ابدالکریم کی جوتیاں اورآئین کے بارے میں وہ بات جو فیض احمد نے ایک ایسے فسانے سے سارے کالموں میں جس کاذکر نہ تھا پھیلائی ہوئی ہے، اس کے بارے میں لکھنے والے کو کہنا ہوتا ہے کہ وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے جو پہلی جگہ ریکارڈ کی گئی تھی۔
ابدالکریم کے جوتوں کی کہانی ایسی ہے جس میں جوتے بھاری ہو جاتے اورگھسیٹنے میں مشکل ہوجاتے، یہ کہانی ایسی ہے جس کا خاتمہ نہیں پہچانا جا سکتا۔
ابدالکریم جو ایک بڑا کنجوس آدمی تھا، اس نے اپنے جوتوں کو ایک جدوجہد کا شکار بنایا ہے جو ابھی تک جاری ہے۔
ابتدائی مراد کی حکومت میں بھی یہ سلسلہ ٹرامیم اور ضیاء الحق کے زمانے میں بھی اسی سلسلے کی تکرار کی جارہی ہے، پھر بھی مولانا بجلی گھر نے کہا ہے کہ آئین عبدالکریم کے جوتوں کو شوق سے بنایا جائے بلکہ خیال رکھا جائے کہ آئین اس کی نہیں ہو سکتی۔
انجھے جوتوں کے بعد ان کے ساتھ ہے ایک دوسرا یہ شواہد یہ کہ آئین میں ترامیم بنائی گئی ہیں جو شوق سے نہیں کی جاسکیں۔
ابدالکریم کے جوتوں کی کہانی ایسی ہے جس میں جوتے بھاری ہو جاتے اورگھسیٹنے میں مشکل ہوجاتے، یہ کہانی ایسی ہے جس کا خاتمہ نہیں پہچانا جا سکتا۔
ابدالکریم جو ایک بڑا کنجوس آدمی تھا، اس نے اپنے جوتوں کو ایک جدوجہد کا شکار بنایا ہے جو ابھی تک جاری ہے۔
ابتدائی مراد کی حکومت میں بھی یہ سلسلہ ٹرامیم اور ضیاء الحق کے زمانے میں بھی اسی سلسلے کی تکرار کی جارہی ہے، پھر بھی مولانا بجلی گھر نے کہا ہے کہ آئین عبدالکریم کے جوتوں کو شوق سے بنایا جائے بلکہ خیال رکھا جائے کہ آئین اس کی نہیں ہو سکتی۔
انجھے جوتوں کے بعد ان کے ساتھ ہے ایک دوسرا یہ شواہد یہ کہ آئین میں ترامیم بنائی گئی ہیں جو شوق سے نہیں کی جاسکیں۔