پاکستان کی عدلیہ اور آئینی عدالت دونوں کے تعلقات میں ایک اچھا معاملہ سامنے آیا ہے جس سے واضح طور پر ان دو اقتداروں کے درمیان توازن برقرار رہنا ہوگا۔
ایک طرف آئینی عدالت کی قیام کے حوالے سے دو موقف سامنے آرہے ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ آئینی عدالت کا قیام آزادی عدلیہ پر حملہ ہے۔ حکومت نے عدلیہ کو کنٹرول کرنے کے لیے آئینی عدالت قائم کی ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کو تقسیم کرنے کے لیے آئینی عدالت قائم کی گئی ہے۔
دوسری رائے یہ ہے کہ آئینی عدالت وقت کی ضرورت تھی۔ پاکستان کی عدلیہ ملک کے عام آدمی کو انصاف دینے میں ناکام رہی ہے۔ پاکستان کی عدلیہ از خود نظام انصاف کو موثر کرنے کے لیے اصلاحات کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس لیے پارلیمان کو ایسی اصلاحات کرنی پڑ رہی ہیں۔ عدلیہ نے پاکستان کے آئین سے بہت تجاوزکیا ہے۔ جس کے بعد ایک الگ آئینی عدالت کا قیام ناگزیر ہو گیا تھا۔
اب جب تک میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں دو ہی خطوط سامنے ہیں۔ البتہ مزید خطوط بھیسامنے آسکتے ہیں۔ میرے لکھنے اور آپ کے پڑھنے کے دوران بھی خطوط سامنے آسکتے ہیں۔ لوگ تو استعفوں کی بھی بات کر رہے ہیں۔ لیکن شائد میں سمجھتا ہوں ابھی استعفے نہیں آسکتے۔ ملک میں استعفوں کا ماحول نہیں ہے۔
ان خطوط میں بھی 27 ویں ترمیم کو روکنے کی بات کی گئی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان کو اس ترمیم کو روکنے کے لیے کردار ادا کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ ججز کا کنونشن بلانے کی بھی تجویز دی جا رہی ہے۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے ان خطوط پر کوئی ایکشن نہیں لیا ہے۔
کیا یہ درست نہیں کہ پاکستان کی عدلیہ نے پاکستان کے آئین کے ساتھ بہت تجاوزکی ہے? میں مانتا ہوں کہ آمروں نے آئین توڑا، مارشل لا لگایا۔ لیکن اس ملک کی عدلیہ نے آمریتوں کو جائز قرار دیا، آمروں کو بیک جنبش قلم آئین میں ترمیم کی اجازت دی۔
اس ملک کی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مل کر اس کے مفادات کا تحفظ کیا، وزیرائے اعظم کو گھر بھیجا، انھیں پھانسی دی، انھیں نا اہل کیا، انھیں جیل بھیجا، یہ سب کام پاکستان کی عدلیہ نے ایک آزاد اور خود مختار ہوتے ہوئے کیے۔ عام آدمی کے مقدمات سالہا سال سے زیر التوا ہیں، ہزاروں نہیں لاکھوں مقدمات زیر توا ہیں۔
عدلیہ عام آدمی کو انصاف دینے میں کوئی دلچسپی رکھتی ہی نہیں۔ ساری توجہ سیاسی مقدمات پر ہے۔ اب تو صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ ججز کے سیاسی جھکاؤ سب کو معلوم ہیں۔ ان کی سوچ سب کو معلوم ہے۔ جیسے ایک سیاستدان کی رائے سب کو معلوم ہوتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا آئینی عدالت بننے سے معاملات بہتر ہو جائیں گے۔
یہ اقتدار کا کھیل ہے۔ عدلیہ بھی اقتدار کے کھیل میں ایک پلئیر بن گئی تھی، کم از کم اب اس کی یہ حیثیت ختم ہو جائے گی۔
