امریکا اور چین کا تجارتی معاہدے کے فریم ورک پراتفاق، نایاب معدنیات اور ٹیرف پر بڑی پیشرفت

استاد

Active member
دونوں ممالک کے اعلیٰ سطحی اقتصادی حکام نے کوالالمپور میں ایک نئے تجارتی معاہدے کے فریم ورک پر اتفاق کر لیا ہے، جو اہم پیشرفت کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس معاہدے میں پانچواں بالمشافہ دورِ مذاکرات شامل تھا، جس نے دونوں ممالک کے درمیان ایک بار فिर توازن برقرار کرنے کی توقع کی ہے۔

عالمی میڈیا کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس پیشرفت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ آئندہ دنوں میں چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات میں معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے پُرامید ہیں۔

چینی نائب وزیراعظم ہی لیفینگ اور سینئر مذاکرات کار لی چنگ گانگ سے ملاقات کیے جنہوں نے معاہدے کے مواقع پر بات چیت کی۔ یہ مئی کے بعد سے فریقین کے درمیان ہونے والا پانچواں بالمشافہ دورِ مذاکرات تھا، جس میں زرعی تجارت، فینٹانائل کے بحران، ٹک ٹاک، بندرگاہی فیس، اور نایاب معدنیات کی برآمدات جیسے امور پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔

بیسےانتھا کہتا ہے کہ معاہدے کے مجوزہ خاکے کے تحت چین اپنی نایاب معدنیات کے لائسنسنگ نظام کو ایک سال کے لیے موخر کرے گا، جب کہ امریکا چین پر 100 فیصد Produkte کے نفاذ سے اجتناب کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس پیشرفت سے تجارتی کشیدگی کم ہونے اور زرعی شعبے میں استحکام آنے کی توقع ہے۔

امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسینٹ نے مزید کہا کہ چین جلد امریکی سویابین کی خریداری دوبارہ شروع کرے گا، جس سے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی توازن بہتر ہونے کی امید ہے۔

چینی مذاکرات کار لی چنگ گانگ نے تصدیق کی کہ دونوں فریقین ابتدائی اتفاقِ رائے تک پہنچ چکے ہیں۔ ان کے مطابق، “امریکی موقف سخت رہا، تاہم مذاکرات تعمیری ماحول میں ہوئے اور معاہدے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔”
 
چائے پیتے کے بعد یہ بات پھر سے نئی نہیں ہے کہ دو بڑی طاقتوں کے درمیان معاہدے پر توجہ کا مرکز ہو جاتا ہے، پھر اور فریٹ ٹرین کی طرح ان کی رانی کو سلاجتے ہیں ، وہ بھی یہی نہیں بلکہ کولمبو میں اس معاہدے پر ایسے تجارتی موازنہ جیسا تو آئندہ دنوں کی توقع کی جا سکتی ہے، لیکن وہ معاہدے کے بعد بھی پچتاوے کا رخ نہیں کرتے ، سیکھنا اور دوسروں کو سکھانے میں ان کی طاقت ہے، آپ سے کیا چاہتا ہو؟
 
یہ بھی توقع کیا جا سکتا ہے کہ یہ معاہدہ دو ممالک کے درمیان ایسی ترقی کی نشاندہی کریگا جو کہ کئی سالوں سے انki سے بھرپور تجارت اور تعاون پر مشتمل ہونے والی توقع کی جانتی ہے.
 
یہ تو بالکل بھاگ رہا ہے! پچیس گھنٹوں میں ایسا معاہدہ بن جاتا ہے جو کئی ماہوں یا سالوں کی مہم میں لگتا تھا۔ اور اب کولамبو میں یہ معاہدہ ہوا ہوا ہے۔ ایک سسٹین سیریز میں پانچویں بالمشافہ دورِ مذاکرات، اور اب دونوں دوسرے ملکوں نے ایسا معاہدہ کیا ہے جو کئی نئے مواقع کو پیدا کر رہا ہے۔ زرعی تجارت، فینٹانائل کے بحران، ٹک ٹاک، اور نایاب معدنیات کی برآمدات جیسے امور پر بات چیت ہوئی ہے۔ اور اب پچاس فیصد ایسا معاہدہ بن گیا ہے جو سارے تجارتی معاملوں کو حل کرنے کے لیے ایک نئی دھار اٹھا رہا ہہے۔

