عبدالکریم کے جوتے اورآئین | Express News

عقلمند

Well-known member
ابدالکریم کی جوتیاں اورآئین کے بارے میں وہ بات جو فیض احمد نے ایک ایسے فسانے سے سارے کالموں میں جس کاذکر نہ تھا پھیلائی ہوئی ہے، اس کے بارے میں لکھنے والے کو کہنا ہوتا ہے کہ وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے جو پہلی جگہ ریکارڈ کی گئی تھی۔

ابدالکریم کے جوتوں کی کہانی ایسی ہے جس میں جوتے بھاری ہو جاتے اورگھسیٹنے میں مشکل ہوجاتے، یہ کہانی ایسی ہے جس کا خاتمہ نہیں پہچانا جا سکتا۔

ابدالکریم جو ایک بڑا کنجوس آدمی تھا، اس نے اپنے جوتوں کو ایک جدوجہد کا شکار بنایا ہے جو ابھی تک جاری ہے۔

ابتدائی مراد کی حکومت میں بھی یہ سلسلہ ٹرامیم اور ضیاء الحق کے زمانے میں بھی اسی سلسلے کی تکرار کی جارہی ہے، پھر بھی مولانا بجلی گھر نے کہا ہے کہ آئین عبدالکریم کے جوتوں کو شوق سے بنایا جائے بلکہ خیال رکھا جائے کہ آئین اس کی نہیں ہو سکتی۔

انجھے جوتوں کے بعد ان کے ساتھ ہے ایک دوسرا یہ شواہد یہ کہ آئین میں ترامیم بنائی گئی ہیں جو شوق سے نہیں کی جاسکیں۔
 
مرحوم فیض احمد نے ایسا فسانہ کھول دیا ہے جس سے پورے ملک میں لہر آ گئی ہے، اس نے آئین کی بات کرنی شروع کی ہے جو ابھی تک ایک طاقتور موضوع رہی ہے۔ پہلی جگہ سے ریکارڈ کی گئی تھی تو اسے ناگوار محسوس ہوا اور اب نہیں تو اس کا خاتمہ بھی پہچانا جا سکتیا۔ ابدالکریم کے جوتوں کی کہانی ایسی ہے جو تیز ہوتی رہتی ہے اور اسے ختم کرنے کا کوئی Means نہیں پاتا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک کنجوس adam jee bada tha abdalkareem jisse apne joote ki ek nazar banai hai jo abhi tak jari hai.

ترامیم اور ضیا الحق ka samay mein bhi yeh salahha series repeat hui hai, lakin molana bajrangi ghara ne kaha tha kyunki aina Abdullah kareem ke joote ko shukar se banaya jae aur khyaal rakhein ki aina uski nahi ho sakta.
 
یہ بات بہت عجیب ہے، پہلی بار آئین کی ریکارڈ کی گئی تھی تو ایک بات بہت ناگوار گزری، ابدالکریم کے جوتوں کی کہانی اچھی نہیں لگتی ۔

ان سلسلے کی ٹرامیم اور ضیاء الحق کے زمانے میں بھی وہی تکرار ہوئی، پھر بھی مولانا بجلی گھر نے یہ بات کہی ہے کہ آئین ان کی نہیں ہوسکتی۔

شواہد یہ کہ آئین میں ترامیم بنائی گئی ہیں، پھر بھی وہ بات سچ ہو رہی ہے کہ آئین کی شوق سے نہیں بنایا جا سکتا۔
 
جی تو یہ بات بھرپور تھی، ابدالکریم کے جوتوں کی کہانی میں اس طرح کی عمیقیت اور ترمیمیں ہیں جو مولانا بجلی گھر کو لازمی بن رہی ہیں۔ آئین کی صورت میں یہ شواہد پرانا ہے، لیکن اب کبھی نہ کبھی اس پر تبصرہ کرنے والا ہوتا رہتا ہے۔
 
بھی ہر ایسا نہیں کہ ابدالکریم کی جوتوں کی یہ بات ہے۔ ان کے جوتوں کو شوق سے بنایا جا سکتیا تھا، اور ان کی کہانی ایسی ہی ہو سکتی ہے۔ مگر ابتھا نہیں کہ ملوث لسانیات ہم یہ کہتا ہیں کہ آئین کی ترامیم شوق سے بنائی گئی ہیں؟ یا کہتے ہیں کہ اس نے شوق سے نہیں کی جا سکتی? یہ بات تو کہنی پڑ جاتی ہے مگر دھینا پھول کھانے والوں کو واضح ہونا چاہیے کہ آئین کی ترامیم بننے میں شوق سے بنائی جا سکتی ہیں؟ 🤔
 
ابتدالکریم کی جوتیاں اور آئین کی بات تو کچھ نا بہت سمجھ میں آئی، میرے لئے یہ بات تھی کہ جوتوں کی کہانی میں کیا ہونے والا ہے؟ کہنے کے بعد ہرگز سمجھ نہیں آئی کہ آئین اس جوتوں کو شوق سے بنائی جا سکتی ہے یا نہیں؟
 
ابتدالکریم کی جدوجہد کی یہ کہانی ایسی ہے جو ہمارے معیشت میں گھومتی ہے۔ اس وقت بھی جب سے آئین نہیں بنائی گئی، ٹرامیم کا پھیلاؤ شروع ہو رہا تھا۔ ابتدالکریم کی بات کے بارے میں لکھنے والے کو ان کی بات سے ناقد ہونے والے ہیں، لیکن وہ بات یہ ہے جو پہلی جگہ ریکارڈ کی گئی تھی۔ آئین کو شوق سے بنایا نہیں جا سکta.
 
