وزیراعظم شہباز شریف نے 27 ویں آئینی ترمیم میں وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لیے استثنیٰ کی شق واپس لینے کی ہدایت کی ہے۔ انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ آذربائیجان سے واپسی پر مجھے بتایا گیا ہے کہ میری پارٹی کے چند سینیٹرز نے وزیراعظم کے استثنیٰ کے حوالے سے ترمیمی شق سینیٹ میں پیش کی جو کابینہ سے منظور شدہ مسودے میں شامل نہیں تھا۔
معزز سینیٹرز کے خلوص کا شکریہ ادا کرتے ہوئے میں نے انہیں یہ ترمیم فی الفور واپس لینے کی ہدایت کی ہے، منتخب وزیراعظم یقیناً قانون اور عوام کی عدالت میں جوابدہ ہے۔
شہباز شریف نے مزید کہا کہ چیئرمین کمیٹی فاروق ایچ نائیک نے بھی اس اقدام کو سراہا اور کہا کہ کمیٹی کے فیصلوں میں یہ مثبت پیشرفت ہے۔
دوسری جانب سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ کمیٹی کی رپورٹ کل سینیٹ میں پیش کی جائے گی اور امکان ہے کہ اسی دن ستائیسویں آئینی ترمیم کی منظوری بھی دی جا سکتی ہے۔ دونوں ایوانوں کی قائمہ کمیٹیاں تمام شقوں پر حتمی غور و فکر کر رہی ہیں تاکہ ترمیم کے تمام نکات ایوان میں مکمل وضاحت کے ساتھ پیش کیے جائیں۔
سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے مزید کہا کہ ستائیسویں آئینی ترمیم کے بل کو آج حتمی شکل دے دی جائے گی، اور فیصلہ اکثریتی رائے کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ بل پر تمام سیاسی جماعتوں کی آراء لی جا رہی ہیں، اور فیصلہ ملک کو چلنے والے قانون کے تحت چلا جائے گا۔
اس سے پہلے وہ 27 ویں آئینی ترمیم کی بات نہیں کر رہے تھے، اور اب کہیں تو یہ اس پر بھی کام کر رہا ہے، سینیٹر فاروق ایچ نائیک اپنی رپورٹ کس لیں کی گئی وہ بات نہیں بتا رہا، اور اب یہ اس پر بھی چار چاند لگ رہے ہیں، اور سینیٹر فاروق ایچ نائیک کے بعد دیگرہ لوگ اب ہمیں واپس کیوں بناتے ہیں؟
بھائیو یہ واضح ہوا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے استثناء کو کس طرح واپس لانے پر پہنا ہے، سب سے پہلے معزز سینیٹرز کی ایسی ترمیم کی توجہ میں لینا جو کابینہ سے منظور شدہ مسودے میں شامل نہیں تھی، اور اب وہ ان سینیٹرز کو یہ سبق یاد دلاتے ہیں کہ قانون اور عوام کی عدالت میں جوابدہ رہو!
فاروق ایچ نائیک چیئرمین کمیٹی نے بھی اس پہل کو سراہا اور یہ positivity ہے، لیکن تو ان کا مقصد کیا تھا؟ اور سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ بل کو آج حتمی شکل دے دیا جائے گا اور فیصلہ اکثریتی رائے پر لگے گا، تو اب یہ کھیل کیسے ہو رہا ہے؟
عوام کو انھیں چھپانے کی ضرورت نہیں ہے کہ سینیٹرز نے وزیراعظم کے استثنیٰ کی شق واپس لینے کا ایک راز اور انھوں نے کیا تھا؟ یہ تو بھی ہے کہ وہ عالمی معاشی نظام کے تحت کچھ نہ کچھ نہیں سمجھتے ہیں۔ اور اب وہ شق واپس لینے کی رپورٹ لے آئے ہیں۔ یہ تو 27 ویں آئینی ترمیم کا ایک اچھا سایہ ہے؟
یہ ترمیم کتنا لازمی تھی؟ اب سے وزیراعظم شہباز شریف نے پورے ملک کو سنایا ہے کہ وہ کتنی حد تک استثنیٰ کی شق واپس چھوڑی ہے، اب تو آئین کے حوالے سے ایسی گچچری ہوئی ہے جو اس لئے ہے تاکہ وہ اپنی پارٹی کی فصیلوں کو بھی واپس رکھ سکے۔ معزز وزیراعظم نے سینیٹرز کا شکریہ ادا کیا، لیکن جس راز میں وہ آئین میں ان تبدیلیوں کی ہدایت کر رہے ہیں اس میں انھیں ساتھ لے کر ان کا ایک بھرپور معاملہ بھی کیا جانا چاہیے۔