لیکن میں سمجھتا ہوں آئینی عدالت بننے سے جہاں اقتدار کے کھیل کا توازن بدلا ہے وہاں عام آدمی کو جلد انصاف ملنے کی امید بھی پیدا ہوئی ہے۔ اب سپریم کورٹ کے پاس عام آدمی کے مقدمات کے فیصلوں کے علاوہ کوئی کام نہیں ہوگا۔ وہاں عام آدمی کے مقدمات کی باری جلد آئے گی۔ پہلے ججز آئینی مقدمات میں مصروف ہو جاتے تھے اور عام آدمی کے کیس کی باری ہی نہیں آتی تھی۔ کبھی فل کورٹ بن جاتا تھا، کبھی لارجر بنچ بنایا جاتا تھا۔ عام آدمی کے کیس کی باری ہی نہیں آتی تھی۔ اب سپریم کورٹ پوری توجہ عام آدمی کے مقدمات پر دے سکے گی۔ اس کے پاس کوئی اور کام ہی نہیں ہو گا۔
عدلیہ میں مداخلت کی بات ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ آئینی عدالت میں بھی ججز ہی ہوں گے، وہاں نہ تو پارلیمان کے نمایندے بیٹھے ہونگے اور نہ ہی وہاں کوئی اسٹبلشمنٹ کے نمایندے بیٹھے ہوں گے، وہاں بھی جج ہی ہوں گے۔ اس لیے مداخلت کا کیا سوال ہے۔ آئینی بنچ کے پاس ملک کے آئینی معاملات دیکھنے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہوگا۔ امید ہے کہ آئینی معاملات بھی جلد حل ہوں گے۔
ججز کی ٹرانسفر کی بات ہے تو ایک رائے یہ ہے کہ ججز کی ٹرانسفر کی ترمیم اسلام آباد ہائی کورٹ کی مخصوص صورتحال کی وجہ سے کی گئی ہے۔ میں اس پر زیادہ کچھ تو نہیں لکھنا چاہتا کیونکہ آپ سب جانتے ہیں۔ لیکن عدلیہ میں ججز کی ٹرانسفر اٹھارویں ترمیم سے پہلے موجود تھی، یہ اٹھارویں ترمیم میں اس کو بدل دیا گیا بلکہ مشکل بنا دیا گیا۔
اب کہا جا سکتا ہے کہ دوبارہ اصل شکل میں بحال کر دیا گیا۔ لیکن کیا ججز کا تبادلہ بطور ہتھیار استعمال ہو سکے گا۔ لیکن یہ تبادلہ کرنے کا اختیار حکومت کے پاس نہیں ہے۔ وزیر اعظم یا وزیر قانون تو کسی بھی جج کا تبادلہ نہیں کر سکتے۔ معاملہ جیوڈیشل کمیشن میں جانا ہے، فیصلہ وہاں ہونا ہے، وہاں ججز کی اکثریت بیٹھی ہے۔ جائزہ کیا گیا تو یہ بات سامنے آئی کہ ججز کو ملک میں اس طرح سے ٹرانسفر کیا جائے جو معقول ہو۔
جھگڑوں کی صورتحال کو حل کرنے کے لیے ایک رات بھی نہیں لگتی، اور یہ تو ایک عظیم ملک سے بھی کم نہیں ہوتا۔ اس صورتحال کو حل کرنے کے لیے پوری دیر کی بات نہیں تھی۔ اور پھر ایسا لگ رہا تھا کہ یہ معاملہ اب ہمیشہ کی بات بن جائے گا۔
اس طرح سے تو اس وقت کی صورتحال کو نہیں سمجھ سکتے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ آئینی عدالت کی قیام کے حوالے سے ایک واضع نتیجة نہیں نکالی جا سکتی۔
جھگڑوں کے معاملات میں آئینی عدالت کی مداخلت کو بے توجہ نہیں دی جا سکتی۔ اس بات پر تو ایک بات یقین ہے کہ آئینی عدالت ہمارے آئین وقانون سے باہر چلی گئی ہے۔
جھگڑوں کے معاملات میں ایسا لگتا ہے کہ جیز کو ملک کی عدلیہ میں بھی ٹرانسفر کیا گیا تھا، اور اب جیز کی آئینی عدالت میں بھی ٹرانسفر ہو رہی ہے۔
