امریکا کے نو منتخب مئیر ظہران ممدانی نے 26 ارب پتیوں کی 22 ملین ڈالر کی مہم کو شکست دی جس سے نیویارک میں سوشلسٹ سیاست کو نیا عجائب محسوس ہوا ۔ ظہران ممدانی کے خلاف چلانے کیلئے اپنے ڈالروں کو آگ میں جھونکنے والے ارب پتیوں کے نام سامنے آ گئے ہیں ، جو اس مہم کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔
امریکا کے 26 بڑے ارب پتیوں نے تقریباً 22 ملین ڈالر مختلف انتخابی مہموں، سپر پی ای اے سیز (Super PACs) اور آزادانہ اشتہاری مہمات میں جھونک دیا تاکہ سوشلسٹ نظریات رکھنے والے ممدانی کی کامیابی روکی جا سکے ۔ مگر نتیجہ اس کے برعکس نکلا، عوامی سطح پر منظم مہم اور چھوٹے عطیات پر مبنی سیاسی جدوجہد نے بڑی دولت کے اثر و رسوخ کو مات دے دیا ۔
ان ارب پتیوں میں نمایاں نام مائیکل بلوم برگ، بل ایک مین، جو گیبیا، لاوڈر فیملی کے اراکین، اسٹیو وِن اور ڈینیئل لوب شامل تھے۔ ان تمام لوگوں نے “Fix the City”، “Put NYC First”، “Defend NYC”، اور “Anyone But Mamdani” جیسے گروپوں کے مالی پشت پناہ تھے ۔ بلوم برگ نے تو پرائمری الیکشن کے بعد بھی لاکھوں ڈالر مزید فراہم کیے، جس سے یہ مہم نیویارک کی سیاسی تاریخ کی سب سے مہنگی میئرل دوڑوں میں شامل ہو گئی۔
میگزین Fortune اور Mint نے مجموعی تخمینے کی تصدیق کی جبکہ Business Insider نے ارب پتی عطیہ دہندگان کے نام اور رقم کی تفصیلات شائع کیں، جن سے واضح ہوا کہ انتخابی مہم کے اختتامی ایام میں پیسہ کس شدت سے ممدانی مخالف بیانیے کے گرد مجتمع ہوا ۔
رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ Forbes کے مطابق دو ارب پتی ، لز سائمنز اور گیٹ ہب (GitHub) کے شریک بانی پریسٹن ورنر ، اس بڑے طبقے سے الگ نکلے اور انہوں نے ممدانی کی حمایت کی۔ ان کی حمایت نے امیر طبقے کے اندر پائے جانے والے اختلافات کو واضح کر دیا ۔
انتخابی مہم کے آخری ہفتوں میں ارب پتیوں کے اشتہارات، بیانات، اور پیسے کی برسات بھی عوامی جذبات کو نہ بدل سکی۔ نیویارک کے عوام پہلے ہی عدم مساوات، مہنگے مکانات، اور پبلک سروسز کے بحران سے تنگ تھے۔
میگزین Time نے انتخابات کے بعد تجزیہ کیا کہ ممدانی نے ’’ایک پورے ارب پتی لشکر‘‘ کو شکست دی، ان کی گراس روٹس تنظیم اور چھوٹے عطیہ دہندگان پر مبنی تحریک زیادہ طاقتور ثابت ہوئی۔
ریسرچ گروپ OpenSecrets کے اعداد و شمار سے پہلے ہی ظاہر ہو چکا تھا کہ ممدانی مالی طور پر بھی مقابلے میں کمزور نہیں، جس سے ارب پتیوں کا ’’آخری لمحے کا ہتھیار‘‘ غیر مؤثر ہو گیا۔
ممدانی کی کامیابی نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا امریکہ جیسے آزاد خیال شہر میں ارب پتی طبقے کا اثر و رسوخ اپنی حد کو پہنچ چکا ہے؟ میگزین Fortune کے مطابق وال اسٹریٹ کے کئی بڑے سرمایہ کار اب ممدانی کے ساتھ مفاہمنہ انداز میں پیش آنے کا اشارہ دے رہے ہیں، گویا 22 ملین ڈالر کی ناکامی کے بعد ایک ’’عملی مفاہمت‘‘ کا نیا دور شروع ہو رہا ہے۔
