کھانسی کے شربت سے بچوں کی اموات کیوں ہو رہی ہیں؟

طبلہ نواز

Well-known member
پھر سے! کھانسی کا شربت پیانا ایک خطرناک کام ہے، جو نہ صرف مریض کی زندگیوں کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ وہ بھی ان میں مر جاتا ہے جو ایسے دوایاں استعمال کرتے ہیں جس میں خطرناک کیمیکل موجود ہوتے ہیں۔

دونوں ممالک جیسا کہ Madhya Pradesh اور Rajasthan میں آج سے تین دن سے لگ بھگ دوازہ بچے ہلاک ہوئے ہیں، جو ان شربتوں کو پی کر ڈائیتیلین گلائیکل نام کا کیمیکل استعمال کرتے تھے جو جسم کے لیے نقصان دہ ہے اور انسان کو موت تک پہنچاتا ہے۔ اس کے علاوہ سाल 2022 میں گیمبیا، ازبکستان، انڈونیشیا اور کیمرون میں بھی 300 سے زائد بچے ایسے شربتوں کو پی کر مر چکے تھے۔

ایسے واقعات کے بعد متعلقہ صحت کی تنظیم دنیا بھر میں دواؤں کی حفاظت پر سوالات لگائی ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ کھانسی اور نزلہ زکام کی دوائیں انفنت بچوں کو نہ دی جائیں۔ بھارتی وزارت صحت نے پورے ملک میں چھاپے مار کر ان 19 فیکٹریوں کی جائزہ لی، اس سے بعد میں صحت کے معیار پر آجاز کیا جا سکتا ہے۔

متاثر ہونے والے بچوں میں بخار، قے، پیشاب کی بندش اور گردوں کے انفیکشن جیسی علامات سامنے آئیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس زہریلے شربت میں 48 فیصد سے زیادہ ڈائیتھائیلا گلائکل موجود تھا جو عالمی معیار سے 500 گنا زیادہ ہے۔

عالم ادارۂ صحت نے آلودہ ادویات کی شدید توجہ دی اور کہا کہ ان کے خلاف ایک ماڈیکل رٹ جاری کیا گیا ہے، جو تمام ممالک کو اپنے مارکیٹ میں موجود دوائیں کی سخت نگرانی کرائے گا۔

اکثر یہ کیمیکل ان اجزاء کی جگہ غلط طور پر استعمال کیا جاتا ہے جو دواؤں میں سہولت ہیں، جیسے پروپائلین گلائکول، گلیسرین یا سوربیٹول۔

مختصران کے مطابق اس سانحے کی ذمہ داری ادویہ ساز کمپنیوں اور حکومتی ریگولیٹرز دونوں پر عائد ہوتی ہے، اور وہ ایسا بھی نہیں کرتے ہیں جو معیار کو جائزے کے طور پر بناتے۔

اس کے ساتھ ہی صحت کے مہم جوں کے مطابق، خاص طور پر بھارت جیسے ممالک میں جہاں چھوٹی ادویہ ساز کمپنیاں بڑی تعداد میں کام کرتی ہیں، وہاں کوالٹی کنٹرول کا سخت نظام نہ ہونے کی وجہ سے ایسے واقعات بار بار پیش آتے رہتے ہیں۔

یہ معاملہ نیا نہیں ہے جیسا کہ یہ واقعہ 1937 میں امریکہ میں ایک ایسی ہی آلودہ دوا پینے سے 100 سے زائد لوگ موت کے شکار ہوئے تھے، اور اس کی طرح 1972 سے بھارت میں 19 مرتبہ اس طرح کے واقعات ہو چکے ہیں جس میں 300 سے زائد بچے مر چکے ہیں۔
 
ایسے ماحول میں بھی کبھی بھرپور ہوا نہیں آتے، اس شربتوں کی دیکھ بھال کو جاری رکھنا ایک بڑا کام ہے۔ یوں تو ان شربتوں میں موجود کیمیکل انفنت سے خطرناک ہیں، لیکن وہی نہیں جس سے لوگ مر جاتے ہیں، وہی اور وہی دوائیں استعمال کی جاتی ہیں جو ان شربتوں کا ایک حصہ ہوتے ہیں۔
 
بھارتیاں جو اپنے بیٹوں کو ان شربتوں سے بنائے ہوئے کیمیکلز کو ملا کر پی رہے ہیں تو آپ کے بیٹے نہیں ہون گے، اور ان شربتوں سے بنایا کیمیکل ایک خطرناک کام ہے جو آپ کے بیٹوں کی زندگی کو کھونے لگتا ہے۔

یہ وہی سچائی ہے جس پر دنیا میں تمام ماہرین صحت نے انکار کر دیا ہے، اور اب یہ سچائی دنیا کی پوری عرصے کے برعکس ہو چکی ہیں تاکہ لوگ اس شربت کو پی کر اپنی زندگی کو بدل سکے۔

ان شربتوں سے بنایا کیمیکل ایک خطرناک کام ہے جو آپ کے بیٹوں کی زندگی کو کھونے لگتا ہے، اور اب یہ واضع ہو چکا ہے کہ ان شربتوں سے بنایا کیمیکل کو کسی بھی ملک میں بھی انفنت خطرناک سمجھنا چاہئے۔
 