اس سلسلے میں جب اعلیٰ عدلیہ کے دو سینئر جج صاحبان جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کے خطوط سامنے آئے ہیں تو اس بات سے یہ بات بھی نکل آئی کہ آئینی عدالت میں بھی جیز کا تبادلہ ہو رہا ہے۔
مذکرین خطوط میں ان کی سوچ کو یہ بات بھی سامنے آئی کہ پارلیمان کو اپنی پورے آئین سے باہر اپنی معاملات پر عمل کرنا ہوگا۔
ان خطوط میں جیز کی ٹرانسفر کے سلسلے میں بھی یہ بات سامنے آئی کہ آئینی عدالت میں ایک واضع نتیجہ نکالا جا سکتا ہے، جیسے اس کے خلاف معاف کرنا۔
پارلیمان نے اٹھارویں ترمیم میں عدلیہ کی ٹرانسفر کو زیادہ مشکل بنا دیا تھا، لیکن اب جیز کی ٹرانسفر کا مسئلہ بھی حل ہو گیا ہو گا۔
بھلا یہ تو ایک معاملہ ہے۔ اور اس میں سے ایک رائے یہ ہے کہ جیز کی ٹرانسفر کو ایک قانون بنایا جا سکتا ہے جو آئین وقانون کے طور پر کام کرے۔
جیز کا تبادلہ بطور ہتھیار ایک معاملہ ہے جس کی وجہ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جیز کو ملک میں ٹرانسفر کیا جائے گا، اور اس پر ایک قانون بنایا جا سکتا ہے۔
چیف جسٹس کے ساتھ بھی یہ بات سامنے آئی کہ جیز کو ملک میں ٹرانسفر کیا جائے گا، اور اس پر ایک قانون بنایا جا سکتا ہے۔
ماجر خان نے بھی یہ بات سامنے لائی ہے کہ جیز کو ملک میں ٹرانسفر کیا جائے گا، اور اس پر ایک قانون بنایا جا سکتا ہے۔
جیز کی ٹرانسفر کے مسئلے میں پھر یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملک میں جیز کو ٹرانسفر کرنا مشکل نہیں ہو گا، اور اس پر ایک قانون بنایا جا سکتا ہے۔
پارلیمان کے لیے یہ ایک بھرپور موقع ہے جس پر انہیں اپنی پوری صلاحیتوں کو ظاہر کرنا چاہئے۔
ایک طرف آئینی عدالت کی قیام کے حوالے سے دو موقف سامنے آرہے ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ آئینی عدالت کا قیام آزادی عدلیہ پر حملہ ہے۔ حکومت نے عدلیہ کو کنٹرول کرنے کے لیے آئینی عدالت قائم کی ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کو تقسیم کرنے کے لیے آئینی عدالت قائم کی گئی ہے۔
دوسری رائے یہ ہے کہ آئینی عدالت وقت کی ضرورت تھی۔ پاکستان کی عدلیہ ملک کے عام آدمی کو انصاف دینے میں ناکام رہی ہے۔ پاکستان کی عدلیہ از خود نظام انصاف کو موثر کرنے کے لیے اصلاحات کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس لیے پارلیمان کو ایسی اصلاحات کرنی پڑ رہی ہیں۔ عدلیہ نے پاکستان کے آئین سے بہت تجاوزکیا ہے۔ جس کے بعد ایک الگ آئینی عدالت کا قیام ناگزیر ہو گیا تھا۔
اب جب تک میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں دو ہی خطوط سامنے ہیں۔ البتہ مزید خطوط بھیسامنے آسکتے ہیں۔ میرے لکھنے اور آپ کے پڑھنے کے دوران بھی خطوط سامنے آسکتے ہیں۔ لوگ تو استعفوں کی بھی بات کر رہے ہیں۔ لیکن شائد میں سمجھتا ہوں ابھی استعفے نہیں آسکتے۔ ملک میں استعفوں کا ماحول نہیں ہے۔