امریکا کے 26 بڑے ارب پتیوں نے تقریباً 22 ملین ڈالر مختلف انتخابی مہموں، سپر پی ای اے سیز (Super PACs) اور آزادانہ اشتہاری مہمات میں جھونک دیا تاکہ سوشلسٹ نظریات رکھنے والے ممدانی کی کامیابی روکی جا سکے ۔ مگر نتیجہ اس کے برعکس نکلا، عوامی سطح پر منظم مہم اور چھوٹے عطیات پر مبنی سیاسی جدوجہد نے بڑی دولت کے اثر و رسوخ کو مات دے دیا ۔
ان ارب پتیوں میں نمایاں نام مائیکل بلوم برگ، بل ایک مین، جو گیبیا، لاوڈر فیملی کے اراکین، اسٹیو وِن اور ڈینیئل لوب شامل تھے۔ ان تمام لوگوں نے “Fix the City”، “Put NYC First”، “Defend NYC”، اور “Anyone But Mamdani” جیسے گروپوں کے مالی پشت پناہ تھے ۔ بلوم برگ نے تو پرائمری الیکشن کے بعد بھی لاکھوں ڈالر مزید فراہم کیے، جس سے یہ مہم نیویارک کی سیاسی تاریخ کی سب سے مہنگی میئرل دوڑوں میں شامل ہو گئی۔
میگزین Fortune اور Mint نے مجموعی تخمینے کی تصدیق کی جبکہ Business Insider نے ارب پتی عطیہ دہندگان کے نام اور رقم کی تفصیلات شائع کیں، جن سے واضح ہوا کہ انتخابی مہم کے اختتامی ایام میں پیسہ کس شدت سے ممدانی مخالف بیانیے کے گرد مجتمع ہوا ۔
رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ Forbes کے مطابق دو ارب پتی ، لز سائمنز اور گیٹ ہب (GitHub) کے شریک بانی پریسٹن ورنر ، اس بڑے طبقے سے الگ نکلے اور انہوں نے ممدانی کی حمایت کی۔ ان کی حمایت نے امیر طبقے کے اندر پائے جانے والے اختلافات کو واضح کر دیا ۔
انتخابی مہم کے آخری ہفتوں میں ارب پتیوں کے اشتہارات، بیانات، اور پیسے کی برسات بھی عوامی جذبات کو نہ بدل سکی۔ نیویارک کے عوام پہلے ہی عدم مساوات، مہنگے مکانات، اور پبلک سروسز کے بحران سے تنگ تھے۔
میگزین Time نے انتخابات کے بعد تجزیہ کیا کہ ممدانی نے ’’ایک پورے ارب پتی لشکر‘‘ کو شکست دی، ان کی گراس روٹس تنظیم اور چھوٹے عطیہ دہندگان پر مبنی تحریک زیادہ طاقتور ثابت ہوئی۔
ریسرچ گروپ OpenSecrets کے اعداد و شمار سے پہلے ہی ظاہر ہو چکا تھا کہ ممدانی مالی طور پر بھی مقابلے میں کمزور نہیں، جس سے ارب پتیوں کا ’’آخری لمحے کا ہتھیار‘‘ غیر مؤثر ہو گیا۔
ممدانی کی کامیابی نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا امریکہ جیسے آزاد خیال شہر میں ارب پتی طبقے کا اثر و رسوخ اپنی حد کو پہنچ چکا ہے؟ میگزین Fortune کے مطابق وال اسٹریٹ کے کئی بڑے سرمایہ کار اب ممدانی کے ساتھ مفاہمنہ انداز میں پیش آنے کا اشارہ دے رہے ہیں، گویا 22 ملین ڈالر کی ناکامی کے بعد ایک ’’عملی مفاہمت‘‘ کا نیا دور شروع ہو رہا ہے۔