خواتین کا قومی دن!درجنوںجیلوں‌میں‌قید

سورج مکھی

Active member
اسرائیل کی جانب سے جاری دہشت گردی کے دوران فلسطینی خواتین کے لیے ایک بدترین دن ہے، اس نے ان خواتین کو جیلوں اور تفتیشی مراکز میں بھی تناپ دیا ہے۔ جس نے انہیں وہی حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو دہشت گردی کے دوران فلسطینیوں کو ہوا تھی، یہ خواتین قیدیوں کی ایک بدسلوکی اور تشدد سے بھرپور ماحول میں رہتی ہیں۔

خواتین قیدیوں کا حال اب بھی وہی ہے جس نے فلسطینی خواتین کو 1948 میں اسرائیل کی بناوٹ پر لانے کے بعد سے تناپ رکھا تھا، اور یہ حالات اب بھی بدتہر ہیں جس نے 7 اکتوبر 2023 کو غزہ میں اسرائیل کی جانب سے جاری نسل کشی کا آغاز کیا تھا، اور یہ حالات اب بھی فلسطینی خواتین کو جیلوں اور تفتیشی مراکز میں قید میں رکھتے ہیں۔

سوسائٹی کے مطابق یہ حالات فلسطینیwomen کے لیے ایک ناقابل تصور خطرہ ہے، اور یہ خواتین قیدیوں کو جیلوں اور تفتیشی مراکز میں بدسلوکی اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہی سلسلہ جس نے فلسطینی خواتین کو 1948 میں اسرائیل کی بناوٹ پر لانے کے بعد سے تناپ رکھا تھا۔

فلسطینی قیدیوں کی سوسائٹی کے مطابق فلسطینی خواتین جسمانی طور پر اور نفسیاتی طور پر ہراساں کرائی گئی ہیں، اور یہ خواتین قیدیوں کو بھوک سے دوچک ہوئے ہیں، جو ان کی رائے میں جسمانی ہلاکت کا باعث بنتی ہے۔

سوسائٹی کے مطابق فلسطینی خواتین کو غزہ کے ایک علاقے میں رہنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی، اور وہاں کی معیشت کے لئے بھی انہیں سڑکوں پر آؤٹ کیا گیا ہے۔

سوسائٹی نے کہا ہے کہ فلسطینی خواتین کو جیلوں اور تفتیشی مراکز میں بھی تشدد، خوراک کی کمی، طبی سہولیتوں کا فقدان اور جسمانی تلاقی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور یہ تمام حالات فلسطینی خواتین کو ایک بدسلوکی اور تشدد سے بھرپور ماحول میں رکھتے ہیں۔
 
اس کا ایک بڑا خوفناک دھواں ہے، فلسطینی خواتین کو بھی اس طرح کی بدسلوکیوں سے نمٹنا پڑتا ہے جس نے فلسطینی لوگوں کو تناپ رکھا ہے؟ یہ ایک بہت بھرپور ماحول ہے جس میں خواتین قیدیوں کے ساتھ ساتھ دیگر فلسطینی خواتین کو بھی رکھا گیا ہے اور انہیں تناپنے کے لئے نہیں دیا جاسکتا ہے؟ 😕

فلسطینی خواتین کے ساتھ اس طرح کی بدسلوکیوں کو روکنے کے لیے ہمیشہ کی بات کرتے رہتے ہیں، لیکن اب تو یہ بھی پوری دنیا میں آ گیا ہے اور لوگ اس کی ایک نئی اہمیت دیکھنا شروع کر رہے ہیں، اور ہمارے ساتھ ہی یہ بھی کیا جاسکتا ہے؟

جب تک ان خواتین کو ایسے حالات میں نہیں رکھا جاتا جو انہیں تناپنے کے لئے پائے جاتے ہیں، اور جب تک ان کی حقوق کو بھی یہ سمجھا نہیں جاتا کہ وہ خواتین بھی اس معرکے میں شامل ہیں تو ہمیں ایسا کیا جاسکتا ہے؟
 
