسی فلم جس نے عرب دنیا میں سب سے بڑی اور مہنگی پروڈکشن قرار دیا گیا ہے! یہ فلمی صنعت کو عالمی معیار تک لے جانے کے لیے سعودی وژن 2030 کا مقصد ہے، اور ایسی فلموں کی ضرورت نہیں ہے جو صرف فوجی تاریخ پر مبنی ہوں! اسکالر منظر بنانے، دیر سے رننگ کا احاطہ، اور زیادہ سے زیادہ ایفیکٹس شامل کرنا ہوتا ہے، لیکن جب تک ان میں معقولیت بھی شامل نہیں ہوتی تو یہ سب سچے فلموں کو نقصان پہنچاتا ہے!
 
اس فلم کو بنانے والوں کو بڑا شکر ہے! انھوں نے عرب دنیا میں ایسا کیا ہے جس سے پوری دنیا کا دیکھ بھال کرنے لگ رہی ہے۔ اس فلم کی بناوٹ 7ویں صدی کے جنگی لباس اور سامان کی باریک بینی سے ہو رہی ہے، جو عرب دنیا کی تاریخ اور ثقافت کو دیکھنے والوں کے لیے ایک نیا تجربہ فراہم کرے گی۔

اس فلم میں ڈائریکٹر علی ق سوقھاروف نے اپنا Talent Showcase کیا ہے، جس کی ڈائریگ کو دیکھتے ہی آپ ’گیم آف تھرونز‘ اور ’اوزارک‘ جیسے بڑے پروجیکٹس سے اچھا لگتا ہے۔ اس فلم کی مرکزی کہانی خالد بن ولیدؓ کی عسکری زندگی کے گرد گھومتی ہے، جس نے اسلامی تاریخ میں ایک بڑی کردار ادا کیا۔

اس فلم کو بنانے والوں کو اس پر کام کرنے والے ایسی ٹیم کی شہرت مل گئی ہے جو عرب دنیا میں ساتویں صدی کے جنگی لباس اور سامان کو بنانے میں بھی ماہر ہیں!
 
😍 یہ فلم پوری دنیا کو انسپائر کرے گی، سب سے زیادہ لگنوں والی اور سب سے بڑی فلمی پروڈکشن کے طور پر اس کی جانب دیکھنا ہی چاہئے! خالد بن ولیدؓ کی عسکری زندگی ایک اچھی مٹی ہے، سب سے زیادہ لگنوں والی فلم یقیناً ہوتی ہے؟ 🤩
 
یہ فلم دی اَن بروکن سورڈ بہت promising دے رہی ہے، خالد بن ولید کی عسکری زندگی کا قصہ اپنی قدر سے سنایا جا سکتا ہے 🎥 . اس فلم میں Ali Q Sokharov ki direction ہوگی جس نے Game of Thrones اور Ozark جیسے projects par kaam kiya tha, وہ ایک talented director ہیں جس نے war epics ko ek alag level pe laya tha. فلم کی production scale بھی بڑی دکھائی دے رہی ہے، یہ film world level par recognition mil sakti hai Saudi Arabia ki. 🌟
 
اس فلم کو بنانے کا اس منصوبے نے عرب دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز کرنے کا منصوبہ بنایا ہے اور یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ دوسرے ملکوں میں بھی انسپریشن لینے والی فلمی پروڈکشنز بن سکیں گی، اس کی ناکامی یہ ہوگئی ہے کہ اسے ایسی فلم بنانے کا منصوبہ بھی بنایا ہے جو دنیا بھر میں عالمی سطح پر پہنچ جائے اور ملک کی فلمی صنعت کو عالمی معیار تک پہنچائے، یہ بھی بات یقینی ہے کہ اس کے لئے ایسی عالمی سطح پر مشہور ڈائریکٹرز کی ضرورت ہو گی اور ان میں سے پہلے ایک ہالی ووڈ کی مشہور ڈائریکٹر علی ق Sokhroff کا انتخاب کرنا تھا جو اس کی ہدایت کاری کر رہی ہے، حالانکہ اب تک اس پر کوئی نتیجہ مل چکا ہے اور اس کے لئے آگے بڑھنا ایسا نظر رہا ہے جیسے یہ فلم دنیا میں سب سے پہلے بننے والی سب سے بڑی اور مہنگی فلمی پروڈکشن قرار دی گئی ہو۔
 
