کوئٹہ میں افغان مہاجرین کا انخلاجاری، جواب کبھی نہیں پاتا ہے
افغانستان جانے والے پناہ گزینوں کی ساتھ لے کر تیس سال قبل کوئٹہ کے مشرقی بائی پاس میں ایک نیا رہائشی مقام قائم کیا گیا تھا، جسے افغان پناہ گزینوں نے اپنی زندگی کی چہل پہل میں قائم کیا تھا، لیکن اب وہی ایسی صورتحال سامنے آئی ہے جس سے ان کے بھی صبح کے دن گزریں اور رات کے دن آگے بڑھیں ہیں، یہ سوچنا مشکل ہو گیا ہے کہ کس قدر ان کے ساتھ خوفناک حالات سامنے آئے ہیں، جس کی وجہ سے وہ اپنی زندگی کو نئی پالیسی میں بدلنا مجبور ہوئے ہیں۔
تھین سال قبل اور اس وقت کا حال کو دیکھتے ہیں تو کوئٹہ کے مشرقی بائی پاس میں ایک بنجر اور خالی زمین پر ایک نئا رہائشی مقام قائم کیا گیا تھا، جس پر افغان پناہ گزینوں نے اپنی زندگی کی شروعات کی تھی، لیکن اب وہی ساتھ آ کر اس مقام پر پہنچتے ہیں جو وہاں رہتے تھے اور اسے ایک نئی زندگی کے طور پر اپنا بناتے ہیں، لیکن اب ان کے سامنے ایسی صورتحال سامنے آئی ہے جس سے انہیں پتہ چلتا ہے کہ وہاں پر کوئٹہ کے سرکاری حکام کی جانب سے صحت مند سہولیات نہیں فراہم کی جا رہی ہیں، جس سے انہیں مشکل مقام پر پھنسنے کا سبب بنتے ہیں۔
انہوں نے اپنی زندگی کو ایک نیا راستہ اختیار کرنا مجبور ہونے کے باوجود اب بھی ان کی زندگی میں بہت ساری چیلنجز آتی رہی ہے، جن میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جو اپنی خواتین کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنی پوری زندگی کا فائدہ اٹھاتے ہیں، لیکن اب ان کی یہ زندگی بھی ناقابل تسلی ہو گئی ہے۔
انہوں نے پاکستان حکام سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنی جانب سے کوئٹہ سے آنے والوں کو اس صورتحال کی وجہ سے بچانے کی کوشش کریں، لیکن انہیں اس سے پتہ نہیں چلا کہ وہ کس قدر صحت مند اور ضروری سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے اب انہیں افغانستان جانے کا ایک بھرپور راستہ ملا ہے۔
افغانستان جاننے والے پناہ گزینوں کے مطابق وہ افغانستان میں جانے کی پریشانی سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں، کیونکہ ان کو جانتا ہے کہ یہاں تک کے سہولیاں بھی افغانستان میں موجود نہیں ہوں گی، اس لیے انہیں اپنی زندگی کو ایک نیا رہن سہنا لگ رہا ہے۔
کوئٹہ کے اکثر علاقوں میں جہاں افغان پناہ گزین آباد ہیں، وہاں پر اشیا کی خرید و فروخت بھی جاری ہے، لیکن انہیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ اسی سہولیات کو اپنی جانب سے نہیں لینا چاہتے، اس لیے ان کی شان و شاکصتی بھی ایسے ہی رہتی ہے۔
کوئٹہ کے اکثر علاقوں میں جہاں افغان پناہ گزین آباد ہیں، وہاں پر اشیا کی خرید و فروخت بھی جاری ہے، لیکن انہیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ اسی سہولیات کو اپنی جانب سے نہیں لینا چاہتے، اس لیے ان کی شان و شاکصتی بھی ایسے ہی رہتی ہے۔
افغانستان جانے والے پناہ گزینوں کی ساتھ لے کر تیس سال قبل کوئٹہ کے مشرقی بائی پاس میں ایک نیا رہائشی مقام قائم کیا گیا تھا، جسے افغان پناہ گزینوں نے اپنی زندگی کی چہل پہل میں قائم کیا تھا، لیکن اب وہی ایسی صورتحال سامنے آئی ہے جس سے ان کے بھی صبح کے دن گزریں اور رات کے دن آگے بڑھیں ہیں، یہ سوچنا مشکل ہو گیا ہے کہ کس قدر ان کے ساتھ خوفناک حالات سامنے آئے ہیں، جس کی وجہ سے وہ اپنی زندگی کو نئی پالیسی میں بدلنا مجبور ہوئے ہیں۔
تھین سال قبل اور اس وقت کا حال کو دیکھتے ہیں تو کوئٹہ کے مشرقی بائی پاس میں ایک بنجر اور خالی زمین پر ایک نئا رہائشی مقام قائم کیا گیا تھا، جس پر افغان پناہ گزینوں نے اپنی زندگی کی شروعات کی تھی، لیکن اب وہی ساتھ آ کر اس مقام پر پہنچتے ہیں جو وہاں رہتے تھے اور اسے ایک نئی زندگی کے طور پر اپنا بناتے ہیں، لیکن اب ان کے سامنے ایسی صورتحال سامنے آئی ہے جس سے انہیں پتہ چلتا ہے کہ وہاں پر کوئٹہ کے سرکاری حکام کی جانب سے صحت مند سہولیات نہیں فراہم کی جا رہی ہیں، جس سے انہیں مشکل مقام پر پھنسنے کا سبب بنتے ہیں۔
انہوں نے اپنی زندگی کو ایک نیا راستہ اختیار کرنا مجبور ہونے کے باوجود اب بھی ان کی زندگی میں بہت ساری چیلنجز آتی رہی ہے، جن میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جو اپنی خواتین کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنی پوری زندگی کا فائدہ اٹھاتے ہیں، لیکن اب ان کی یہ زندگی بھی ناقابل تسلی ہو گئی ہے۔
انہوں نے پاکستان حکام سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنی جانب سے کوئٹہ سے آنے والوں کو اس صورتحال کی وجہ سے بچانے کی کوشش کریں، لیکن انہیں اس سے پتہ نہیں چلا کہ وہ کس قدر صحت مند اور ضروری سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے اب انہیں افغانستان جانے کا ایک بھرپور راستہ ملا ہے۔
افغانستان جاننے والے پناہ گزینوں کے مطابق وہ افغانستان میں جانے کی پریشانی سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں، کیونکہ ان کو جانتا ہے کہ یہاں تک کے سہولیاں بھی افغانستان میں موجود نہیں ہوں گی، اس لیے انہیں اپنی زندگی کو ایک نیا رہن سہنا لگ رہا ہے۔
کوئٹہ کے اکثر علاقوں میں جہاں افغان پناہ گزین آباد ہیں، وہاں پر اشیا کی خرید و فروخت بھی جاری ہے، لیکن انہیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ اسی سہولیات کو اپنی جانب سے نہیں لینا چاہتے، اس لیے ان کی شان و شاکصتی بھی ایسے ہی رہتی ہے۔
کوئٹہ کے اکثر علاقوں میں جہاں افغان پناہ گزین آباد ہیں، وہاں پر اشیا کی خرید و فروخت بھی جاری ہے، لیکن انہیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ اسی سہولیات کو اپنی جانب سے نہیں لینا چاہتے، اس لیے ان کی شان و شاکصتی بھی ایسے ہی رہتی ہے۔