چین کی نایاب معدنیات کے لائسنسنگ نظام کو ایک سال کے لیے موخر کرنے کا معاہدہ، اور امریکا چین پر 100 فیصد Produkte کے نفاذ سے اجتناب کرنے کا عہد۔ اب پچاس فیصد اس سے بڑھ کر تجارتی کشیدگی کم ہونے اور زرعی شعبے میں استحکام آنے کی توقع ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ اگر یہ معاہدہ حتمی شکل پاتا ہے تو دونوں ممالک کے درمیان تجارتی توازن بہتر ہو جائے گا۔ اور اس سے امریکی سوئابین کی خریداری چین میں دوبارہ شروع کرنی پڑے گی۔ یہی نہیں بلکہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں ایسی نئی دھار ہے جو دنیا کو دیکھنے والی ہے۔
 
ایسا محو کرتوت۔ یہ معاہدہ تو توازن برقرار کرنے کی توقع ہی کیا جائے گا، لیکن یہ بھی سوچنا چاہئے کہ اس سے چین کے لئے نایاب معدنیات کے حصول میں بھی مزید استحکام ملے گا؟ اور امریکا کو وہ تجارتی توازن کس کی وعدے پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے؟ یہ سوالات محسوس ہی نہیں کرتے?
 
اس معاہدے سے قبل کیا یہ پہلے نہیں تھا کہ دونوں اور دو ممالک ایسے تجارتی معاہدوں پر بات کرنے کی کوشش کریں? ابھی یہ بات بھی پتہ چل گئی ہے کہ چین نے اپنا نایاب معدنیات لائسنسنگ نظام ایک سال تک موخر کیا ہے، اس لیے یہ کہتے ہیں کہ اچھا ہو گا؟ اور امریکی سینیٹ نے بھی اس معاہدے میں چین کے لئے ایک نئی فرصہ ملنے کی خوشی کے ساتھ انہیں امریکی سویابین کی خریداری دوبارہ شروع کرنا ہوگا؟ یہ معاہدے کون اور کیسے بنائے گئے؟ یہ پوری کوشش کیا گیا ہے؟ اس کے لئے کوئی ذرائع نہیں ہیں؟ 🤔
 
آپ نے یہ مہمات تو کر لی ہیں، اب کئی سالوں سے اس میں تبدیلی نہیں آئی اور ابھی ایک معاہدہ میں ان کے فائدہ بھی ہوا ہے! اور اسی طرح 100 فیصد بنامہ نہیں!
 
اس معاہدے سے لگتا ہے کہ دونوں ممالک اپنے تجارتی مناظر کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ ایک اچھا قدم ہے۔
 
ایسا لگتا ہے کہ ایک اچھا تجارتی معاہدے کی پیشرفت نے دونوں ممالک کے درمیان ایک نئی ترمیم آفر دی ہے۔ اس معاہدے میں پانچواں بالمشافہ دورِ مذاکرات شامل تھا اور دونوں ملکوں کے اعلیٰ سطحی اقتصادی حکام نے اس پر اتفاق کر لیا ہے۔

اس معاہدے سے یہ امید ہے کہ تجارتی کشیدگی کم ہونے اور زرعی شعبے میں استحکام آنے کی توقع ہے، جس سے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی توازن بہتر ہوگا। امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے بتایا ہے کہ چین جلد امریکی سویابین کی خریداری دوبارہ شروع کرے گا، جو تجارتی توازن کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔
 