عوام کو پھر سے واپس کرنے کی یہ نہیں بلکہ ان کی ایسی جگہ کھونے کی تھی، وزیراعظم نے یہ ترمیم لینے سے پہلے آئینی قانون میں بھی تبدیلیاں کرائی ہیں؟ میری نظر میں انہوں نے اس کی جگہ دوسروں کو دی ہے، وزیراعظم کے استثنیٰ پر یہ پورا مشورہ تھا کہ شہر میں پہلے سے بنائی گئی عمارتوں کو واپس لینا؟ اور اب کیا انہوں نے اسے آج واپس کر دیا ہے؟
یہ بات تو حقیقت میں ایک بڑا سہارا ہے کہ اس صورتحال پر انٹرنیٹ پر کچھ لوگ نہیں رہے تھے! یہ بات حتمی ہو گئی ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی ایک نئی واضح ہدایت کی ہے اور اس پر تمام سیاسی جماعتیں متفق ہونگی تو یہ توجہ اور وقت بھی مل جائے گا! اس کے ساتھ ہی انھوں نے معزز سینیٹرز کو شکریہ دیا جو انہیں یہ ترمیم واپس لینے کی ہدایت کی تھی اور اس پر بھی انھیں یقین ہو گئا ہے کہ منتخب وزیراعظم جوابدہ رہے گا!
اس صورتحال پر یہ بات بھی حقیقت ہے کہ چیئرمین کمیٹی فاروق ایچ نائیک نے اس کی سراہی اور انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس میں مثبت پیشرفت ہوئی ہے۔
کمیٹی کی رپورٹ کل سینیٹ میں پیش کرنے اور اس پر ایوان کے فیصلے دوسری جانب یہ بات بھی حقیقت ہے جو ہو رہا ہے!
تھرڈ پارٹی کو یہ بھی اپنی طرف لے کر رہے ہو کے? وزیراعظم نے ان سینیٹرز کو استثنا کی شق واپس لینے کی ہدایت کی، اور اب ان کا خوف تھم جاتا ہے کہ ان کا کیا عمل ہو گا؟ شہباز شریف کی یہ کارروائی سینیٹ میں اچھلتی وچھلتی رہنے والی ترمیم کو مکمل کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے، لہٰذا ان کی کوششوں پر نظر رکھنا چاہئے
اس سے پہلے بھی تو ہم سینیٹ میں کیا نہیں کرتے؟ اور اب یہ کہیں کیوں نہیں، واپس لانے کی یہ ترمیم کیسے ممکن ہوئی؟ اور وزیراعظم کی یہ رائے کیا ہے انہیں پتہ تھا کہ سینیٹرز نے یہ کیا کیا؟ چیئرمین کمیٹی کی یہ روایتی روایت کیسے بدل دی گئی؟ اور یہ سب کیا کامیابی کے لیے ہے؟
یے تو اس بات پر یقین ہے کہ وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لیے استثنیٰ کی شق واپس لینے کی ہدایت ایک بڑا قدم ہے، اور اس پر وزیراعظم شہباز شریف نے ایک قابل ذکر بیان دیتے ہوئے یہ کہا تھا کہ میری پارٹی کے سینیٹرز نے انہیں بتایا تھا کہ میرے استثنا کی شق کو سینیٹ میں پیش کیا گیا ہے جو کابینہ سے منظور شدہ مسودے میں شامل نہیں تھا۔
یہ بھی قابل ذکر ہے کہ معزز سینیٹرز کو ان کی خلوص کے لیے شکریہ ادا کرنے والے وزیراعظم نے انہیں یہ ترمیم واپس لینے کی ہدایت کی ہے، اور اس پر منتخب وزیراعظم کو یقیناً قانون اور عوام کی عدالت میں جوابدہ ہونے کا ایک اہم مقام بنے گا۔
جس طرح چیئرمین کمیٹی فاروق ایچ نائیک نے بھی اس اقدام کو سراہا، اسی طرح سینیٹر فاروق ایچ نائیک کی جانب سے بھی یہ واضح ہونے والا ہے کہ کمیٹی کی رپورٹ کل سینیٹ میں پیش کی جائے گی اور امکان ہے کہ اسی دن ستائیسویں آئینی ترمیم کی منظوری بھی دی جا سکتی ہے۔
یہ سب ایک نئی دیر ہے جہاں سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا تھا کہ ستائیسویں آئینی ترمیم کے بل کو آج حتمی شکل دی جائے گا، اور فیصلہ اکثریتی رائے کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ اس پر سب سیاسی جماعتوں کی آراء لی جا رہی ہیں، اور فیصلہ ملک کو چلنے والے قانون کے تحت چلا جائے گا۔
عصمت بھر پور وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے 27 ویں آئینی ترمیم میں وزارت عظمیٰ کے عہدے کے لیے استثنیٰ کی واپسی کی ہدایت کرنے کی بات تو بہت Nice hai ، لیکن یہ پوچھنا چاہیں گا کہ وہ سینیٹر فاروق ایچ نائیک کی جانب سے رپورٹ کیسے پیش کی جائے گی؟ اور یہ ہدایت کس وجہ سے کی گئی تھی?