ان خطوط میں بھی 27 ویں ترمیم کو روکنے کی بات کی گئی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان کو اس ترمیم کو روکنے کے لیے کردار ادا کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ ججز کا کنونشن بلانے کی بھی تجویز دی جا رہی ہے۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے ان خطوط پر کوئی ایکشن نہیں لیا ہے۔
کیا یہ درست نہیں کہ پاکستان کی عدلیہ نے پاکستان کے آئین کے ساتھ بہت تجاوزکی ہے? میں مانتا ہوں کہ آمروں نے آئین توڑا، مارشل لا لگایا۔ لیکن اس ملک کی عدلیہ نے آمریتوں کو جائز قرار دیا، آمروں کو بیک جنبش قلم آئین میں ترمیم کی اجازت دی۔
اس ملک کی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مل کر اس کے مفادات کا تحفظ کیا، وزیرائے اعظم کو گھر بھیجا، انھیں پھانسی دی، انھیں نا اہل کیا، انھیں جیل بھیجا، یہ سب کام پاکستان کی عدلیہ نے ایک آزاد اور خود مختار ہوتے ہوئے کیے۔ عام آدمی کے مقدمات سالہا سال سے زیر التوا ہیں، ہزاروں نہیں لاکھوں مقدمات زیر توا ہیں۔
عدلیہ عام آدمی کو انصاف دینے میں کوئی دلچسپی رکھتی ہی نہیں۔ ساری توجہ سیاسی مقدمات پر ہے۔ اب تو صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ ججز کے سیاسی جھکاؤ سب کو معلوم ہیں۔ ان کی سوچ سب کو معلوم ہے۔ جیسے ایک سیاستدان کی رائے سب کو معلوم ہوتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا آئینی عدالت بننے سے معاملات بہتر ہو جائیں گے۔
یہ اقتدار کا کھیل ہے۔ عدلیہ بھی اقتدار کے کھیل میں ایک پلئیر بن گئی تھی، کم از کم اب اس کی یہ حیثیت ختم ہو جائے گی۔
لیکن میں سمجھتا ہوں آئینی عدالت بننے سے جہاں اقتدار کے کھیل کا توازن بدلا ہے وہاں عام آدمی کو جلد انصاف ملنے کی امید بھی پیدا ہوئی ہے۔ اب سپریم کورٹ کے پاس عام آدمی کے مقدمات کے فیصلوں کے علاوہ کوئی کام نہیں ہوگا۔ وہاں عام آدمی کے مقدمات کی باری جلد آئے گی۔ پہلے ججز آئینی مقدمات میں مصروف ہو جاتے تھے اور عام آدمی کے کیس کی باری ہی نہیں آتی تھی۔ کبھی فل کورٹ بن جاتا تھا، کبھی لارجر بنچ بنایا جاتا تھا۔ عام آدمی کے کیس کی باری ہی نہیں آتی تھی۔ اب سپریم کورٹ پوری توجہ عام آدمی کے مقدمات پر دے سکے گی۔ اس کے پاس کوئی اور کام ہی نہیں ہو گا۔
عدلیہ میں مداخلت کی بات ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ آئینی عدالت میں بھی ججز ہی ہوں گے، وہاں نہ تو پارلیمان کے نمایندے بیٹھے ہونگے اور نہ ہی وہاں کوئی اسٹبلشمنٹ کے نمایندے بیٹھے ہوں گے، وہاں بھی جج ہی ہوں گے۔ اس لیے مداخلت کا کیا سوال ہے۔ آئینی بنچ کے پاس ملک کے آئینی معاملات دیکھنے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہوگا۔ امید ہے کہ آئینی معاملات بھی جلد حل ہوں گے۔
ججز کی ٹرانسفر کی بات ہے تو ایک رائے یہ ہے کہ ججز کی ٹرانسفر کی ترمیم اسلام آباد ہائی کورٹ کی مخصوص صورتحال کی وجہ سے کی گئی ہے۔ میں اس پر زیادہ کچھ تو نہیں لکھنا چاہتا کیونکہ آپ سب جانتے ہیں۔ لیکن عدلیہ میں ججز کی ٹرانسفر اٹھارویں ترمیم سے پہلے موجود تھی، یہ اٹھارویں ترمیم میں اس کو بدل دیا گیا بلکہ مشکل بنا دیا گیا۔
