الیکشن کمیشن نے کامیابی کے بغیر بھرپور انتخابات کی ضرورت کی وضاحت میں آئین میں اہم ترمیم کی سفارش کی ہے۔ اس کمیشن نے اپنے قانونی تجزیے کے ذریعے سنا کیا کہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ووٹنگ پورسے بھرپور اور تعملی صلاحیت سے نمٹنے میں کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی۔
الیکشن کمیشن نے آئین کے آرٹیکل 224 ون میں ایسے ترمیم کی تجویز پیش کی ہے جس سے اسمبلیوں کی تحلیل کے صورت میں انتخابات پانچ سالوں کے بجائے 120 روز میں کرانے کی جانے سے بھرپور اور مؤثر انتخابات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اس طرح ایسے حالات میں جب اسمبلی کی مدت تمام ہو جائے تو انتخابات آٹھ महینوں کے بجائے چار منths کی مدت میں کرانے کی تجویز دی گئی ہے۔
الیکشن کمیشن نے یہ بھی تجویز دی ہے کہ انتخابی مہم کا دورانیہ چھ دہائی سے زیادہ نہیں ہو سکتا اور اسے 45 دن تک محدود کرنا چاہئے تاکہ بیلٹ پیپرز کو اچانک تھم جائے اور ایسی صورت میں شائستگی کا ساتھ دینے کی اجازت دی جا سکے۔
الیکشن کمیشن نے اس پر بات چیت کرنے اور یہ ترمیم کو الاقسائی کی سطح پر موافقت کرنے کے لیے اپنی قانونی ریفارم کمیٹی سے مل کر وزارت پارلیمانی امور کو اس کے مطابق ایک خط بھیجا ہے۔
ایسا دیکھنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے ان تمام ترمیموں کی تجویز کی جس سے انتخابات بھرپور اور تعملی صلاحیت سے نمٹ سکتے ہیں اور ووٹنگ پورسے بھرپور اور مؤثر اقدامات سے نمٹ سکیں گے۔ اس طرح کی ترمیم کے بغیر ایک منتخب ہونے والے رکن کے بعد ایسے حالات میں کئی سال طے نہ کر سکتے ہیں۔
تجویز کی گئی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسمبلی کی تحلیل کی صورت میں انتخابات چھ ماہ تک نہیں چل سکتیں بلکہ ان کو چار ماہ کے قریب کر دیا جا سکتا ہے۔ اس طرح سے بیلٹ پیپرز کو اچانک تھمایا جا سکتا ہے اور اس صورت میں شائستگی کا ساتھ دینے کی اجازت دی جا سکتی ہیں۔
یہ دیکھنا بہت اچھا ہے کہ الیکشن کمیشن نے اپنی قانونی ریفارم کمیٹی سے مل کر وزارت پارلیمانی امور کو اس میں موافقت کرنے کی وضاحت دی ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ انتخابات میں کوئی نا کوئیProblem آتا ہے، لेकिन اب انتخابات کے ساتھ ساتھ ان کی حل کرنے کے لیے بھی کوئی نا کوئیPlan رکھنا چاہئے۔ میری opinion میں ایسا ہونا چاہئے کہ ووٹنگ پورسے ہم سب کچھ کامیاب کریں، لہذا ایسے ترمیم کرنی چاہئے جو انتخابات کو بھرپور اور مؤثر बनائے، جیسے کہ انہیں 120 روز میں کرانے سے بھرپور اور تعملی صلاحیت سے نمٹنے میں کامیابی حاصل کرنا ہوگا।
الیکشن کمیشن کی یہ تجویز محتاج تعبیریاں ہیں! پانچ سالوں میں انتخابات کرانے کی بات تو پہلی بار سنی ہے، اس کی نہایت ترتیبی اور منظم ہونا ضروری ہے۔ لیکن ووٹنگ پورسے بھرپور اور تعملی صلاحیت کا یہ لطف لینا تو کیسے؟ اس میں اہلیت والوں کی بات ہونا چاہیے نہیں۔
بڑی بڑی بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کی تجویز کو لگتا ہے کہ پانچ سالوں میں انتخابات 120 روز میں کر دیئے جائیں اور اسمبلی کا معیار بھرپور رہتا ہے تو ووٹنگ پورسے بھرپور اور تعملی صلاحیت سے نمٹنے میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے.