اس فلم کو بنانے والوں کو یقین تھا کہ یہ عرب دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز کرے گا اور اس کی ہدایت کاری ہالی ووڈ کے علی ق sokھاروف نے جس سے انہیں اپنے پروجیکٹس میں واضح ثمر حاصل ہوئی، لیکن اب یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ اس فلم کو بنانے والوں نے عرب دنیا کی تاریخ اور ثقافت کو کس طرح احترام سے لیتے ہوئے کام کیا ہے؟ سب سے بڑی اور مہنگی فلمی پروڈکشن بنانے پر اسے کیسے کام کرنا پڑا؟

اس سلسلے میں کہیں ایسا نہ ہو گا جس سے لوگ یہ سوچنے لگئے کہ اس فلم کو بنانے والے عرب دنیا کی فلمی صنعت کو عالمی معیار تک پہنچانے میں کامیاب ہو سکیں گے؟
اس طرح کی بڑی پراجیکٹس اور ان کی پیش کشی تو اس کی شاندار منظر سازی اور اپریل 2025ء کو دکھائی دئی جائے گی، لیکن ابھی تک اس کا یہ सवाल ہے کہ یہ سب کیسے باکس آفس پر کس طرح اثرانداز ہو گئے؟
 
اس فلم کو دیکھنے والوں کو ایسی وIZION پر رلنا چاہئے جو عرب دنیا میں اب تک نہیں دیکھی گئی ہے۔ یہ فلم ساتویں صدی کے جنگی لباس اور سامان کی باریک بینی سے ٹپنے والی ہوگی، جس سے دیکھنے والوں کو ایسی وIZION حاصل ہوگی جو صرف پرانے عرصے میں ہی موجود تھی۔ جب کہ سعودی وژن 2030 کا مقصد ملک کی فلمی صنعت کو عالمی معیار تک پہنچانا ہے، اس سے اس کے فٹور پر ایسی فلمی پروڈکشن تیار کرنا چاہئے جس نے عرب دنیا میں بننے والی سب سے بڑی اور مہنگی فلمی پروڈکشن قرار دیا گیا ہو۔
 
یہ فلم بننے کی گنجائش کچھ نہ کچھ ہو گی، کھوج سے پہلے اس پر کام کرنا ایسا تو ہی ملتا ہے۔ اب یہ بتایا جاتا ہے کہ ڈائریکٹر علی ق Sokhroov نے اس فلم کو کیا ہو گا، یہ بات تو چیلنج کر رہی ہے کہ ایک غیر عرب ڈائریکٹر ایسا کیسے کروے گا؟ ساتویں صدی کے جنگی لباس اور سامان کی باریک بینی سے تیار کرنا بھی ایسی بات نہیں جو کسی ڈائریکٹر کو آسانی سے آئے گی۔
 
اس فلم کو بنانے میں لگ رہا ہے بہت سا وقت، کیونکہ یہ صرف اسی طرح کی فلموں کو بناتے ہیں جو عرب دنیا کے فلموں کی شان و شہرت دیتے ہیں۔ میں یہاں تک کہا نہیں تھا کہ اس سے قبل بھیSaudi Vision 2030 کا مقصد کبھی نہیں آئیا ہگا؟ اور اب یہ فلم بننے والی سب سے بڑی اور مہنگی فلمی پروڈکشن کو دیکھ کر میں سوچتا ہوں کہ اب بھی ایسا لگ رہا ہگا کہ یہ فلم بننے میں 10 سال لگ جائیں گے؟ 🤔

