وہ واقعات جو ہمیں دیکھتے ہیں وہ ایک زخم ہوتا ہے جو معاشرے کی روح کو چیلنج کرتا ہے اور اسے خودکشی کے عمل سے بھرا ہوا دیکھتے ہیں جو ایمان، عزم اور اُمید کے خاتمے کی علامت بن جاتا ہے۔ اس پر پوسٹ میں لکھا گیا ہے کہ یہ وہ ہیں جو معاشرے کو دھونے والی آمسیڈ سٹوریز کی طرح نکل آتے ہیں جس میں انسان کو محض بھاگنے کا موقع دیتے ہیں۔
اسلامی نقطہ نظر سے خودکشی ایک سنگین اخلاقی اور روحانی گناہ ہے جو زندگی کی عطا کردہ امانت کو ختم کرنے کی علامت ہے۔قرآن میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ “اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو، بے شک اللہ تم پر مہربان ہے”(سورۃ النساء:29) اس آیت سے انسان کو یقین دلاتا ہے کہ لامحدت اللہ نہیں ہوسکتا بلکہ اس کی رحمت میں ہمیشہ ایمان کرنا چاہیے اور دنیا کی مصائب کے بعد ہمیشہ کی آسانی سے کام لینے کے لیے صبر کرنا چاہیے۔
پھر یہ سوال پوسٹ میں جاری ہوتا ہے کہ انسان کو ایسا کیسے مجبور کرنے پڑتا ہے؟ اور ان نفسیاتی مایوسی، جذباتی تنہائی اور روحانی خلا کی وضاحت کرتا ہے کہ جب انسان یہ سمجھ لیتا ہے کہ کوئی دروازہ نکلنے کے لیے کھول نہیں، کوئی روشنی باقی نہیں اور کوئی اس کے درد کو سمجھنے والا نہیں تو وہ جان دیتا ہے۔ پوسٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب انسان طاقت سے اس بات کو سمجھ لیتا ہے کہ کوئی دروازہ نکلنے کے لیے کھل نہیں اور وہ خودکشی کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے تو اس کے ذہنی انہدام کی علامت بنتی ہے۔
اسلام میں انسان کے دھکے اور درد کو بھی سمجھا جاتا ہے۔قرآن میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ “اللہ کی رحمت سے نااُمید نہ ہو، بے شک اللہ تمام گناہ بخشنے والا ہے”(سورۃ الزمر:53) اس آیت سے انسان کو یقین دلاتا ہے کہ مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ اللہ کی رحمت پر بھروسہ رکھنا چاہیے اور اس کی مدد مانگنے کی توفیق حاصل کرنی چاہیے۔
اسلامی نقطہ نظر سے خودکشی ایک سنگین اخلاقی اور روحانی گناہ ہے جو زندگی کی عطا کردہ امانت کو ختم کرنے کی علامت ہے۔قرآن میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ “اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو، بے شک اللہ تم پر مہربان ہے”(سورۃ النساء:29) اس آیت سے انسان کو یقین دلاتا ہے کہ لامحدت اللہ نہیں ہوسکتا بلکہ اس کی رحمت میں ہمیشہ ایمان کرنا چاہیے اور دنیا کی مصائب کے بعد ہمیشہ کی آسانی سے کام لینے کے لیے صبر کرنا چاہیے۔
پھر یہ سوال پوسٹ میں جاری ہوتا ہے کہ انسان کو ایسا کیسے مجبور کرنے پڑتا ہے؟ اور ان نفسیاتی مایوسی، جذباتی تنہائی اور روحانی خلا کی وضاحت کرتا ہے کہ جب انسان یہ سمجھ لیتا ہے کہ کوئی دروازہ نکلنے کے لیے کھول نہیں، کوئی روشنی باقی نہیں اور کوئی اس کے درد کو سمجھنے والا نہیں تو وہ جان دیتا ہے۔ پوسٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب انسان طاقت سے اس بات کو سمجھ لیتا ہے کہ کوئی دروازہ نکلنے کے لیے کھل نہیں اور وہ خودکشی کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے تو اس کے ذہنی انہدام کی علامت بنتی ہے۔
اسلام میں انسان کے دھکے اور درد کو بھی سمجھا جاتا ہے۔قرآن میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ “اللہ کی رحمت سے نااُمید نہ ہو، بے شک اللہ تمام گناہ بخشنے والا ہے”(سورۃ الزمر:53) اس آیت سے انسان کو یقین دلاتا ہے کہ مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ اللہ کی رحمت پر بھروسہ رکھنا چاہیے اور اس کی مدد مانگنے کی توفیق حاصل کرنی چاہیے۔