امریکی شہر نیویارک کے پہلے مسلم میئر زہران ممدانی نے پاکستانی نژاد ماہر قانون لینہ ملیحہ خان کو اپنی عبوری ٹیم کی شریک سربراہ مقرر کیا ہے۔ ان دونوں شاندار شخصیات کا یہ فیصلہ، نیویارک شہر کی تاریخ میں ایک نئی نمٹر لانے کا تھا، جس میں پہلا مسلمان اور جنوبی ایشیائی نژاد میئر شامل ہونگے۔
زہران ممدانی کو جنوری 2026 کو عہدہ سنبھالنے کا موقع ملتا ہے، جس سے نیویارک شہر کی تاریخ میں ایک نئی پہلو ہوگا۔ اس شہر کی سرزمین پر سالانہ بجٹ تقریباً 116 ارب ڈالر ہوتا ہے، جو دنیا بھر میں اس کے انتظامی فیصلوں کو خصوصی اہمیت دیتا ہے۔
اب یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ زہران ممدانی نے لینہ ملیحہ خان کو اپنے ساتھ مل کر ایسی ٹیم تشکیل دینا ان کی فخر ہے جو اس وژن کو حقیقت میں بدل سکے اور ڈیموکریٹک طرز حکمرانی کے لیے ایک نئی نمونہ قائم کرے۔
36 سالہ لینہ ملیحہ خان، جو سابق امریکی فیڈرل ٹریڈ کمیشن (FTC) کی چیئرپرسن رہ چکی ہیں، نے اپنے بیان میں کہا کہ نیویارک کے عوام نے واضح پیغام دیا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ایک ایسا شہر تعمیر کیا جائے جہاں محنت کش طبقہ بھی بآسانی زندگی گزار سکے۔
زہران ممدانی کی یہ فہم بہت ہی متحد کن ہے، اس سے نیویارک شہر کا ایک نئا دور شروع ہوگا جس میں تھوڑا سا ہی وقت ہو گا اور انٹرنیٹ پر سب کو دیکھنا پڈنغا ہوگا
میدان یہ ہے کہ نیویارک کے شہریوں نے ایک نئی نمٹر لانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس میں پہلا مسلمان اور جنوبی ایشیائی نژاد میئر شامل ہوگا۔ لینہ ملیحہ خان کو اپنے ساتھ مل کر ایسی ٹیم تشکیل دینا ان کی فخر ہے جو اس وژن کو حقیقت میں بدل سکے اور ڈیموکریٹک طرز حکمرانی کے لیے ایک نئی نمونہ قائم کرے۔ یہ واضح طور پر دیکھا جا رہا ہے کہ نیویارک شہر کی تاریخ میں ایک نئی پہلو آ گیا ہے جس سے اس شہر کو ایک نئی طرف لے جانے کا موقع مل گيا ہے۔
وہ فیصلہ کی بات تو لگتا ہے کہ نیویارک شہر اور پاکستان میں کچھ مل نہیں ہوا ہوگا! پہلا مسلمان اور جنوبی ایشیائی نژاد میئر، یہ گھروں کی دلیڈلی کو بہت ہی متاثر کرے گا!
لینہ ملیحہ خان کو اپنے ساتھ مل کر ٹیم تشکیل دینا اور محنت کش طبقہ کے لیے ایک نئی زندگی کا موقع دوسرا ہے! وہ صرف ایک ایسا شہر تعمیر کرے گی جہاں سارے لوگ بھائی بستروں کی طرح ہمेशا اپنی رائے دیں گے اور محنت سے نکل کے تندرست ہو جائیں گے!
نئی نومڈا! یہ فیصلہ منافقت سے دور کر رہا ہے, مگر کیا نیویارک شہر میں ان کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ ایسا شہر بنائے جس میں سارے لوگ نے اپنا حصہ ڈالا? میری بات تو یوں ہے کہ لینہ ملیحہ خان کو اس ٹیم کی سربراہی کرنے کے لیے کچھ چیلنجز مل چکے ہیں، اس سے پہلے تو وہ صرف ایک ایسے شہر میں تعمیر کر رہی تھی جس کی آبادی صرف ایک لاکھ ہو! اب اس پر نیویارک شہر کا یوں بڑا علاج ہو رہا ہے?
نہیں تو وہ ٹیم ہی پہلے ایک نئی نمٹر لانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں!