ابتدالکریم کے جوتوں کی یہ بات تو حقیقت میں ایسے سے لگ رہی ہے جو کہی نہیں چاہئے۔ اگر آئین سے بھرپور تعلقات بنائے جائیں تو اس میں انٹرنیٹ سے بھی تعلق ہونا چاہیے نہ کہ ایسے لوگوں کو جبکہ سچائیوں کی طرف ہتھیار ڈالنے پڑے۔
 
جی ووٹرز ان کے باتوں پر نظر دالتے ہیں، آئین کو بنانے میں بھی شوق کے ساتھ کام نہیں کرنا چاہیے تو ان کی جگہ کو کیسے بنایا جا سکta ہے؟ پہلی بار ریکارڈ کیا گیا تھا تو ابھی بھی اس پر اور اس کے بعد کے مرادوں نے اسی طرح کی سلسلہ ٹرامیم کی شروعات کی ہے۔ مولانا بجلی گھر کے دہری دل کو بھی یہ بات سمجھنی چاہیے کہ آئین کی صورت میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ہے اس لیے انہیں بھی اپنے خیالات پر قابو پانا چاہیے۔
 
مگر یہ بات بھی کہیں پہنچ جاتی ہے کہ ابتدائی مراد کی حکومت یا ضیاء الحق کے زمانے میں ٹرامیم نہیں لگائی گئی تھیں تو کیا آئین عبدالکریم کی جوتیاں ہی اس وقت بنائی گئی ہیں؟ اور یہ بات بھی پہلے سے پوچھی جاتی ہے کہ آئین میں انہی ترامیم کی ضرورت تھی یا یہ صرف ایک فسانے کا حصہ ہیں؟
 
یہ بات تو ایسے کہا جائے کہ عبدالکریم کی جوتیاں اور آئین اس کے بارے میں جس بات فیض احمد نے لکھی ہے وہ تو بہت تھوڑی جگہ پر چلی گئی ہے۔ لیکن، یہ بات ایسے کہا جائے کہ آئین میں کچھ نئی شروعات کی ضرورت ہے، اس سے پہلے کے بھٹے کو ختم کرنا چاہیے تو چلی گئے۔ مگر، وہ بات ایسے کہا جائے کہ وہ بات جو فیض احمد نے لکھی ہے وہ بے شک بہت ناگوار گزری ہوگی۔
 
یہ بات تو بھی نہیں پتا کہ ابدالکریم کی قائم ہونے والی حکومت میں ابھی تک ترامیم اور ضیاء الحق کے زمانے کے جیسے حالات دوبارہ لگ رہے ہیں؟ یہ بات بھی نہیں پتہ چلی کہ ان سے پہلے کی حکومت کی بات کس طرح مختلف تھی؟ ابدالکریم کی قائم ہونے والی حکومت میں شوق سے بنائی جاسکیں یا نہیں، یہ بات تو بتائی نہیں گی 🤔
 
ایسا تو لگتا ہے کہ انٹرنیٹ پر ہم سب کو یہ بات پتھی ہوئی ہے کہ کچھ لوگ اپنے مقاصد سے بھٹک کر دباؤ میں اپنی باتوں کی جھاڑ پھیری کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ پر انڈر لائن ہوسٹنگ کے بعد اب لوگ ایسے آپن بلیت بن رہے ہیں جس سے وہ اپنے خیالات کو دوسروں تک پہنچا سکتی ہے۔ حالانکہ یہ بات تو صحیح نہیں کہ انٹرنیٹ پر تمام باتوں کی جھاڑ پھیری کر دی جا سکتی ہیں، لیکن وہ لوگ جو اپنے خیالات کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے اس میں استعمال کرتے ہیں ان کا استحکام ان کی باتوں پر نہیں بلکہ ان کے دباؤ پر ہوتا ہے۔
 
جب مولانا بجلی گھر یہ بات کہتے ہیں کہ آئین عبدالکریم کے جوتوں کو شوق سے بنایا جائے تو وہ ایسا کرو نہیں دیتا ۔ آپ نے انھیں یہ بات بھی اس طرح پہنچائی ہوئی ہے کہ ابھی تک آئین نہیں بن سکتی اور جب تو کی گئی وہ ٹوٹ جاتی ہیں۔ انھیں بھی سچائی کا بدلہ دینا چاہیے کہ ان کے جوتوں کو شوق سے بنایا جائے تاکہ وہ بھی ٹوٹ کر نہ جائیں اور اس طرح یہ خواتن کی ایک دوسری شواہد ہون۔
 
واپس
Top