🤐 یہ واقعہ بھی دے دیتا ہے کہ ڈائیتیلین گلائیکل جس میں شربت میں استعمال ہوتا ہے وہ ایک اچھی قیمتی چیز نہیں ہے، یہ بھی کہتا ہے کہ اس کی کارکردگی سے مریض کا زندگی نہیں ملتی بلکہ وہی مر جاتا ہے جو اسے استعمال کر رہے ہیں، یہ دیکھنا بھی ہلاکتوں کی ایک طویل فہرست پیش کرتا ہے جو پہلے سے ہی جاننے میں آتا تھا لیکن اب اس کو واضح طور پر دیکھنا بھی آچھا لگ رہا ہے کہ یہ شربت نہیں پینا چاہیے
 
😱 وہ دوایاں جو مریضوں کو دیتی ہیں ان کے استعمال سے ہزاروں بچے مر چکے ہیں، ان میں خطرناک کیمیکل موجود ہوتے ہیں جو انسان کی زندگی کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ یہ بھی کہتا ہے کہ اگر بچے ان شربتوں سے محفوظ رہتے تو وہ دوایاں استعمال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں پاتے، لیکن یہ سبق ہمیں نہیں سمجھتا کہ ان شربتوں سے بچوں کو محفوظ رکھنا مشکل ہے اور وہ دوایاں استعمال کرنے والے ماہرین کو یہ نہیں سمجھتا کہ ان شربتوں سے لگ بھگ دوازہ بچے مر چکے ہیں۔
 
اس کے بعد یہ صرف ایک واقعہ نہیں رہا، حالانکہ میری عمریں پھر سے شروع ہونے والی ہیں۔ ان شربتوں کو پی کر مرنے والے بچوں کی کہانی دیکھنا گہرا کھوڑا لگ رہا ہے.

سعودی عرب میں ایک بچے کے مرنے کے بعد سے آئے یہ واقعات دنیا کے سامنے آ رہے ہیں، اس سے قبل گیمبیا میں بھی ان سے متعلق کئی واقعات سامنے آتے تھے۔

اس سے پہلے یہ سوشل مीडیا پر بھی توجہ فراہم ہو رہی ہے، اس کے بعد ڈاؤنڈ لائٹس اور نیوز چینلز نے اسTopic کو اپنی سیریز میں شامل کر لیا ہے۔

اس سے بھی پتہ چalta ہے کہ یہ شربت کمپانیوں اور حکومت کی ذمہ داری ہے، انہوں نے ان ادویات کو استعمال کرنے پر پابندی لگا دی ہے، حالانکہ ابھی تک پتہ چالتا ہے کہ وہ سچمے آن لاگے رہیں گے یا نہیں۔

ایسے واقعات کی طرح تو ایک بار فون پر لگ جاتی ہے تو دوسرا بھی فون پر لگ جاتا ہے، اور ابھی تک پتہ چalta ہے کہ یہ واقعات کبھی نہیں ٹھہرے گا.
 
ایسا کیو۔ ان شربتوں کو پی کر کئی دفعے موت تک پہنچاتا ہے اور مریضوں کی زندگی بھی تباہ کر دیتا ہے؟ یہ تو بہت ہی خطرناک کام ہے، جیسا کہ اب تک ہونے والے واقعات سے لگتا ہے۔ اور ایسا لگتا ہے اس کے پیچھے کچھ بھی نہیں کیا جا رہا تاکہ ایسے واقعات بار بار نہ ہوں۔
 
🚨 یہ واقعات اتنا ہی آہم کہ بھارتی حکومت نے تمام دواؤں کو چھاپے میں لینے کا فیصلہ کر لیا ہے اور ابھی تک موجودہ دوائیوں کی جانچ کرکے ان پر سٹریٹجک ماسٹرپلان بنایا گیا ہے۔

مذاکرات کے بعد یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ تمام دوائیوں کی ایک نئی سسٹم براہ راست سٹریٹجک انٹی گریڈہ کے تحت آنے کی کوڈی بنائی جائے گی جو ان کے معیار اور اجزاء کو ہر سال کے دوران چیک کرے گی۔
 
عقل ki baat karein, yeh sab khatarnaak hai, jo bacheon ko mar sakti hai. yeh shirbet to koi medicines nahin hai, woh sirf kamzor log pehele hi nahi istemaal karte the kyunki ve alag symptoms dekhte hain. isliye humein apni aavshyakataon ke hisaab se medicines lena chahiye aur doctor ki salah lene ki zaroorat hai. yeh sab ek bada masla hai, jo humein dhyan mein rakhna chahiye
 
😷اس کھانسی کی دوائیں اور نزلہ زکام کی دوائیں انفنت بچوں کے لیے حتنا خطرناک ہیں! ڈائیتیلین گلائیکل کا استعمال جسم کے لیے نقصان دہ اور موت تک پہنچاتا ہے... یہ توہنے لگتا ہے کہ بھارتی وزارت صحت نے اس کے بارے میں کچھ کیا ہے، لیکن یہ معیار کو جائزے کے طور پر بنانے کا کام کئی سالوں سے جاری رہا ہے... 😡
 
ایسا لگتا ہے کہ یہ دوائیں انفرادی طور پر استعمال نہیں کی جاتیں، وہ سیکھنے میں بھی آدھر ہیں، اور اب تک کی پوری صورتحال کا ایک ایسا پتہ چلنا ہوگا کہ دنیا بھر کے معیار پر کوئی بات نہیں رہ سکتی ، لہذا ان دوائیں ایسی توڑ دینی چاہیے جو انسان کی زندگی کو نقصان پہنچاتی ہیں...
 
واپس
Top