ایسے میچ نہیں ہوتے کیوں؟ ایک مسلم اور جنوبی ایشیائی نژاد میئر کو ٹیم کی سربراہی کرنے کا موقع ملتا ہے، پھر بھی یہ ہمیشہ یہی نہیں رہا کہ ایک 36 سالہ ماہر قانون کو ٹیم کی سربراہی کرنے کی جگہ ملتی ہے؟ یہ صرف ایک اعلان تھا، لیکن اس کے پچھلے جانے پر ڈیپ رہتا ہے کہ اس نے شاندار شخصیات کی فضا میں اپنا مقام بنایا ہے؟
اور اسی فضا میں اس نے کیا یہ فیصلہ کیا تھا؟ نیویارک شہر کی تاریخ میں ایک نئی نمٹر لانے کے لیے، جس سے پہلا مسلمان اور جنوبی ایشیائی نژاد میئر شامل ہوگا؟ یہ ایک بڑی بات ہے، لیکن اس کی پچھلے جانے پر ہم کو سوچنا پڑتا ہے کہ اسی طرح کی نئی نمٹریں آئیں گی یا یہ صرف ایک انسپائرر رہی گئی؟
ایسا نہیں ہوگا کہ نیویارک کی سرزمین پر ایک نئی پہلو آئے گی، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نیویارک کی تاریخ میں ایک نئی امانت ملگی ہے۔ لینہ ملیحہ خان کو اپنے ٹیم ساتھ ملا کر شریک سربراہ مقرر کرنا، اس کے متعلق بہت سی نئی اور انتہائی خطرناک فخریں بھی ہوگتی ہیں۔
جب نیویارک کی تاریخ میں ایک نئا نمٹر آئے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ شاندار شخصیات جو اس ٹیم کو تشکیل دے رہی ہیں، نیویارک کی تاریخ میں ایک نئی اٹھال ڈالیں گے۔
یہ فیصلہ کبھی بھی ضروری نہیں تھا کہ نیویارک کی سرزمین پر ایک شاندار شخصیت کا ساتھ مل کر ٹیم تشکیل دی جائے، اور اس طرح کے فیصلوں میں 36 سالہ لینہ ملیحہ خان کی بھی کچھ حقیقت رہنی چاہئے۔
ہو سکتا ہے کہ نیویارک کی تاریخ میں ایک نئی پہلو آئے، لیکن یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ اس وژن کو حقیقت میں بدلنے کی طاقت ڈیموکریٹک طرز حکمرانی کے لیے ایک نئی نمونہ قائم کرنے میں کس قدر مشکل ہوگی۔
زہران ممدانی اور لینہ ملیحہ خان نے ایک ایسا فیصلہ کیا ہے جو مجھے خوش کرتیا ہے، وہ دونوں شاندار شخصیات ہیں جن کی یہ جانشینی میں ایک نئی چیز آگئی ہے، نیویارک کے نیا میئر اب ایک شاندار نتیجہ بننے والا ہوگا۔
میں نہیں سمجھ سکتا کہ وہ دونوں اس بات پر متفق تھے کہ نیویارک میئر نے کیا فیصلہ لیا ہے، لیکن اب یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ لینہ ملیحہ خان کو شریک سربراہ مقرر کیا گیا ہے اور اس کی فخر ہوگئی ہے۔
امریکی شہر نیویارک میں نئی پالیسی کی بات ہوتی تو، یہ واضح کرتی ہے کہ امریکا کی سیاسی سست فٹنگوں پر ایک نئی ہدایت حریصی کو نظر آ رہی ہے۔ لینہ ملیحہ خان کو پاکستانی نژاد ملحہ بنانے کا یہ فیصلہ، وہ بھی فخر کرنے والی بات ہو گی کہ اب اس شہر کی سرزمین پر دوسری طاقت کے لیندے سے محنت کش طبقے کو بھی اچھا معاشرہ مل گا۔ یہ ایک اچھا توجہ مرکوز کرنا ہو گا، کہ لوگوں کی محنتوں پر فخر کی بات کرسکتے ہیں۔
یہ فیصلہ بہت اچھا ہوگا کیونکہ نیویارک شہر کو ایک نئی نمٹ کے ساتھ اہمیت ملی گئی ہے جس میں پہلا مسلمان اور جنوبی ایشیائی نژاد میئر شامل ہوگا۔ اس نے نیویارک شہر کی تاریخ کو ایک نئی سمت دی ہوگی جو محنت کش طبقہ کے لیے بھی ایسی زندگی کے ساتھ آتماں لائی گئی ہوگا۔