سمندری گھوڑا
Active member
پارلیمنٹ کو قانون سازی کے حوالے ڈالنا ضروری نہیں، اس کا کام عام عدالتوں پر بھی چھوٹا ہونا چاہیے۔
یہاں پارلیمنٹ کا آئینی ترامیم پر اثر ہے، جس سے عوامی نمائندوں کی حیثیت ختم ہوجاتی ہے۔ ملک میں حال ہی میں عدالتیں اپنے احکامات پر عملدرآمد کرنے کے ساتھ ساتھ قانون سازی میں بھی تھوڑی چھوٹی پیسی چلی گئی ہے۔
پارلیمنٹ کی ناکامی کو اس بات میں سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ عوامی نمائندہ پارلیمنٹ نہیں، اسی لیے وہ قانون سازی پر شافتی پر بھی توجہ نہیں دیتا ہے۔
موجودہ پارلیمنٹ میں پبلک ڈومین کے قانون سازوں کی سز، وکلا، میڈیا اور عوام پر بھی توجہ نہیں دی جاتی ہے۔
ایسے حالات میں سینیٹ میں تبدیلی کا مقصد عدالتوں کو کم اختیارات دینا ہے، جبکہ حلقہ وطنی کی پارلیمنٹ نہیں۔
جدید یورپی اصولوں اور آئین کے مطابق چلنا پڑتا ہے، لیکن یہاں کوئی کام نہیں ہو رہا جس سے ملک کی ترقی کا راستہ کھل جائے۔
حال ہی میں چھت سے دوہری واضحدی اور دंडے ٹولی کے انداز سے حکومت کام کر رہی ہے، لیکن اس نے کوئی عملی کارکردگی نہیں کی ہے۔
ملک میں انڈسٹری چلنا نہیں، روزگار کے مواقع ہی نہیں، مہنگائی بڑھ رہی ہے اور غیر ملکی سرمایہ کاری ختم ہوچکے ہیں۔
جس طرح حکومت نے کچھ کام کیا ہے وہ بھی دیر میں ہو گیا ہے اور انہوں نے سیاسی جگہ پر بھی کوئی چھپنہ نہیں کیا ہے۔
politicے مملکت کے لئے خوف اور بے یقینی سے پریشانی پڑ رہی ہے۔
اب پیپلز پارٹی نے اپنے چارہ جہاں آئینی ترمیمی کمیشن لانے کی تیاری کر رہی ہے، لیکن اس سے عوام کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
اس کے بعد پیپلز پارٹی کی رہنماؤں نے ایسے فیصلوں پر غور کر رہے ہیں جو آئینی ترمیمی کمیشن کو زیادہ متاثر کریں گے، لیکن ان کا تعلق مشاورت سے نہیں بلکہ ہمیشہ Collective committee کی طرف سے ہوتا رہتا ہے۔
جس طرح پیپلز پارٹی آئینی ترمیمی کمیشن پر مشاورت کے عمل میں مصروف ہے، اس کے تمام فیصلوں کو ہی مرکزی کمیٹی کی طرف سے کرنا پڑتا ہے۔
اس لیے چیئرمین پیپلز پارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم پر تفصیلی مشاورت کی جائے گی، جس سے پارٹی اچھی طرح سے اس مسئلے کو سمجھ سکے گے۔
یہاں پارلیمنٹ کا آئینی ترامیم پر اثر ہے، جس سے عوامی نمائندوں کی حیثیت ختم ہوجاتی ہے۔ ملک میں حال ہی میں عدالتیں اپنے احکامات پر عملدرآمد کرنے کے ساتھ ساتھ قانون سازی میں بھی تھوڑی چھوٹی پیسی چلی گئی ہے۔
پارلیمنٹ کی ناکامی کو اس بات میں سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ عوامی نمائندہ پارلیمنٹ نہیں، اسی لیے وہ قانون سازی پر شافتی پر بھی توجہ نہیں دیتا ہے۔
موجودہ پارلیمنٹ میں پبلک ڈومین کے قانون سازوں کی سز، وکلا، میڈیا اور عوام پر بھی توجہ نہیں دی جاتی ہے۔
ایسے حالات میں سینیٹ میں تبدیلی کا مقصد عدالتوں کو کم اختیارات دینا ہے، جبکہ حلقہ وطنی کی پارلیمنٹ نہیں۔
جدید یورپی اصولوں اور آئین کے مطابق چلنا پڑتا ہے، لیکن یہاں کوئی کام نہیں ہو رہا جس سے ملک کی ترقی کا راستہ کھل جائے۔
حال ہی میں چھت سے دوہری واضحدی اور دंडے ٹولی کے انداز سے حکومت کام کر رہی ہے، لیکن اس نے کوئی عملی کارکردگی نہیں کی ہے۔
ملک میں انڈسٹری چلنا نہیں، روزگار کے مواقع ہی نہیں، مہنگائی بڑھ رہی ہے اور غیر ملکی سرمایہ کاری ختم ہوچکے ہیں۔
جس طرح حکومت نے کچھ کام کیا ہے وہ بھی دیر میں ہو گیا ہے اور انہوں نے سیاسی جگہ پر بھی کوئی چھپنہ نہیں کیا ہے۔
politicے مملکت کے لئے خوف اور بے یقینی سے پریشانی پڑ رہی ہے۔
اب پیپلز پارٹی نے اپنے چارہ جہاں آئینی ترمیمی کمیشن لانے کی تیاری کر رہی ہے، لیکن اس سے عوام کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
اس کے بعد پیپلز پارٹی کی رہنماؤں نے ایسے فیصلوں پر غور کر رہے ہیں جو آئینی ترمیمی کمیشن کو زیادہ متاثر کریں گے، لیکن ان کا تعلق مشاورت سے نہیں بلکہ ہمیشہ Collective committee کی طرف سے ہوتا رہتا ہے۔
جس طرح پیپلز پارٹی آئینی ترمیمی کمیشن پر مشاورت کے عمل میں مصروف ہے، اس کے تمام فیصلوں کو ہی مرکزی کمیٹی کی طرف سے کرنا پڑتا ہے۔
اس لیے چیئرمین پیپلز پارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم پر تفصیلی مشاورت کی جائے گی، جس سے پارٹی اچھی طرح سے اس مسئلے کو سمجھ سکے گے۔