ڈھاکہ یونیورسٹی کیمپس میں 2 دیسی ساختہ بم دھماکوں کے بعد سیکیورٹی سخت - Ummat News

کرکٹر

Well-known member
دھaka یونیورسٹی میں دیسی ساختہ بم دھماکوں سے خوف وہراس پھیل گیا، کم ازکم چار افراد زخمی ہوگئے جن میں دو خواتین بھی شامل ہیں۔

عوامی لیگ حکومت میں جبری گمشدگیوں، ہلاکتوں اور لوٹ مار پر ایک دستاویزی فلم کی نمائش کے دوران یہ واقعہ پیش آیا۔ یہ فلم وزارت ثقافت کی طرف سے دکھائی جارہی تھی۔

سہروردی باغ سے پھینکے گئے بم ٹیچر سٹوڈنٹ سینٹر (टीएस سی) کے سامنے گر کر فریٹ گئے۔ ایک طالب علم کے مطابق اس طرح لگا جیسے خام بم کسی موٹرسائیکل سے پھینکے گئے ہیں۔

ملزمان فرار ہوگئے۔ یونیورسٹی کے مختلف طلباگروپ نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اس دوران چھاترا لیگ کے خلاف نعرے بازی ہوئی۔ واضح رہے کہ چھاترا لیگ ، سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی جماعت عوامی لیگ کے کالعد م طلبہ تنظیم ہے۔

ڈھاکا میں مختلف اہم تنصیبات پر سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔ یونیورسٹی پروفیسر نے بتایا کہ حکام ذمے داروں کا سراغ لگانے کے لیے سی سی ٹی وی فوٹیج کا جائزہ لے رہے ہیں۔

پراکٹر سیف الدین احمد نے بتایا کہ ایک دھماکے میں بیگم رقیہ ہال کی رہائشی دو خواتین زخمی ہوئیں۔ ایک اور اطلاع کے مطابق دھماکے میں محکمہ تعلیم کے مدرسہ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جہانگیر عالم چchlدیر کی کمر پر چوٹ آئی۔

دھماکے میں محکمہ تعلیم کے مدرسہ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جہانگیر عالم چchlدیر بھی زخمی ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ دفتر سے گھر جا تے ہوئے جب میں ٹی ایس سی کے پاس سے گزر رہا تھا تو ایک کاک ٹیل میری پیٹھ سے ٹکرا گیا۔

مقامی سب انسپکٹر کمال الدین نے کہا کہ پھینکے گئے بم کاک ٹیل ہیں جن میں تھوڑی مقدار میں بارود یا ملتاجلتا مواد موجود ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ماہرین شواہد کا تجزیہ کرنے کے بعد تصدیق کریں گے۔ واضح رہے کہ دیسی ساختہ کروڈ بھم کو مقامی لوگ کاک ٹیل کہتے ہیں۔

ایک رپورٹر نجم الثاقب بتایا کہ وہ جائے وقوعہ کے قریب ہی بیٹھا چائے پی رہا تھا کہ اچانک ایک کروڈ بم ان کے قریب گرا، جس کے نتیجے میں ان کی موٹرسائیکل کا فیول ٹینک متاثر ہوا۔

چائے سٹال کے مالک عبدالمنان غازی نے بتایا کہ دھماکہ خیز مواد سہروردی باغ کے قریب سڑک کے پار سے پھینکا گیا۔

پیر کے روز سے ڈھاکہ اور ملک کے دیگر مقامات پر کئی بسوں کو نذر آتش کیا جاچکا ہے اور کروڈ بم پھٹنے کے متعدد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔

بنگلہ دیشی دارالحکومت میں کئی دنوں سے، شرپسند بڑے پیمانے پر کارروائیاں کررہے ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ یہ تخریب کاری ڈھاکہ کے باہر سے ہوررہی ہے۔ کرائے کے غنڈے ان واقعات میں ملوث ہیں۔

حکام کا بتانا ہے کہ معزول وزیر اعظم شیخ حسینہ پر گذشتہ سال عوامی مظاہروں کے دوران انسانیت کے خلاف جرائم کے مقدمے میں فیصلہ سنانے کی تاریخ کے ممکنہ اعلان سے قبل جگہ جگہ آتش زنی اور کروڈ بم حملے جاری رہے۔
 
تھوڑا سا دھکے مچایا جانے والا یہ واقعہ کراہن ہوا! چار لوگ زخمی ہوئے جن میں دو خواتین بھی شامل ہیں، اور ڈھاکہ میں ڈرامہ ہے مگر فریٹ گئے؟ ماہرین نے کچھ کہا، پھیر کچھ کہنے کے لئے ہیں، اور یہ سب دھمہ دھما کر دی جاتے ہیں!
 