علاوہ گئے شہباز شریف نے ایک بیان میں کہا تھا کہ وزیراعظم کو Azerbaijan سے واپسی پر بتایا گیا تھا کہ اس نے کس طرح پارٹی کے سینیٹرز کی ترمیمی شق پیش کی تھی؟ اور یہ ترمیم فی الفور واپس لینے کی ہدایت کیسے کی گئی تھی؟ یہ سب کچھ میں زیادہ جگہ نہیں لی گئی، تو پھر ان سے پوچھنا چاہیں گا کہ انھوں نے کس طرح واپسی کی ہدایت کی تھی؟
اس وقت وزیراعظم شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ کے عہدے کی شق واپس لینے کی ہدایت کی ہے… یوں تو اس سے پتہ چalta ہے کہ کبھی بھی انہیں اپنے ایک بیان میں کہا نہیں تھا کہ وہ صدر بننے کی کوشش کر رہے ہیں…
فاروق ایچ نائیک کو بھی یہ کام آتا ہے کہ اس پر وزیراعظم کی یہ ہدایت پہنچ جائے۔ وہ جو کہے ہے وہی ہو گا… اور سینیٹر فوروق ایچ نائیک کی رپورٹ کو کل سینیٹ میں پیش کرنا ہو گا، جو کہ ایک منظر کے لئے ہے…
سٹیٹسمن انھوں نے 16ویں اور 27ویں آئینی ترمیم میں تبدیلی لانے کی ہدایت کیا تھا، اب وہ بھی ایک بدلائیں کو لاتے جائیں گے… ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ اسی دن ستائیسویں آئینی ترمیم کی منظوری بھی دی جائے گی… جو کہ ایک دھمن میں نہیں رہ گا بلکہ ایک قانون میں…
یہ پتھر گھوڑا! وزیراعظم نے وزیر عظمیٰ کے عہدے پر استثنیٰ لگانے کی بھال بھال واپس لینے کی ہدایت کی، اور سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے جو کہا تھا اس پر ابھی تو غور کیا جاسکتا ہے!
کیوں یہ سینیٹ میں چلا گیا اور کابینہ میں شامل نہیں آیا؟ پھر انہوں نے اسی کو واپس لے کر دیا، اور اب یہ کب کیا جائے گا? اور اس پر آپ کی عدالت کیا ہوئی؟
کیا وزیراعظم کے ساتھ ایسا ہی تھا جیسا جواب دہیوں کو نہیں پالنا پڑتا؟ کبھی بھی اس طرح کی بات کرنے سے قبل اپنی پارٹی کے لوگوں سے بات کر لی جانا چاہیے تاکہ وہ یہ بات سمجھتے ہوئے اسی لئے دوسرے ایکشن کو بھال بھال کروائیں۔
اس کے علاوہ، یہ بات بھی تو کہی گئی تھی کہ اس پر آئین میں واپسی کرنے کی ہدایت کیا جائے گا، اور اب یہ چل رہی ہے کہ ایک ایکٹ فی الفور واپس لے لیا جائے گا!
یہ واضح ہو گیا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی اور بھی پہلی نہیں، ایسا لگتا ہے انہوں نے کچھ دیر سے یہ رائے کو اپنے ساتھ رکھا ہو اور اس وقت تک کبھی کبھار ان کے پاس بھی نہیں آئی تھی کہ انہوں نے یہ بات ایک بیان میں بتائی ہو واضح طور پر یہ رائے اس وقت کبھر کے گی کبھی تو بھی ۔
یہ بات تو بھی پتہ چلتا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی واپسی سے آجہاں تک کچھ تبدیلیاں ہو رہی ہیں، اور یہ ایک خوشنومت کی بات ہے!