اس دuniya میں ایسی چیزوں کی بھی تھیں جو اب نہیں ہیں، اور اب یہ فلم بننے والی سب سے بڑی اور مہنگی فلمی پروڈکشن میں ان چیزوں کی اہمیت کا نہیں پتہ اٹھایا جا سکتا تھا۔ مگر اب اس میں ایسا ہوا ہگا کہ ابھی بھی 10 سال لگنا نہیں پائے گئے، کیونکہ فلم بننے والوں کو اسی طرح کی فلموں بنانے کی تاقت ملاگی ہگا جو اس دuniya میں اب تک نہیں رہی۔

اور اب یہ فلم بننے والی سب سے بڑی اور مہنگی فلمی پروڈکشن میں ایسا ہوا ہگا کہ ابھی بھی اس کی ٹائٹل ڈائری نہیں لائی گئی، تھوڑا سا مینے دوسرے فلموں کو دیکھ لیا ہگا، اور وہ سب بھی ایسی چیزوں پر مبنی ہیں جو اس دuniya میں اب تک نہیں رہیں گے۔
 
ایسا نئے دور شروع کرنے والی یہ فلم ایک بڑا مشغول ہے، جس میں عرب دنیا کو دیکھنا ہوگا! اس فلم کی ہدایت کاری علی ق sokھاروف نے کی ہے اور اس کا مقصد سعودی وژن 2030 کے تحت ملک کی فلمی صنعت کو عالمی معیار تک پہنچانا ہے۔ یہ ایک بڑی چیلنج ہے لیکن میں اُس کی کوششوں سے ناقابل خوف ہوں گا! فلم کی شوٹنگ کے لیے نئے تعمیر شدہ اسٹوڈیوز کی تعمیر کرنے اور بڑی پیمانے پر سیٹ کی تعمیرات اور جدید ویژول ایفیکٹس کے ساتھ عالمی سطح پر اس کی موجودگی کو یقینی بنانے کا یہ منصوبہ دوسرے سب سے بڑی فلموں جیسے رِڈلے اسکاٹ کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے!
 
یہ فلم اپنے لیے ایک نئا دور شروع کر رہی ہے، اس کے بعد سے عرب دنیا میں فلمی صنعت کا رواج بڑھنا ہوگا، یہ فلم سے شائقین کو محنت و مشقت دیکھنے کی ہمدردی ہوگی
 
اس فلم کی بننے والی ٹیم کو یہ سوال ہوتا ہے کہ وہ اس طرح کے پرانے لباس اور سامان کیسے استعمال کریں گے؟ ہالی ووڈ میں اب ایسے فلمیں بنانے کی روایت نہیں ہے جس میں دھنڈوتا کی چالوں کے ساتھ جھگڑا لگتا ہو۔ لیکن ان کی طرح سے فلم بنانے والی ٹیم نے یہ تجربہ کیا ہو گا?
 
عرب دنیا میں یہ فلم بلاشک کو جسم دینا ہوگیا ہے، خالد بن ولید کی حقیقی زندگی کس طرح ان کی توجہ میں آئی؟ اس فلم میں اسے ایکSuperhero بنایا گیا ہے؟

اس فلم کو ناکام بنانے کی بھی کوشش کی جائے گی، ان کی فتوحات اور جرأت کی حقیقی تاریخ نہیں بتائی گئی? سیکنڈر ہدایت کار Ali Qosrow نے اس پر کام کیا ہوگا؟

سعودی وژن 2030 نے کیسے یہ فلم بنانے کی کوشش کی؟ کیسے عالمی معیار تک ملکی فلمی صنعت پہنچائیں گے؟ اس فلم کو دیکھنا تو ایک تجربہ ہوگا، اور اس میں سے بڑی سے بڑی فلمی پروڈکشن کیسے بنائی جائے گی؟