یہ تجویز بھی لگتی ہے کہ چھ دہائی سے زیادہ انتخابی مہم کی مدت نہیں ہو سکتی اور اسے 45 دن تک محدود کرنا چاہئے تاکہ بیلٹ پیپرز کو اچانک تھم جائے اور شائستگی کا ساتھ دینے کی اجازت دی جا سکے.
جب پرنٹ میڈیا بھی اس بارے میں بات کر رہا ہے تو یہ بات واضح ہے کہ اب انصاف اور شائستگی کی بحث ایسے وقت پر لگتی ہے جب الیکشن کمیشن نے اس پر بات چیت کرنے اور ترمیم کو موافقت کرانے کے لیے اپنی قانونی ریفارم کمیٹی سے مل کر وزارت پارلیمانی امور کو ایک خط بھیجا ہے.
الیکشن کمیشن کی یہ تجویز میں پھر سے میرا خیال ہے کہ انتخابات بھرپور اور مؤثر ہونے کے لیے ان ترمیموں کو ضروری ہیں تاکہ ووٹنگ پورسے لڑائی سے نمٹنے میں کامیابی حاصل کی جا سکے
پنج سال کی مدت میں انتخابات چلانا بھی ایک جھٹکا ہے اور اس کی وجہ سے پیارے نہیں لوگ ووٹ لڑتے ہیں جب کہ دوسرے 120 روز میں انتخابات چلایا جائے تو اس میں بھی ایسے اہم ماحول کی ضرورت ہے جس سے ووٹر کو اپنے حق کے لیے لڑنے میں کامیابی حاصل کی جا سکے
اس سے بھوت پلاگ کی ناکام ریلیز ہونے سے بچنا اور ایسے لوگوں کو دور کیا جائے جیسے بیٹل پیپرز کا شکار ہوں گے، اس طرح ووٹر اپنے حق کے لیے لڑ سکیں گے اور ناخواندگی کے خلاف بھی ایک لڑائی جیت سکتی ہے
الیکشن کمیشن کی یہ تجویز دیکھتے ہی میں یقین رکھتا ہوں کہ انتخابات میں شائستگی اور حقیقت کی جگہ پوری ہوتی ہے سارے ترمیم کی سفارش کرنے والی بھرپور پارٹی کی بات ہے۔ مینے تھوڑا سا سوچا کہ یہ پانچ سال کی مدت تو اس کی ضرورت نہیں، کیونکہ آج پوری دنیا میں ایسے ہی اہم معاملات آ رہے ہیں جن پر سارے ووٹرز کو اپنی نظر رکھنی چاہئیے۔ ان کوششوں کا مقصد ایسا نہیں بلکہ بھرپور انتخابات کے لئے یہ ساتھ دینی ہے!
اس وقت کی انتخابات کی نیند اچانک ہو گئی ہے، لگتا ہے جیسا کہ پورے ملک میں ایسے لاحقات ہیں جو پھر سے ووٹنگ پورسے بھرپور انتخابات کی تجویز کو تیز کر دیتے ہیں
علاقوں میں لوگ ایک دوسرے کی طرف اٹھتے ہیں، پچھلے کے برعکس آج بھی ووٹ کی جانب لوگ اپنا توجہ کھینچ رہے ہیں ، دیکھتے ہیں کہ جیسے جیسے مضمون پڑھتے چلئے ان سے مل کر ووٹ کو سبق سناتا ہے
تمام پیسے دیتے ہیں تو لیکن ووٹ پر نہیں رہیں گا .. انتخابات میں صرف پैसہ کا معاملہ نہیں ہوتا بلکہ اس کی حقیقت یہ ہے کہ ووٹ پر ہی ملتا ہیں اور انہیں ایسی ترمیم کی ضرورت ہے جو انتخابات کو بھرپور بنائے .. لگتا ہے ادارہ کا یہ کام کامیاب نہیں ہوا گا اگر ووٹریوں کو ان کے حق میں فائدہ ہو گا۔