بھارت اور امریکا کے درمیان یہ تجارتی معاہدہ کئی سالوں سے چل رہا تھا، لیکن اب تک کسی نتیجے کا نتیجہ نہیں ہوا تھا۔ اب یہ فائصلہ لگنے کی توقع تھی کہ دونوں ممالک کو یہ معاہدہ موقوع کیا جائے گا۔ لیکن یہ بات بھی تھی کہ اس سے نتیجے کس طرح لگتے ہیں؟ 100 فیصد مصنوعات کا امریکی جانب سے استحکام کرنا وہاں تک اچھا ہو گا، لیکن یہ بھی تھا کہ چین اور امریکا کے درمیان ایسی معرکزیات کی دھماکہ نہیں ہونی چاہیے۔
 
ابھی 90 کی دہائی کے فلموں میں بھی ایسا نہیں تھا جتنا اب تک کیا گیا ہے۔ دونوں ممالک نے اپنی اہلیتیں چیلنج کر دیں اور ایک نئے تجارتی معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ اس میں پانچواں بالمشافہ دورِ مذاکرات شامل تھا، جس سے کہتا جا سکتا ہے کہ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی جانب سے اپنی اہلیتیں چیلنج کرنے والی نئی دنیا میں قدم رکھ لیا ہے۔ امریکی صدر کو یہ خوشی ہو گئی کہ وہ آئندہ دنوں معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے چینی صدر سے ملاقات کر سکnge اور اس پر پورا اعتماد کر skegega.

اس معاہدے کا یہاں ایک لازمی حصہ نہیں ہوگا جس سے چین اپنی نایاب معدنیات کے لائسنسنگ نظام کو ایک سال کے لیے موخر کرے گا اور امریکا انہیں ناکام کرے گا۔ اس کی بجائے، دونوں ممالک نے ٹک ٹاک، زرعی تجارت، فینٹانائل کے بحران اور بندرگاہی فیس جیسے امور پر بات چیت کی ہے جو ایک نئی دنیا میں ہو رہی ہے۔ اس سے کہتا جا سکتا ہے کہ دونوں ممالک نے اپنی اہلیتیں چیلنج کرنے کی ایک نئی دنیا میں قدم رکھا ہے جہاں معاشی کشیدگی کم ہونے اور زرعی شعبے میں استحکام آنے کی توقع ہے۔
 
بھی! چین اور امریکا کے درمیان ایسا معاہدہ بننا مشکل ہے، لیکن جس پر اب تو اتفاق ہوا ہے وہ ایک بڑا قدم ہے. یہ معاہدہ زرعی تجارت، فینٹانائل کے بحران اور ٹک ٹاک سے لے کر نایاب معدنیات کی برآمدات تک شامिल کر رہا ہے. چینی سرکار کی جانب سے بھی ایسا پیش نظر آ رہا تھا کہ وہ اپنے اچھے معاشی منصوبوں پر پورے عالمی سامع ہون گے.

لیکن یہ بات کوئی غلط نہیں کہ اس معاہدے میں بھی ایسی Challenges ہیں جیسے کہ چین کی نایاب معدنیات کی لائسنسنگ نظام کو موخر کرنا اور امریکہ کے لیے یہ معاہدے پر 100 فیصد Products کے نفاذ سے پوری طرح نمٹنا ہوگا.

تجارتی کشیدگی کم ہونے کی بات بھی ہوئی، لیکن تجارتی توازن میں استحکام آنے کی اور شعبہ زراعت کو بہتر بننے کی توقع ہے. اور یہ بات ہی سچ ہے کہ اس معاہدے سے چین کے لیے بھی ایسا ہونا چاہئے جیسا کہ امریکہ کو.
 
اس معاہدے نے مجھے یاد دلاتا ہے جب امریکی صدر بیل کلنٹن اور چینی ریاستKevin خلا نے کوالامپور میں ایک تجارتی معاہدے پر دستخط کیے تھے، اس نے 1998ء میں ہونے والی ٹیکسٹائل مابعد جنگ میں اچھی رہنمائی کی تھی۔

یہ معاہدہ ایک نیا دور کا اشارہ ہے، جیسا کہ 1990ء کی دہائی میں نہر 3 کی تعمیر کے بعد تین ممالک نے ایک ساتھ مل کر تجارت کی تھی، اب بھی یہ معاہدہ جاری ہے اور اس نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط بنایا تھا۔
 
واپس
Top