اس اسرائیل کی جانب سے جاری دہشت گردی میں فلسطینی خواتین کو سب سے زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے، انھیں جیلوں اور تفتیشی مراکز میں رکھا جاتا رہتا ہے، وہی حالات جو فلسطینیوں کو تو 1948 میں اسرائیل کی بناوٹ پر لانے کے بعد سے تناپ رکھیں گئیں تھیں اور اب بھی وہی بدتہر ہیں جس نے غزہ میں اسرائیل کی جانب سے جاری نسل کشی کا آغاز کیا تھا۔

ان خواتین کو جسمانی اور نفسیاتی طور پر ہراساں کرایا جاتا ہے، انھیں بھوک سے دوچک ہوئے ہیں، جو ان کی رائے میں جسمانی ہلاکت کا باعث بنتی ہے اور وہاں کی معیشت کے لئے بھی انہیں سڑکوں پر آؤٹ کیا گیا ہے۔

اس لیے فلسطینی خواتین کو ایک بدسلوکی اور تشدد سے بھرپور ماحول میں رکھتے ہیں، جہاں انھیں تشدد، خوراک کی کمی، طبی سہولیتوں کا فقدان اور جسمانی تلاقی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
 
اس اسرائیل کی جانب سے دہشت گردی کا درجہ کیا تھا، فلسطینی خواتین کو یہاں تک کے حالات بدتہر ہیں جو 1948 میں اسرائیل کی بناوٹ پر لانے کے بعد سے تناپ رکھا گیا ہے وہاں بھی سڑکوں پر آؤٹ کر دیا گیا ہے، اور یہ خواتین جسمانی طور پر اور نفسیاتی طور پر ہراساں کئے گئے ہیں۔
 
بہت پریشاں ہیں فلسطینی خواتین کے ساتھ، وہ جسمانی اور نفسیاتی طور پر بے حد آگے آئی ہیں۔ انہیں جیلوں اور تفتیشی مراکز میں رکھا جاتا ہے، اور وہاں کی معیشت کے لئے بھی انہیں سڑکوں پر آؤٹ کیا گیا ہے۔ یہ ماحول ایسا ہے جس میں کوئی بھی خاتون اپنی زندگی کو بھگتی نہیں سکتی، اور انہیں ایک بدسلوکی اور تشدد سے بھرپور ماحول میں رکھا جاتا ہے۔
 
ایسے بات چیت نہیں تو، فلسطینی خواتین کا حال جب تک یہ قیدیوں اور جیلوں کی دھہائی میں نہیں، وہ اپنی زندگی کو بھی پورا کرنے کی کوشش کر سکیں گی। ہمارے ایسے سہولت مند اور سماجی طور پر منظم معاشرے میں بھی نسل کشی اور جیلوں کی دہشت گردی کا سامنا ہوتا ہے، تو یہ بات تو چھوٹی ہے کہ فلسطینی خواتین کو جب تک انہیں اس سے نجات نہیں مل سکتی، وہ اپنی زندگی کا بھی اچھا استعمال کرنے کی کوشش کر سکیں گی۔
 
اس اسرائیل کی جانب سے جاری دہشت گردی کے دوران فلسطینی خواتین کو ایسا کیا گیا ہے، وہ اس وقت بھی ان کو یہی حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو وہ سب سے پہلے جسمانی طور پر اور نفسیاتی طور پر تناپ رکھنے والوں نے ان کو لانے کے بعد سے، یہ خواتین قیدیوں کی ایک بدسلوکی اور تشدد سے بھرپور ماحول میں رہتی ہیں جو انہیں ابھی بھی جیلوں اور تفتیشی مراکز میں قید میں رکھتے ہیں۔
 