آپ سے ناقد نہیں ہوں گے مگر اگر ان سینیٹرز جو کبھی استثنیٰ میں شق واپس لانے کا مطالبہ کرتے تھے وہ اب تو اچھے عمل میں ہیں، اس کی ترجحت اور ایک نئے منظر کو دیکھنا بہت اچھا ہے.
یہ بات واضح ہے کہ 27 ویں آئینی ترمیم میں وزیراعظم نے وزارت عظمیٰ کے عہدے کی ترمیمی شق سے متعلق بات چیت کی ہے اور یہ شق واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم، مجھے یہ سوال لگتا ہے کہ کیا یہ فیصلہ آئین میں بڑی تبدیلی کی طرف لے جائے گا یا اسے صرف ایک چھوٹی ترمیمی شق کے طور پر دیکھا جائے گا؟
سینیٹر فاروق ایچ نائیک کا کہنا کہ پورے بل کو آج حتمی شکل دیا جائے گا اور فیصلہ اکثریتی رائے کی بنیاد پر کیا جائے گا، یہ تھوڑا سا یقینی نہیں ہے۔ کیا اس بل پر تمام سیاسی جماعتوں کی آراء لی جا چکی ہیں؟ یا پوری دنیا میں ایسے مضمون ہیں جیسا کہ سینیٹر نے بیان کیا ہے؟
ایک بار پھر، اس آئین کو لگتا ہے کہ اس میں کمیوں کے بغیر بھی انفرادی فیصلوں کی اجازت دی جائے گا اور یہ نتیجہ بدلے گا؟ ہم کو یہ بتایا جائے کہ آئین میں کسی تبدیلی کے بغیر انفرادی فیصلوں کی اجازت دی جا سکتی ہے یا نہیں؟
اس ساری گمراہی سے باہر آنے کی صرف ایک بات ہے – صحت مند policymaking . انھوں نے اپنی ایسی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے جو دوسروں کو بھی سیکھنا چاہئے۔ یہ واضح ہے کہ انھوں نے اپنے استثنیٰ کے حوالے سے تقریبات کی سند واپس لینے کی ہدایت کی۔ ایک صحت مند نظام میں، انھیں ہمیشہ اپنے فیصلوں کا احاطہ کرنا چاہئے اور واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے اپنی غلطی کو جاننے اور اس سے تعلیم لینے کی صلاحیت دکھائی ہوئی ہے۔
یہ واضح ہو گیا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے اور اس وقت کی پارلیمانی سینیٹ میں بھی انہیں استثنیٰ کی شق واپس لینے کی ہدایت کی ہو گی! کیا اب تو وزیراعظم اپنے نئے عہدے پر فخر سے کام کر رہے ہیں؟ اور یہ سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے انہیں تین گزار دیا ہو!
سنیے اور ان کے خلوص کی شکرگزار ہونے کے باوجود، یہ معاملہ میں ایک بھی سمجھ نہیں آ رہی ہے! سینیٹر انہوں نے اس اقدام کی ترجیح دی، جو بعد میں کب ناکامی کا باعث بنی۔ اور اب یہ چیئرمین کمیٹی فاروق ایچ نائیک نے بھی تین گزار دیا ہو!
شہریوں کی اپنی جگہ ہے، اور وہ اس کو بھی لیتے ہیں کہ انہیں کیا ہوتا ہے!
عزیز آئین کی ترمیم پر بھیڑ ہو رہی ہے، لیکن یہ بات تو چلو کہ وزیراعظم نے ایکFair Decicion لی ہے۔ وہ چاہتے تھے اپنی پارٹی کی سینیٹرز کو شکر کرتے ہوئے یہ ترمیم واپس لینے پر اچھا دکھایا کروں، اور اب وہ یہ بھی دیکھ رہے ہن کہ سینیٹرز نے انہیں ترمیم کی شق واپس لینے کی ہدایت کی۔ حالانکہ یہ بہت ایک حقیقی گھڑیاں ہن، لیکن اب وہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ وزیراعظم اور سینیٹرز دونوں ایک ساتھ کام کر رہے ہیں۔
فورچرل کی بات یہ ہن کہ اس پر آج تک کیا فیصلہ کیا جائے گا؟ آپ کیا خیال ہیں؟