وہ تو یہ بات کھیلتے ہیں، دھماکے کی پوری تیندگی تو ان کا مظاہرہ ہی تھا، اس کی ٹھیک وغیرت نہیں دیکھی، سڑک پر بھی نہ رکھی، لاکھوں کا نقصان تو پہلا جسے ان نے ڈالا تھا اور اب وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ دھماکہ ایک کارروائی کا حصہ تھا؟ وہ لوگ جو چھاترا لیگ کی رکن ہیں، ان پر تو کسی جasoosi شواہد نہیں ملا پائے گئے؟
 
جی وہ اس بات کو بھی سمجھ لیتا ہوں کہ یہ دھماکے ہر ایسے شہر میں ہوتے جہاں عوام کو تنگ آگے، ایسی صورتحال میں پھنکنے والوں کے لیے آسانی سے مقبول بنتی ہیں۔
 
چال آ گئی ہے! یوں بھی ایک کراؤڈ بم پھنک دیتے ہیں، اور پھر وہاں سے فرار ہو جاتے ہیں? کون سا معزول وزیر اعظم شیخ حسینہ اس کے لئے جواب دے رہا ہے؟ اور یہ بھی کیا سب کچھ جانب پھیلایا گیا ہے، انہیں ناکام کر دیا گیا، وہ بھی انہوں سے فرار ہو گئے ہیں?
 
عجیب ہے نا؟ دھaka میں ایسا کرोडو کی فینٹی بھر گئی ہے کہ اب یہ سانس لینے کا بھی ہلچل بن چکا ہے، یونیورسٹی میں دھماکے آ کر اس طرح کی ساری صورتحال پیدا ہوئی ہے جو کہ خوفناک ہے، سارے شہر پر Sicherity tight kar diya gaya hai… 😩
 
عجیب بات یہ ہے کہ دھaka میں ایسا واقعہ پیش آیا جیسے فلموں میں دکھایا جاتا ہے۔ انٹرنیٹ پر اس واقعہ سے لوگ بے خوف تازہ کو کہتے ہیں جو کہ کھوبم بھی کرتے ہیں اور ایسا لگتا ہے جیسے انہوں نے اپنی فلموں کی بیداری میں کچھ بھی کام کیا ہو۔ یہ اس بات کو दर्शاتا ہے کہ لوگ جب تک انٹرنیٹ پر پہنچ سکتے ہیں، وہ فلموں اور نئے کھوپے بھانپتے رہتے ہیں۔
 
🤕 دھaka میں یہ واقعہ اچانک ہوا تھا، پہلے سے بھی دیسی estructہ کی کرود بم کو مقامی لوگ کاک ٹیل کہتے آئے تھے لیکن یہ دیکھنا مگر دیکھنا ہی نہیں تھا کہ انہوں نے اپنی بولی میں کیا ہوا ہے۔ یہ دھماکہ ٹیچر اسٹوڈنٹ سینٹر کے سامنے ہوا، ایسا لگتا تھا کہ یہ موٹرسائیکل سے پھنکا گیا ہے۔

لیکن یہ بات کوئی بڑھو چکی ہے کہ آج کی نسل میں ہماری پریشانی یہ ہے کہ ہم اپنے گھر کے آس پاس سے بیرونی والوں کو حملے کرنا شروع کرتے ہیں۔

یونیورسٹی میں یہ واقعہ اچانک ہوا تھا، کم از کم چار افراد زخمی ہوئے، ان میں دو خواتین بھی شامل ہیں۔ اس فلم کی نمائش کے دوران یہ واقعہ پیش آیا جس میں جبری گمشدگیوں اور لوٹ مار پر ایک دستاویزی فلم دکھائی جارہی تھی۔

بھیکنے والوں نے ڈھاکا کی یونیورسٹی میں احتجاج کیا، اس دوران چھاترا لیگ کے خلاف نعرے بازی ہوئی۔ یہ دھماکہ ڈھاکا میں سہروردی باغ سے شروع ہوا تھا، پھر ٹیچر اسٹوڈنٹ سینٹر کے سامنے گر کر فریٹ گئے۔

بڑے پیمانے پر لوگ جسمانی زخمی ہوئے، دوسروں کو بھی آگ لگا دی۔ یہ دیکھنا ہی نہیں تھا کہ یہ کیا ہوا ہے۔

اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی کوئی ہوشیار نہیں رکھتا کہ آج کی نسل میں لوگ فلموں کو دیکھ کر ایسا محسوس کرتے ہیں جیسے اس سے آپ کو ان کی ذہنی سرجری کرنے والے کے لئے ایک اچھی فلم مل گئی ہے۔

اس فلم میں یہ بات دیکھنا بھی کیسا تھا جس سے کوئی نہیں سوچتا تھا، جب اسے سامنے لایا گیا تو لوگوں نے اس کا جائزہ لیا اور دیکھا کہ یہ اس کی ایسی فلم ہے جو انہیں آپنی ذہنی صحت کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

اس لیے ہمیں پھر سے اس بات پر توجہ دینا چاہیے کہ ہم اپنی ذہنی صحت کو لازمی طور پر برقرار رکھنا چاہیے اور کسی بھی فلم یا ناول کو دیکھنے سے پہلے ہمیں اس کے متعلق سوچنا چاہیے، اس سے ہم اپنی ذہنی صحت کو آگے بڑھانے میں مدد مل سکتی ہے۔
 
واپس
Top