یہ بتنا ہی نہیں تھا کہ فلسطینی خواتین کی زندگی اتنی ہی بدبھری ہو گئی ہے جو وہ پکڑی گئی ہیں، ان کو جیلوں اور تفتیشی مراکز میں بھی تناپ دیا جاتا ہے اور وہی حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو فلسطینیوں کو دہشت گردی کے دوران ہوتے ہیں۔ یہ بھی یقین نہیں ہے کہ وہ خواتین قیدیوں کی جسمانی اور نفسیاتی تلاقی کا ساتھ نہیں دیتے، ان کو بھوک سے دوچک ہوئے ہیں اور وہاں کی معیشت کے لئے بھی انہیں سڑکوں پر آؤٹ کیا گیا ہے۔ یہ تمام حالات فلسطینی خواتین کو ایک بدسلوکی اور تشدد سے بھرپور ماحول میں رکھتے ہیں، اور اس کی وجہ سے انہیں اپنی زندگی میں کوئی محسوس نہیں ہوتا۔ 🤕
 
😱 اسرائیل کی جانب سے جاری دہشت گردی کا جو کہدہ اس فلسطینی خواتین پر تھاپ رکھتا ہے وہ انہیں اب بھی توسیع سے بھرپور خطرہ ہے، وہ خواتین جسمانی اور نفسیاتی طور پر ہراساں کرائی گئی ہیں، ان کا راز سڑکوں میں آؤٹ کرنا پڑتا ہے اور ان کے ساتھ بھوک کی دوسری کی وجہ سے جسمانی ہلاکت ہوتی ہے، یہ سب ایک ناقابل تصور بدسلوکی ہیں جو فلسطینی خواتین کو تناپ رکھتی ہے۔
 
😨😕 فلسطینی خواتین کا یہ حال ہر سال دھکے لگتا ہے، انہیں جیل اور تفتیشی مراکز میں بھی تناپ دیا جاتا ہے، ان کو وہی حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو فلسطینیوں کو دہشت گردی کے دوران ہوا کر رہے ہیں। 🤕

فلسطینی خواتین کی سوسائٹی نے یہ بات بھی بتائی ہے کہ انہیں جسمانی طور پر اور نفسیاتی طور پر ہراساں کرایا گیا ہے، وہاں کی معیشت کے لئے بھی انہیں سڑکوں پر آؤٹ کیا گیا ہے، ان کو خوراک کی کمی اور طبی سہولتوں سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے। 🚫

اس لئے فلسطینی خواتین کو ایک بدسلوکی اور تشدد سے بھرپور ماحول میں رکھنے کا یہ حال بہت خطرناک ہے، انہیں اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کہ فلسطینیوں کو 1948 میں اسرائیل کی بناوٹ پر لانے کے بعد سے تناپ رکھا جاتا ہے، اس نے انہیں جسمانی طور پر اور نفسیاتی طور پر ہراساں کرایا ہے، اور وہاں کی معیشت کے لئے بھی انہیں سڑکوں پر آؤٹ کیا گیا ہے। 😔
 
اس situación پر گزارنے والا دھمaka ہوتا ہے۔ فلسطینی خواتین کو ایسا تو نہیں لگتا کہ انہیں قیدیوں کی اس بدسلوکی اور تشدد سے بھری دنیا میں رکھنا ہوتا ہے، جبکہ اسرائیل نے انہیں ایسا کیا ہے۔ وہی صورت حال جو فلسطینی لوگوں کو 1948 میں لانے پر پڑی تھی اور اب بھی وہی صورتحال ہے۔

اس کی ایک ناقابل تصور بات یہ ہے کہ فلسطینی خواتین کو جسمانی طور پر اور نفسیاتی طور پر ہراساں کرایا جاتا ہے، اور وہی سلسلہ جس نے انہیں 1948 میں لانے پر پڑا تھا، اب بھی اس صورتحال کو دیکھنا ہمara samajh me nahi aata.
 
اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسرائیل نے فلسطینی خواتین کو ایسا ہی محسوس کرنے کا بھی ایک انتظام بنایا ہے جس سے وہ یہاں تک پہنچتی ہیں جہاں وہ اپنی زندگی کو شروع نہیں کر سکتیں 🤯
 
واپس
Top