اب کہا جا سکتا ہے کہ دوبارہ اصل شکل میں بحال کر دیا گیا۔ لیکن کیا ججز کا تبادلہ بطور ہتھیار استعمال ہو سکے گا۔ لیکن یہ تبادلہ کرنے کا اختیار حکومت کے پاس نہیں ہے۔ وزیر اعظم یا وزیر قانون تو کسی بھی جج کا تبادلہ نہیں کر سکتے۔ معاملہ جیوڈیشل کمیشن میں جانا ہے، فیصلہ وہاں ہونا ہے، وہاں ججز کی اکثریت بیٹھی ہے۔ جائزہ کیا گیا تو یہ بات سامنے آئی کہ ججز کو ملک میں اس طرح سے ٹرانسفر کیا جائے جو معقول ہو۔
جھگڑوں کی صورتحال کو حل کرنے کے لیے ایک رات بھی نہیں لگتی، اور یہ تو ایک عظیم ملک سے بھی کم نہیں ہوتا۔ اس صورتحال کو حل کرنے کے لیے پوری دیر کی بات نہیں تھی۔ اور پھر ایسا لگ رہا تھا کہ یہ معاملہ اب ہمیشہ کی بات بن جائے گا۔
اس طرح سے تو اس وقت کی صورتحال کو نہیں سمجھ سکتے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ آئینی عدالت کی قیام کے حوالے سے ایک واضع نتیجة نہیں نکالی جا سکتی۔
جھگڑوں کے معاملات میں آئینی عدالت کی مداخلت کو بے توجہ نہیں دی جا سکتی۔ اس بات پر تو ایک بات یقین ہے کہ آئینی عدالت ہمارے آئین وقانون سے باہر چلی گئی ہے۔
جھگڑوں کے معاملات میں ایسا لگتا ہے کہ جیز کو ملک کی عدلیہ میں بھی ٹرانسفر کیا گیا تھا، اور اب جیز کی آئینی عدالت میں بھی ٹرانسفر ہو رہی ہے۔
اس سلسلے میں جب اعلیٰ عدلیہ کے دو سینئر جج صاحبان جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کے خطوط سامنے آئے ہیں تو اس بات سے یہ بات بھی نکل آئی کہ آئینی عدالت میں بھی جیز کا تبادلہ ہو رہا ہے۔
مذکرین خطوط میں ان کی سوچ کو یہ بات بھی سامنے آئی کہ پارلیمان کو اپنی پورے آئین سے باہر اپنی معاملات پر عمل کرنا ہوگا۔
ان خطوط میں جیز کی ٹرانسفر کے سلسلے میں بھی یہ بات سامنے آئی کہ آئینی عدالت میں ایک واضع نتیجہ نکالا جا سکتا ہے، جیسے اس کے خلاف معاف کرنا۔
پارلیمان نے اٹھارویں ترمیم میں عدلیہ کی ٹرانسفر کو زیادہ مشکل بنا دیا تھا، لیکن اب جیز کی ٹرانسفر کا مسئلہ بھی حل ہو گیا ہو گا۔
بھلا یہ تو ایک معاملہ ہے۔ اور اس میں سے ایک رائے یہ ہے کہ جیز کی ٹرانسفر کو ایک قانون بنایا جا سکتا ہے جو آئین وقانون کے طور پر کام کرے۔
جیز کا تبادلہ بطور ہتھیار ایک معاملہ ہے جس کی وجہ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جیز کو ملک میں ٹرانسفر کیا جائے گا، اور اس پر ایک قانون بنایا جا سکتا ہے۔
چیف جسٹس کے ساتھ بھی یہ بات سامنے آئی کہ جیز کو ملک میں ٹرانسفر کیا جائے گا، اور اس پر ایک قانون بنایا جا سکتا ہے۔
ماجر خان نے بھی یہ بات سامنے لائی ہے کہ جیز کو ملک میں ٹرانسفر کیا جائے گا، اور اس پر ایک قانون بنایا جا سکتا ہے۔
جیز کی ٹرانسفر کے مسئلے میں پھر یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملک میں جیز کو ٹرانسفر کرنا مشکل نہیں ہو گا، اور اس پر ایک قانون بنایا جا سکتا ہے۔
پارلیمان کے لیے یہ ایک بھرپور موقع ہے جس پر انہیں اپنی پوری صلاحیتوں کو ظاہر کرنا چاہئے۔