اس پر کیا نظریہ لایا جا رہا ہے؟ کیا یہ فلمی صنعت کی عالمی سطح پر recognition پر غور کرنے کا ایک محض طریقہ ہوگا؟
 
ارب دنیا میں اس فلم کا آغاز کرنا ایک بڑا کارنامہ ہو گا، لیکن یہ دیکھنا ہے کہ کون سے اہم مقامات پر فلم کی نشاندہی سے پہلے سعودی وژن 2030 کے مقاصد کو ملایا گیا ہے یا نہیں؟

سعودی عرب کی فلمی صنعت کو عالمی معیار تک پہنچانے کے لیے ایسی بڑی اور مہنگی پروڈکشنز تیار کرنا ہے جیسا کہ اس کو یقینی بنایا جا سکتا ہے، ابھی تک کی رپورٹس میں یہ بات کہی گئی ہے کہ اس فلم نے عرب دنیا میں بننے والی سب سے بڑی اور مہنگی فلمی پروڈکشن قرار دیا گیا ہے۔

انچار میٹر کے مطابق، ایسکرو ٹوڈلز نے اس فلم کی پرفارمنس سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ انچار میٹر نے 2025 کے سال میں فلم کی پرفارمنس سے متعلق 120 رپورٹس جمع کی ہیں، جس کی وجہ سے اسے سب سے بڑی اور مہنگی فلم بنایا جا رہا ہے۔

فلم کی شوٹنگ کے لیے نئے تعمیر شدہ الحِصن بگ ٹائم اسٹوڈیوز اور قادیہ اسٹوڈیوز کا انتخاب کرنا ایک بڑا کارنامہ ہے، حالانکہ یہ بات متعین نہیں ہے کہ یہ ان چار اہم مقامات میں سے کون سیں ہیں۔

فلم کی پروڈکشن کا اسکیل اتنا بڑا ہے کہ اسے رِڈلے اسکاٹ کے تاریخی شاہکاروں کے برابر قرار دیا جا رہا ہے، جہاں بڑے پیمانے پر سیٹ کی تعمیرات، جدید ویژول ایفیکٹس اور بلند درجے کے ایکشن مناظر شامل ہیں۔

اس فلم نے عرب دنیا میں بننے والی سب سے بڑی اور مہنگی فلمی پروڈکشن کی حیثیت حاصل کرنا چاہی گئی ہے، لیکن اسے یقینی بنانے کے لیے اس پر ناکام ہونے کے امکانات بھی ہیں۔

فلم کی مرکزی کہانی خالد بن ولیدؓ کی عسکری زندگی کے گرد گھومتی ہے، خصوصاً جنگِ یرموک جیسے فیصلہ کن معرکے پر، جس نے اسلامی تاریخ کا رخ موڑ دیا تھا۔ خالد بن ولیدؓ اپنی جرارت، حکمتِ عملی اور مسلسل فتوحات کے باعث ’سیف اللہ‘ کے لقب سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔
 
اس فلم کی تیاری کے بارے میں پہلے سے ہو کر کچھ بات چیت کروائی جائے، تو یہ بات واضح تھی کہ اس کی پروڈکشن کو ایسی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے جو اسے ایک عالمی شہرت ملی ہو۔ لیکن ساتویں صدی کے جنگی لباس اور سامان کی باریک بینی کے ساتھ بننے میں اسے کچھ وقت لگنا پڑ گیا ہو گا، جس سے ان کی معیشت پر بھی یہ دباؤ ہوا ہو گا کہ اُن کو ایک منصوبہ بنانے کی اجازت ملنی ہوگی۔ اس کی بجائے، انہیں سندھی سے بھرپور فلمی صنعت کی دیکھ بھال کرنا پڑے گا جو نئے دور میں اپنے مقام کوSecure کر رہی ہو.
 
واپس
Top